تحریک انصاف نے بغاوت کچلنے کیلئے پنجاب کابینہ میں توسیع کی

تحریک انصاف نے آزاد ارکان صوبائی اسمبلی کی بغاوت کچلنے کے لئے پنجاب حکومت کی کابینہ میں توسیع کی۔ گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو بنی گالہ میں عمران خان سے طویل مشاورت کے بعد پنجاب حکومت کی 23 رکنی کابینہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس میں حافظ ممتاز احمد، مخدوم ہاشم بخت، سمیع اللہ چوہدری، فیاض الحسن چوہان، محمد سبطین خان، سردار آصف نکئی، حافظ عمار یاسر، یاسر ہمایوں سرفراز، میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، میاں نعمان لنگڑیال، راجہ بشارت، علیم خان، راجہ رشید حفیظ، حسنین دریشک، ملک محمد انور، ڈاکٹر یاسمین راشد، تیمور خان، محسن لغاری، مراد راس، چوہدری ظہیر الدین، انصر مجید نظامی اور ہاشم ڈوگر کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم صوبائی وزارت کا قلمدان حاصل کرنے والوں میں صرف ایک آزاد ایم پی اے تیمور خان کو شامل کیا گیا۔ باقی تمام ایسے ارکان صوبائی اسمبلی کو نظرانداز کر دیا گیا جنہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن جیتنے کے بعد تحریک انصاف جوائن کی تھی۔ ان ارکان کی تعداد 26 کے لگ بھگ ہے۔ لاہور میں موجود باخبر ذرائع کے مطابق اس ڈویلپمنٹ پر ان دو درجن سے زائد آزاد ارکان صوبائی اسمبلی میں اشتعال پھیل گیا تھا۔ ان کے غم و غصے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 31 اگست کو جب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبائی پارلیمانی پارٹی کے اعزاز میں عشایئے کا اہتمام کیا تو ان میں سے 17 کے قریب ارکان نے عشایئے کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ذرائع کے بقول بائیکاٹ کرنے والوں میں آزاد ارکان کے علاوہ چند ایسے ایم پی ایز بھی تھے جو اگرچہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 2018ء کا الیکشن جیتے تھے لیکن انہیں بھی صوبائی کابینہ سے باہر رکھنے کا رنج تھا۔
پہلے مرحلے میں بنائی جانے والی 23 رکنی کابینہ میں شامل 12 ایم پی ایز کا تعلق ماضی میں نون لیگ اور قاف لیگ سے رہا ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم بخت نے 2013ء میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ اسی طرح صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری بھی پرانے نون لیگی ہیں اور 1997ء میں نون لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ اسی طرح نئی پنجاب کابینہ کے ارکان سردار آصف نکئی، میاں محمد اسلم اقبال، ملک نعمان لنگڑیال، راجہ بشارت، راجہ رشید حفیظ، ملک محمد انور، محسن لغاری اور چوہدری ظہیر الدین کبھی قاف لیگ کی کشتی کے سوار تھے۔ جبکہ صوبائی کابینہ میں اتحادی پارٹی مسلم لیگ ’’ق‘‘ کے موجودہ ایم پی اے حافظ عمار یاسر بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے عشایئے کا بائیکاٹ کرنے والے ارکان نے بطور احتجاج فارورڈ بلاک بنانے کا عندیہ دیا تھا۔ جس پر تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ دینے والے 16 نون لیگی ایم پی ایز کے بارے میں یہ خبریں چل رہی تھیں کہ وہ اپنے دیگر ہم خیال ارکان صوبائی اسمبلی کو ساتھ ملا کر پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے جا رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دوسری جانب اسی نوعیت کی صورت حال کا سامنا تحریک انصاف کو بھی تھا۔ بائیکاٹ کرنے والے بھکر کے ایک ایم پی اے کا کہنا تھا کہ ان سے جو وعدے کئے گئے، تحریک انصاف اسے پورا کرتے دکھائی نہیں دے رہی۔ موصوف کو اپنے اور دیگر ساتھیوں کو کابینہ میں شامل نہ کرنے کا اتنا دکھ ہے کہ وہ اپنے قریبی لوگوں سے یہ داستان بیان کرتے پھر رہے ہیں کہ انہیں کس طرح نون لیگ کے ٹکٹ کے بجائے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا اور یہ کہ جن کے کہنے پر انہوں نے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑا اب وہ ان کا فون تک نہیں اٹھا رہے۔ چنیوٹ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ کر پی ٹی آئی جوائن کرنے والے ایک اور ایم پی اے کی زبان پر بھی اسی نوعیت کا شکوہ ہے۔ ذرائع کے مطابق بغاوت پر آمادہ آزاد ارکان کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب کابینہ میں توسیع کا فیصلہ کیا تو تعداد اتنی تھی کہ قلمدان کم پڑ گئے۔ یوں بیشتر کووزیراعلیٰ پنجاب کا مشیر اور معاون خصوصی کے طور پر کھپانا پڑا۔ پنجاب کابینہ میں 12 ستمبر کو مزید جن بارہ وزراء کا اعلان کیا گیا ان میں تحریک انصاف جوائن کرنے والے چار آزاد ایم پی ایز مہر محمد اسلم، سید حسنین جہانیاں گردیزی، محمد اجمل چیمہ اور شوکت لالیکا شامل ہیں۔ باقی دیگر 6 آزاد ارکان صوبائی اسمبلی رفاقت گیلانی، حنیف خان پتافی، محمد سلمان نعیم، عبدالحئی دستی، خرم سہیل خان لغاری اور فیصل حیات جیوانہ کو وزیراعلیٰ پنجاب کا مشیر اور معاون خصوصی بنا کر رام کیا گیا۔ تاہم سب سے زیادہ احتجاج کرنے والے سید اکبر نوحانی اور تیمور علی لالی کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرنے والے ان دونوں ایم پی ایز سمیت ایک درجن کے قریب اب بھی ایسے آزاد ارکان باقی ہیں جنہیں نہ وزارت ملی اور نہ ہی انہیں مشیر یا معاون خصوصی بنایا گیا۔ اور اب بھاری بھرکم پنجاب کابینہ میں مزید گنجائش بھی نہیں ہے۔ محروم رہ جانے والے آزاد ارکان صوبائی اسمبلی میں علمدار قریشی، بشارت رندھاوا، مسعود گیلانی، طاہر رندھاوا، باسط سلطان بخاری، خاور علی شاہ، راجہ صغیر احمد، تیمور علی لالی، سید اکبر نوحانی اور دیگر شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس صورت حال میں پنجاب حکومت کے سر پر خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی کیونکہ وزارت نہ ملنے پر صرف آزاد ارکان ہی ناراض نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے چند دیگر ارکان بھی ان کے ہمنوا ہیں، جو ماضی میں قاف لیگ اور نون لیگ کا حصہ رہ چکے ہیں۔
پنجاب اسمبلی اس وقت پانچ پارٹیوں کے 354 ارکان پر مشتمل ہے۔ ان میں تحریک انصاف کے ایم پی ایز کی تعداد 175 ،نواز لیگ 159، قاف لیگ 10، پیپلز پارٹی 7، پاکستان راہ حق پارٹی ایک جبکہ دو آزاد ارکان ملک احمد علی اور نجم سیٹھی کی اہلیہ میمونہ محسن عرف جگنو محسن شامل ہیں۔ یوں تحریک انصاف نے محض 16 ارکان کی برتری سے پنجاب حکومت بنا رکھی ہے۔ اس کی اتحادی پارٹی قاف لیگ کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 26 ہو جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اگر وزارت نہ ملنے والے ارکان کھل کر سامنے آ جاتے ہیں تو یہ برتری مزید کم ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ بظاہر نون لیگ سے دور رہنے والی پیپلز پارٹی کے 7 ارکان صوبائی اسمبلی اگر آگے چل کر نون لیگ سے جا ملے تو پنجاب حکومت کا مشکل میں آنا خارج از امکان نہیں۔ ذرائع کے بقول یہی وجہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی مدد سے تحریک انصاف ، نواز لیگ کے مزید 20 سے 22 ارکان پنجاب اسمبلی کا فارورڈ بلاک بنانے کی خواہش رکھتی ہے تاکہ صوبائی ایوان میں اپنی برتری کو مستحکم کیا جا سکے۔ ٭

Comments (0)
Add Comment