قسط نمبر: 54
معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
ہرمز سالٹ ڈوم کی آہنی کیپ راک کی نمونہ گیری کو میں نے واپسی کے سفر پر اٹھا رکھا تھا، کیونکہ آتے وقت شروع ہی میں کیپ راک کے بڑے اچھے مظاہر (آؤٹ کراپس) دیکھے تھے اور وہاں اس کیپ راک کی آکسیڈیشن یا تبدیلی کی تمام منازل بھی دیکھی جاسکتی تھیں۔ نمک کے قلعہ نما گنبد کے دامن میں واقع نمک کی کٹی پھٹی ڈھیریوں کا معائنہ بڑا سود مند ثابت ہوا۔ انہی ڈھیریوں اور ان کے آس پاس کے علاقے میں نمک کے مظاہر (آؤٹ کراپس) کے معائنے سے مجھ حقیر پر ہرمز نمک کے گنبد کے کئی سربستہ راز آشکارا ہوگئے:
1۔ ہرمز سالٹ ڈوم کا نمک تمام پاکستان، ایران اور دنیا کے اکثر نمکوں سے کہ جن کا مجھ حقیر کو علم ہے، اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں ایک اہم میل (impurity) کے طور پر ہیما ٹائٹ (آئرن آکسائیڈ) کا پاؤڈر، باریک دانے اور عام موٹی شکر کے دانوں کے برابر روے (crystals) ملتے ہیں۔
2۔ متذکرہ بالا ہیما ٹائٹ کا پاؤڈر، دانے اور روے کیپ راک میں جزو خاص کے طور پر موجود ہیں۔ مختلف شکلوں میں یہ ہیما ٹائٹ نمک کی دیگر کثافتوں (impurities) مثلاً جپسم اور چکنی مٹی وغیرہ کے واش آؤٹ ہوجانے کی وجہ سے مرکوز ہوکر جپسمی کیپ راک کو ہیما ٹائٹی خام لوہے میں تبدیل کر دیتا ہے۔
3۔ کسی سالٹ ڈوم کی کیپ راک (cap rock) دراصل نمک کا میل یا تلچھٹ ہے، جو ابھرتے ہوئے سالٹ ڈوم کے سر پر سوڈیم کلورائیڈ (نمک کا اصل جزو) کے پانی میں گھل جانے اور اس کے میل یا تلچھٹ کے رہ جانے سے وجود میں آتی ہے۔ کسی نمک کے گنبد کی کیپ راک میں کوئی نئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ وہی کچھ ہوتا ہے جو نمک کے اندر بطور میل (impurity) کم مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
4۔ ہرمز سالٹ ڈوم کے باہری (peripheral) علاقے میں جابجا برائن (تیز نمکین پانی) کے چشمے پائے جاتے ہیں، جن سے صرف برائن ہی باہر نہیں نکلتی بلکہ اس کے ساتھ موٹی سفید شکر کے دانوں کے برابر ہیما ٹائٹ کے روے (crystals) بھی باہر آتے ہیں۔ یہ برائن کے چشمے مستقل نوعیت کے نہیں ہیں، بلکہ پرانے چشمے سوکھتے رہتے ہیں اور نئی جگہوں پر نئے چشمے پھوٹتے رہتے ہیں۔ کسی پرانے چشمے کی کسی جگہ موجودگی کی نشانی ہیما ٹائٹ کے کالے دانوں سے آلودہ ریت کی موجودگی ہے۔
5۔ ہرمز سالٹ ڈوم کی کیپ راک کو ترجیحی کانکنی کے ذریعے بطور خام لوہا (iron ore) استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس سے لوہا بنانے کی روایتی طریقوں سے لوہا بنایا جاسکتا ہے۔ ہرمز سالٹ ڈوم کی کیپ راک کے تلچھٹی ہیما ٹائٹ (resudual hematite) کے ایک نمونے کو جب پی سی ایس آئی آر (PCSIR) لاہور کی لیباریٹریز ٹیسٹ کرایا گیا تو اس میں 52 فیصد لوہا (Fe) پایا گیا۔ لوہے کی یہ مقدار پاکستان میں پائی جانے والی اکثر لوہے کی کچدھاتوں (iron ores) میں موجود لوہے کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر کسی محدود جگہ سے لئے گئے اس نمونے کو ہرمز کیپ راک کا نمائندہ نمونہ نہیں کہا جاسکتا۔ نمائندہ نمونہ حاصل کرنے کے لئے ایک تجربہ کار جیولوجسٹ اس کے دو عدد مدگار اور اگر وہ جیولوجسٹ راقم الحروف جیسا سست الوجود ہو تو کم از کم تین دن درکار ہیں۔
6۔ ہرمز کے نمک کو اگر نمک کے کیمیکلز بنانے کے لئے استعمال کیا جائے تو اس میں ہیما ٹائٹ بطور ذیلی پیداوار حاصل کیا جاسکے گا۔ اس طرح ہرمز کا نمک کا ذخیرہ نمک کے ساتھ ساتھ خام لوہے کا ایک تجارتی منبع بھی بن سکتا ہے۔
7۔ رنگت کے اعتبار سے ہرمز کا نمک سفید، سلیٹی، گلابی تا شوخ سرخ تا گہرے سرخ رنگ کا ہے۔ اس کی عمودی تہیں عمومی طور پر چار انچ سے لے کر تین فٹ (ایک میٹر) تک ضخیم ہوتی ہیں۔ گاہے گاہے ان تہوں کے درمیان سفید اور گلابی رنگ کے نمک کی خاصی ضخیم تہیں بھی مل جاتی ہیں۔ یہ تہیں عام طور سے کالے پاؤڈری ہیما ٹائٹ (Fe2O3) کی پتلی تہوں سے حد بند ہوتی ہیں۔ ان پتلی ہیما ٹائٹ کی تہوں کی عمومی موٹائی پانچ ملی میٹر سے پچیس ملی میٹر تک ہوتی ہے۔
8۔ ہرمز کا نمک پاکستان کی سالٹ رینج کے نمک کا ہم رنگ بھی ہے اور ہم عمر بھی ہے۔ یعنی یہ دونوں عموی طور پر سرخ ہیں اور پری کیمبرین (Pre- Cambrian) زمانے کی پیدوار ہیں۔ دونوں ہی عموعی طور پر اپنی اصلی تہدار حالت میں نہیں ہیں بلکہ ہر دو پر ایک نقلی تہداریت (pseudo bedding) مسلط ہوگئی ہے۔ دونوں ہی اپنے پیدائشی مقام سے مستقل ہجرت میں ہیں یا باالفاظ دگر دونوں ڈایا پرک (diapiric) حالت میں ہیں۔
بات ہورہی تھی ہرمز کے قلعہ نما نمک کے گنبد کے دامن میں واقع کٹی پھٹی ڈھیریوں اور ان کے آس پاس کے علاقے کی، کہ یہ حقیر ہرمز کے سربستہ رازوں میں الجھ گیا۔ دراصل یہ کارستانی تھی میری فیلڈ ڈائری نمبر 49 کی، جو ان سطور کو قلم بند کرتے وقت میر سامنے رکھی ہوئی ہے اور جس میں آٹھ مارچ 2002ء کی تاریخ میں (ہرمز کے بارے میں) میں نے اپنی زندگی کا سب سے طویل فیلڈ نوٹ تحریر کیا ہے۔ یہ نوٹ اس وقت لکھا ہے کہ جب میں پیاس اور جسمانی کمزوری سے بے حال تھا اور مجھے پیاس کی موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔ دراصل اس وقت میں اتنا بے حال ہوچکا تھا کہ ہرمز کے ویران جزیرے میں اپنی موت کا یقین کر بیٹھا تھا۔ اس لئے کوئی مشاہدہ جو میرے ذہن میں تھا، اسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور اس لئے تحریر کرنا چاہتا تھا کہ میرے بعد جو لوگ میری فیلڈ ڈائری پڑھیں انہیں کم از کم ہرمز کے بارے میں میرے مشاہدات سے کما حقہ آگاہی ہوجائے۔
میرا واپسی کا سفر شروع ہوچکا تھا، مگر یہ بڑا سست رفتار تھا۔ اس لئے کہ اگر کوئی تین فٹ کی چڑھائی بھی درپیش آجاتی تو وہ میرے لئے تین سو فٹ اونچی پہاڑی بن جاتی اور میں اس پر انتہائی سلوموشن میں چڑھتا اور اترتا۔ کسی نہ کسی طرح آخرکار میں اس مقام پر پہنچ گیا، جہاں سے میں نے طے کیا تھا کہ میں ہرمز کی کیپ راک کا قریبی مطالعہ کروں گا۔ قریب سے اس کی تصاویر اتاروں گا اور اس کے تازہ نمونے حاصل کروں گا۔ بڑی مشکل سے میں مطلوبہ آؤٹ کراپ تک پہنچا جو زیادہ اونچائی پر نہ تھا۔ اپنا ہتھوڑا بطور پیمانہ نمک پر رکھا اور پھر واپس مناسب فاصلے پر آیا، تاکہ اس مقام کی تصویر اتار سکوں۔ جب اپنے کیمرے سے میں وہ تصویر اتار رہا تھا تو میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ میری زندگی کی آخری تصویر ہے، جو میں اتار رہا ہوں۔ مگر عین اس وقت جب کہ میں نے اپنے کیمرے کو تصویر اتارنے کے لئے کلک کیا تو یکایک میرے کانوں میں کچھ دور سے بچوں کے بولنے کی آوازیں آئیں۔ پہلے تو میں نے دل میں کہا کہ یہ کسی پرندے یا جانور کی آواز ہوگی، مگر پھر فوراً ہی خیال آیا کہ یہاں اتنے گھنٹوں کے اپنے قیام میں نہ میں نے کوئی رینگنے والا جانور دیکھا ہے نہ اڑنے والا۔ میں اسی شش و پنج میں تھا کہ پھر یکبارگی اسی قسم کی بچوں کے بولنے کی آوازیں آئیں۔ اس پر یکایک مجھے اپنی نانی صاحبہ کی رحلت کا وقت یاد آگیا۔ ان کا انتقال میری آنکھوں کے سامنے ہی ہوا تھا، جبکہ میں تقریباً سات سالہ لڑکا تھا۔ انتقال سے تھوڑی دیر پہلے یکایک وہ اپنی بہت پہلے وفات یافتہ بیٹیوں (میری خالاؤں) اور اپنی عرصہ دراز پیشتر وفات یافتہ نند صاحبہ کو، ہر ایک کا نام لے لے کر ایسے پکار رہی تھیں جیسے وہ سب ان کے اطراف میں موجود تھے۔ جبکہ اس واقعہ سے پیشتر ہم سب گھر والوں نے ان کے منہ سے گاہے گاہے صرف کراہنے کی آوازیں ہی سنی تھیں۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی میں نے سوچا کہ میری نانی صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے وقت رحلت ان کے پسندیدہ چہرے دکھائے اور ان نیک ارواح کو ان کے پاس خوش آمدید کہنے بھیج دیا۔ مجھے کیونکہ بچے اور ان کی صحبت بہت عزیز ہے، اس لئے میرے لئے اس قادر مطلق نے اپنی رحمت سے بچے بھیجے ہیں۔ میں اسی خیال میں گم تھا کہ ایک دفعہ پھر وہی آوازیں سنیں۔ اس مرتبہ یہ آوازیں زیادہ قریب سے آئی تھیں اور زیادہ واضح تھیں اور مجھے ان کی سمت کا تعین بھی ہوگیا۔ وہ آوازیں میری بائیں جانب سے آئی تھیں۔
جس وادی سے میں اپنی واپسی کا سفر کر رہا تھا اس وادی کا بھی وہ بایاں بازو ہی تھا۔ میں تھوڑا پیچھے ہٹا اور کچھ اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر جو اس طرف دیکھا تو مجھے اپنے مقام سے کوئی ستّر یا اسّی فٹ کی بلندی پر وادی کے متذکرہ بائیں بازو پر تین بچے نظر آئے۔ ٹھیک اسی وقت ان تینوں نے بھی مجھے دیکھ لیا اور فوراً ہی اپنے دیگر ساتھیوں کو جو اس وقت مجھے نظر نہیں آرہے تھے، میری طرف بآواز بلند متوجہ کیا۔ جلد ہی ادھر ادھر سے مزید بچے اور ایک جوان مرد برآمد ہوگئے اور سب میری طرف دیکھنے لگے۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر ہلایا اور انہیں خوش آمدید کہا۔ فوراً ہی ایک بچے نے مجھے اپنی جگہ ٹھہرے رہنے کا اشارہ کیا اور اشارے ہی سے بتایا کہ وہ لوگ میرے پاس ہی آرہے ہیں۔ اور چند منٹ بعد وہ بچوں کی ٹولی جس میں کل چھ بچے تھے، اپنے نگہبان کے ساتھ میرے روبرو تھے۔ ان سب کو دیکھ کر میری خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ سب بچوں نے مل کر مجھے السلام علیکم کہا اور پھر فرداً فرداً سب بچوں اور ان نگہبان نے مجھ سے مصافحہ کیا ۔ میں نے دیکھا کہ پانچ بچے اور ان کا نگہبان تو خالی ہاتھ تھے، مگر ایک بچے نے اپنے ہاتھ میں سبز رنگ کی پانی سے پُر پلاسٹک کی بڑی بوتل اٹھائی ہوئی ہے۔ مصافحہ کرنے کی رسم جیسے ہی اختتام کو پہنچی، وہ بچہ جس کے پاس پانی کی بوتل تھی، میرے پاس آیا اور بوتل میری طرف بڑھا کر اشارہ سے کہا کہ پیو! میں نے ڈرتے ڈرتے بوتل اس کے ہاتھ سے لی اور اس میں سے ایک گھونٹ پانی پی کر بوتل واپس بچے کو دے دی۔ بچے اور اس کے دیگر ساتھیوں نے تعجب سے میری طرف دیکھا اور پھر پہلے بچے نے پانی کی بوتل دوبارہ مجھے تھمادی اور بولا کہ پیو! اس مرتبہ میں نے اس سے تین لمبے لمبے گھونٹ لیے اور پھر بوتل تشکر کے ساتھ اسی بچے کو تھمادی۔ دراصل مجھے یہ خیال پریشان کر رہا تھا کہ بچوں کی یہ جماعت خدا معلوم کس ارادے سے یہاں موجود ہے اور نہ جانے ان کا کتنا سفر ابھی باقی ہے۔ پھر ان سب کے پاس پانی کی یہی ایک بوتل ہے۔ اگر میں نے زیادہ پانی پی لیا تو یہ سب لوگ مجھے ایک خود غرض اور احسان فراموش شخص گردانیں گے۔ مگر تیسری مرتبہ پھر اس بچے نے بوتل مجھے پکڑا دی اور قدرے زور سے کہا کہ پیو! میں نے اس کے ہاتھ سے بوتل تھام کر دیگر بچوں اوار ان کے نگہبان کی آنکھوں میں جھانکا کہ آیا ان کی بھی یہی مرضی ہے کہ میں مزید پانی پیوں۔ سب کی آنکھوں میں دوستانہ جھلک تھی اور سب نے ہی اشاروں سے مجھے مزید پانی پینے کی اجازت دی۔ اس مرتبہ میں نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور ایک مرتبہ پھر وہ بوتل اسی بچے کو واپس کرنی چاہی کہ جس سے حاصل کی تھی۔ مگر اس مرتبہ بچے نے بوتل واپس لینے سے صاف انکار کر دیا اور مجھ سے گویا ہوا کہ یہ بوتل صرف تمہارے لیے ہے، اسے اپنے پاس رکھو۔ اس پر میں نے فرداً فرداً تمام بچوں اور ان کے نگہبان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد نگہبان نے مجھ سے میرا نام و پتہ دریافت کیا اور اپنا مجھے بتایا۔ بچوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں ایک پاکستانی زمین شناس ہوں تو انہوں نے اور ان کی نگہبان نے خوشی کا اظہار کیا۔ نگہبان صاحب سے جب میرا قدرے تفصیلی تعارف ہوا تو اس مرد نیک نے بتایا کہ وہ کابل کا رہنے والا ایک افغانی ہے۔ اور یہاں بچوں کی دیکھ بھال و نگہبانی پر مامور ہے۔ کچھ دیر آپس میں گپ شپ لگانے کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ میں نے بوتل والے بچے سے ایک مرتبہ پھر کہا کہ میں بفضل تعالی سیر ہو کر پانی پینے کے بعد تازہ دم ہوگیا ہوں اور انشاء اللہ اب ایسکلے تک بآسانی پہنچ جاؤں گا۔ لہٰذا باقی ماندہ پانی تم واپس لے لو۔ مگر اس بچے نے بوتل واپس لینے سے سختی سے منع کردیا اور ایک بار پھر کہا کہ یہ پانی صرف تمہارے لیے ہے۔
بچوں کی جماعت جدھر سے نمودار ہوئی تھی، ادھر ہی واپس چلی گئی اور میں انہیں جاتا دیکھ رک دل میں کہہ رہا تھا کہ یہ بچے نہیں اللہ تعالی کی جانب سے بھیجے گئے فرشتے ہیں۔ (جاری ہے)