گبول ٹائون دھاگہ فیکٹری میں آگ شارٹ سرکٹ سے لگی

عظمت علی رحمانی
نیو کراچی کے علاقے گبول ٹاؤن میں واقع دھاگہ فیکٹری میں آگ لگنے سے لاکھوں روپے مالیت کا دھاگہ خاکستر ہوگیا۔ محکمہ محنت کی غفلت کے باعث کارخانوں اور فیکٹریوں میں حفاظتی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ دوسری جانب رہائشی علاقوں میں موجود کارخانے اور فیکٹریاں عوام کیلئے خطرہ قرار دی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ ایک ماہ کے اندر نیو کراچی میں آتش زد گی کا یہ دوسرا واقعہ پیش آیا ہے۔
ہفتے کی رات گئے گبول ٹاؤن کے سیکٹر 16 بی میں واقع 120 گز کے پلاٹ میں قائم ماشاء اللہ ڈبلنگ نامی دھاگے کے کارخانے میں آگ لگ گئی، جس کی اطلاع نارتھ کراچی فائراسٹیشن کو کی گئی۔ تاہم ان کے پاس ایک ہی فائر ٹینڈر موجود تھا، جس کو انہوں نے صبح 5 بج کر 25 منٹ پر جائے وقوعہ کی جانب روانہ کیا۔ مذکورہ اسٹیشن سے فائر ٹینڈر کو اس لئے تاخیر سے روانہ کیا گیا کہ قریبی سخی حسن ہائیڈرنٹ بند تھا، جس کو کھلوا کر وہاں سے پانی لیا گیا۔ نیو کراچی فائر اسٹیشن کے ذمہ دار محمد انیس کے مطابق مذکورہ گودام، رہائشی علاقے میں واقع تھا۔ آگ بجھانے کیلئے 4 فائر اسٹیشنوں کے فائر ٹینڈرز منگوائے گئے۔ ان میں سہراب گوٹھ، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور نارتھ کراچی فائر اسٹیشن شامل ہیں۔
نیو کراچی کے تھانہ گبول ٹاؤن کے ایس ایچ او راجا افضل کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہمیں رات گئے اطلاع ملی کہ دھاگے کے گودام میں آگ لگ گئی ہے۔ ہم نے نفری وہاں بھیجی تو معلوم ہوا کہ گودام نہیں، بلکہ یہ کارخانہ ہے جس میں آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہے۔ ہم نے وہاں سے چوکیدار کو بحفاطت باہر نکالا اور آگ پر قابو پانے کی کوشش کی۔ اب یہ بھی معلوم کر رہے ہیں کہ جہاں اتنی کثیر تعداد میں دھاگہ موجود تھا وہاں حفاطتی انتظامات ناقص کیوں تھے؟‘‘۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس پہلو پر بھی انکوائری کی جارہی ہے کہ کہیں یہ گودام انشورڈ نہ ہو، کیونکہ بعض مالکان اپنے گوداموں اور کارخانوں کو انشورڈ کرا لیتے ہیں اور بعد ازاں ناقص مال وہاں رکھ کر خود ہی آگ لگوا دیتے ہیں تاکہ اصل مال کا انشورنس کلیم کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ شہر کے متعدد علاقوں میں محکمہ محنت کی غفلت سے رہائشی علاقوں میں چھوٹی فیکٹریاں اور کارخانے چلائے جارہے ہیں، جو اہل علاقہ کیلئے خطرے کا باعث ہیں۔ محکمہ محنت سندھ کے ماتحت ادارے، ڈائریکٹوریٹ لیبر کے افسران کی جانب سے مال پانی بنانے کے عوض رہائشی علاقوں میں قائم فیکٹریاں اور کارخانوں کو کھلی اجازت سے چلایا جار ہا ہے۔ جبکہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) اور سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن (سیسی) کے افسران بھی ایسے کارخانوں اور فیکٹریوں کو ملی بھگت سے رجسٹرڈ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ایسے ادارے کسی بھی قانونی ادارے کی پہنچ سے دور رہتے ہیں۔ جبکہ اس سے حکومت کو کنٹری بیوشن کی عدم وصولی اور محنت کشوں کو رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر مذکورہ کارخانہ گزشتہ کئی برس سے اس پلاٹ پر کام کر رہا تھا، جس میں کسی بھی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے تھے۔ جبکہ کسی بھی محکمے کی جانب سے اس کارخانے کو رجسٹرڈ ہی نہیں کیا گیا تھا۔
شہر کی اکثر فیکٹریوں میں ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنے کے کوئی راستے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ حادثوں سے بچنے اور نمٹنے کیلئے مزدوروں کی کوئی تربیت بھی نہیں کی جاتی ہے۔
گزشتہ 6 برس میں صوبائی محکمہ محنت نے فیکٹریوں میں لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے500 کے لگ بھگ مقدمات لیبر کورٹس میں بھیجے ہیں۔سائٹ ایسوسی ایشن، کورنگی اور نارتھ ناظم آباد سمیت انڈسٹریل زون میں واقع انڈسٹریز کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں پانچ ہزار سے زیادہ کارخانے رجسٹرڈ ہیں اور ان کے معائنے کیلئے محکمے کے پاس صرف درجن بھر لیبر انسپکٹرز موجودہیں۔ اس حوالے سے محکمہ محنت کے ڈائریکٹر لیبر خادم حسین بھٹو سے متعدد بار رابطہ کیا گیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایک انسپکٹر ایک دن میں کتنی فیکٹریوں اور کارخانوں کا سروے کر لیتا ہے۔ تاہم انہوں نے کال ریسیو نہیں کی۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ کارخانے میں درجنوں ملازمین کام کرتے تھے جن کو ای او بی آئی اور سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ نہیں کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے سوشل سیکورٹی فیڈرل بی ایریا کے ڈائریکٹر نادر کناسرو سے رابطہ کیا گیا کہ انہوں نے اس کارخانے کو کب رجسٹرڈ کیا اور کتنے ملازمین کا کنٹری بیوشن جمع کیا جاتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے معلوم نہیں ہے۔ میں معلوم کرکے بتاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد ای او بی آئی کریم آباد ریجن کے ڈپٹی ہیڈ وقار زیدی سے رابطہ کیا گیا تاہم ان کا نمبر بھی بند تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 22اگست کو نیو کراچی کے انڈسٹریل ایریاصبا سینما کے قریب فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی۔ کپڑا فیکٹر ی میں لگنے والی آگ تیسرے درجے کی بتائی گئی تھی، جس کے ملازمین بھی مذکورہ اداروں میں رجسٹرڈ نہیں تھے۔ کارخانے کے مالک ذیشان کا کہنا تھا کہ ’’میں اور میرے بھائی یونس مل کر کام کرتے ہیں اور ہمارے ہاں لاکھوں روپے کا تیار سامان پارٹیوں کو دینے کیلئے رکھا ہوا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کارخانے میں آگ کیسے بھڑکی۔ ہمارے ملازمین نے پولیس کو بروقت اطلاع بھی دی۔ تاہم انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون میں تاخیر کی‘‘۔

Comments (0)
Add Comment