قسط نمبر: 224
وہ ساری رات مرزا فخرو پر بھاری گزری۔ وزیر خانم سے رسم و راہ، اور رسم و راہ ہی نہیں، زندگی بھر کا نباہ ان کے وجود کی اہم ترین ضرورت بن گیا تھا۔ وزیر اگر ان کی نظر میںکوئی خانگی یا ڈیرہ دارنی ہوتی تو کام آسان تھا۔ لیکن ان کا دل اسے صرف عورت سمجھنے، اور لین دین کے قابل عورت سمجھنے سے منکر تھا۔ ایسا نہیںکہ انہیں وزیر کے حالات و کوائف کی پوری خبر نہ تھی۔ سچ پوچھئے تو یہ خبر سارے دلی کو تھی۔ نور بائی کے بعد اگر طبقۂ مخدرات، یا شرفا کے زمرے کے باہر کی کوئی عورت، یا کوئی غیر بیگماتی عورت، (یا بازاری عورت، جو جیسا بھی سمجھتا) ایسی تھی کہ اس کا نام اور اس کے حسن و جمال اور دلبری کی صفات کے چرچے سب زبانوں پر تھے تو وہ چھوٹی بیگم تھی۔ یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ایک زمانہ اس کا نادیدہ دلدادہ تھا، لیکن یہ بھی تھا کہ ہر کوئی اس کے آستان تک رسائی کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ نواب ضیاء الدین احمد خان بہادر کے ساتھ جو گزری تھی اس کی خبر، یا افواہ، یا گپ، شدہ شدہ ان سبھی دلی والوں میں عام ہوچکی تھی جو عشق و عاشق کے کوچوں کی ہوا کھانے کو لازمہ حیات سمجھتے تھے۔ یا لازمہ حیات نہیں تو وہاں کے حالات سے باخبری ان کے لئے خوش وقتی کا ایک مشغلہ ضرور تھا۔
لیکن مرزا فتع الملک بہادر کا معاملہ اور تھا۔ اپنے باپ کے برخلاف انہیں نئی نویلی دلہنیں لانے اور کثرت سے شادیاں رچانے کا شوق نہ تھا۔ ارباب نشاط اور دل باختگی و دل فروشی کے معاملات میں ان کی دلچسپی بس اتنی ہی تھی جتنی اس زمانے کے رؤسا میں رائج تھی۔ وزیر خانم میں انہیں شریک حیات کی تلاش تھی۔ اور یہ تلاش صرف اس بنا پر نہ تھی کہ وزیر کے حسن کے شہرے جو ان تک پہنچے تھے ان کی تصدیق اس کی تصویر نے کر دی تھی۔ دل لگانے کو وہ زندگی کا اہم مقصد گردانتے تھے، لیکن دل لگانا اور دل بہلانا ان کے لغت میں دو الگ باتیں تھیں۔
بہت رات گئے مرزا فخرو کو اپنے استاد اور دوست امام بخش صہبائی کا خیال آیا۔ صہبائی نے مرزا فخرو کو فارسی کے درس مدتوں دیئے، لیکن ان کی عمروں میں تفاوت بہت نہ ہونے کی وجہ سے دونوں میں جلد ہی استاد شاگردی یا شاہزادہ اور درباری کے بجائے رئیس اور مصاحب کا رشتہ قائم ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ صہبائی کی حس مزاج بہت لطیف تھی۔ شہزادہ اگر کبھی بے دماغ یا بد خط بھی ہوتا تو وہ اپنے شگفتہ جملوں سے اسے شگفتہ کر دیتے تھے۔ صہبائی سے مشورہ کرنے میں یہ فائدہ بھی تھا کہ وزیر خانم سے جو معاملات بھی طے ہوئے ہوتے، انہیں کی معرفت طے ہوسکتے تھے، کسی اور ملاں یا میانجی گر کو بیچ میں لانے کی ضرورت نہ تھی۔
اگلی صبح کو مولوی صہبائی ابھی چاشت کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ صاحب عالم و عالمیاں کا ایک چوبدار ایک کوزے میں ٹھنڈا دودھ اور ایک کوری ہانڈی میں گرم گلاب جامنیں اور دوسری ہانڈی میں مال پوے لے کر مولوی صاحب کے دروازے پر پہنچا کہ صاحب عالم نے ناشتہ بھجوایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ مولانا صاحب بشتاب حویلی مبارک میں صاحب عالم و عالمیان مرزا محمد سلطان غلام فخرالدین بہادر کے ایوان خاص میں تشریف لے آویں۔ چوبدار کو تو انعام دے کر رخصت کیا گیا اور صہبائی دو گھڑی بعد برآمد ہوکر قلعے کے لئے سوار ہوئے۔ صہبائی کی عمر اس وقت چالیس سے کچھ کم تھی، لیکن چہرے کی نرمی اور بدن کے بہت دبلے پتلے دھان پان ہونے کی وجہ سے تیس پینتیس سے زیادہ کے نہ لگتے تھے۔ چہرے پر خشخشی داڑھی مغل طرز کی، یعنی کلوں پر چھدری اور ٹھوڑی پر زیادہ نمایاں، سفید پاجامہ ایک برکا، سر پر سفید گوشیہ ٹوپی، جس کے کناروں پر ہلکی نیلی اور سنہری بیل، اس زمانے کے رواج کے موافق پٹے دار گھنے چمکیلے بال، گلے میں آبی رنگ کا کرتا، اس پر نیلے رنگ کا انگرکھا لیکن سادہ، انگرکھے پر موسم کے اعتبار سے ہلکی یا بھاری عبا، غرض نہایت خوبصورت شخص تھے، اور بالخصوص اس وجہ سے اور بھی اچھے لگتے تھے کہ ان کا چہرہ ہمیشہ مسکراتا ہوا سا معلوم ہوتا تھا۔
فارسی زبان اور ادب و انشا میں مرزا غالب اور شاید حکیم مومن خان، اور عربی میں علامہ فضل حق خیر آبادی کے سوا مولانا صہبائی کا ثانی سارے ہندوستان میں کوئی نہ تھا۔ باپ کی طرف سے وہ فاروقی تھے اور ماں کا سلسلہ نسب غوث پاک حضرت سید عبدالقادر جیلانی سے ملتا تھا۔ لیکن وہ چونکہ کسی صاحب ثروت خاندان کے نہ تھے، اس لئے بہت متمول نہ تھے اور دلی کالج کو نوکری سے جو وجہ مقرری ملتی تھی، اسی پر ان کی زیادہ تر گزران تھی۔ ہر چند کہ ان دنوں کے حساب سے وہ تنخواہ بہت تھی، لیکن تنخواہ داری اور امیر زادگی میں فرق تو ہے ہی، اس لئے مرزا غالب جیسے رئیس اور خاندانی لوگ انہیں اپنے برابر کا نہ سمجھتے تھے۔ پھر یہ بھی تھا کہ مولوی صہبائی باعتبار سن ان سب کبار و کبرا میں میں کم عمر تھے۔ یہ سب سہی لیکن معما گوئی اور عروض و بدیع و بیاں میں ان کا لوہا سب مانتے تھے۔ معما گوئی میں ان کی مہارت اور اس فن سے ان کی مناسبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ایک بیت ایسی کہی تھی جس میں کئی سو اسما بطریق معما پوشیدہ تھے اور بسا اوقات ایک مصرعے سے دس دس نام برآمد ہو سکتے تھے۔ اچھے اچھے لوگ سر مار کر تھک جاتے، لیکن معما حل کرنے سے قاصر ہوکر مولوی صہبائی کے در فضیلت پر دستک دیتے اور معما کا حل معلوم کرتے۔
اردو عروض پر مولانا صہبائی کا بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے میر شمس الدین فقیر کی کتاب ’’حدائق البلاغت‘‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ لیکن اصل کتاب میں مندرج عربی فارسی مثالوں کی جگہ اردو مثالیں رکھ دیں۔ ان کا یہ ترجمہ اسی زمانے میں مکمل ہوا تھا، جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت اس ترجمے سے بھی زیادہ ان کے جس کام کا شہرہ تھا وہ ان کے معمے تھے، جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اسمائے پاک پر بنائے تھے۔ یہ معمے اس قدر مشکل تھے کہ مصنف کی وضاحت کے باوجود بہت مشکل ہی سے سمجھ میںآتے تھے۔ اسی ضمن میں ان کا رسالہ ’’گنجینہ رموز‘‘ فن معما گوئی پر بہت مشہور ہوا تھا اور وہ بھی اسی قدر عسیر الفہم تھا۔ ارباب ذوق کا ان دنوں ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ مولانا صہبائی کے معمے حل کئے جائیں اور ہو سکے تو ایسا ایک آدھ معما خود بھی کہا جائے۔ حکیم مومن صاحب کو معما گوئی میں کچھ درک تھا، لیکن سچ یہ ہے کہ وہ بھی مولوی صہبائی کے اکثر معموں کو سمجھنے سے قاصر رہتے تھے۔ مرزا فخرو کا وطیرہ تھا کہ ملاقات پر اکثر پہلے ہی پوچھتے۔ ’’استاد، کوئی نیا معما ارشاد فرمایا‘‘۔ اور پھر صہبائی اگر کوئی معما سناتے تو دیر تک اس کے حل میں لگے رہتے۔ اگر معما حل ہوجاتا تو مولانا انہیں ایک چونی عطا کرتے، اور اگر حل نہ ہو سکتا (اکثر ایسا ہی ہوتا) تو صاحب عالم انہیں ایک روپیہ ہدیہ کرتے۔ (جاری ہے)