ایشیا کپ کے 13میچوں پر 2کھرب روپے کا سٹہ کھیلا جائے گا

امت رپورٹ
دبئی اور ابو ظہبی میں کھیلے جانے والے ایشیا کرکٹ کپ کے کُل 13 میچوں پر دنیا بھر میں دو کھرب روپے کا سٹہ متوقع ہے۔ ممبئی اور دبئی میں سٹے کی عالمی مارکیٹ سے جڑے ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ جوا بدھ کے روز پاکستان اور بھارت کے میچ پر کھیلا جائے گا۔ اس میچ کے حوالے سے عالمی بک میکرز نے جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق صرف پاکستان میں 20 ارب روپے سے زائد کا جوا ہو گا، جبکہ بھارت میں 30 ارب روپے، سری لنکا، بنگلہ دیش، ہانگ کانگ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں 50 ارب روپے سے زائد کا سٹہ متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق 13 میچوں پر کھیلے جانے والے جوئے کے متوقع حجم دو کھرب میں سے 80 فیصد رقم آن لائن بیٹنگ کے ذریعے لگائی جائے گی۔ روایتی جوئے پر آئی سی سی اور ان ممالک کے حکام کی گہری نظر ہے، جہاں کرکٹ اور دیگر کھیلوں پر شرطیں لگانا غیر قانونی ہیں، لہٰذا پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے پنٹرز آن لائن بیٹنگ کے محفوظ طریقے کو تیزی سے اپنا رہے ہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول روایتی سٹے کی سرگرمیاں پوری طرح ماند ہونے میں ابھی ایک عرصہ درکار ہے۔ جس روز روایتی سٹے کا باب بند ہو گیا، اس روز میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ جیسے ایشوز میں بھی خاطر خواہ کمی آجائے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ ایشیا کپ شروع ہونے سے ایک روز قبل پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے 15 بڑے بک میکرز دبئی پہنچ گئے تھے۔ ان کے ہمراہ 25 سے زائد ایجنٹ بھی ہیں۔ ذرائع کے مطابق دبئی پہنچنے والوں میں بدنام بھارتی بکی لعل چند بھی شامل ہے۔ لعل چند نے برطانوی آن لائن بیٹنگ کمپنی کی طرز پر اپنی آن لائن کمپنی بھی بنا رکھی ہے، جسے وہ زیادہ تر دبئی میں بیٹھ کر ہینڈل کرتا ہے۔ اس کا لین دین ویسٹرن یونین کے ذریعے ہوتا ہے۔ کراچی اور لاہور کے بڑے بکیز بھی اس کے رابطے میں ہیں۔ بالخصوص لاہور کے علاقے کریم پارک میں گجر برادری کے ایک فرد کو قتل کر کے فرار ہونے والا بکی چوہدری شمشاد اب دبئی میں لعل چند کے ساتھ مل کر سٹے کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ اسی طرح لاہور کا ایک اور بڑا بکی حاجی ناصر بھی متحدہ عرب امارات میں ہونے والے میچوں کے دوران دبئی میں موجود ہوتا ہے۔ اس کے بھارتی بکیوں اور کرکٹ کے بعض موجودہ اور سابق کھلاڑیوں سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک عرصے تک فارن ایکس چینج ڈیلرز کے طور پر اپنا آفس چلانے والے بدنام بکی کے دو اہم کارندے بھی دبئی پہنچے ہیں۔ آئی آئی چندریگر کی عرفیت سے معروف اس بکی نے چند برس قبل شاہین کمپیلکس کی ایک نزدیکی عمارت سے اپنا سیٹ اپ ختم کر دیا تھا۔ تاہم سیٹ اپ ختم کرنے سے پہلے وہ 9 ارب روپے بیرون ملک منتقل کر چکا تھا۔ آج کل اس کے کارندے زیادہ سرگرم ہیں اور ممبئی اور دبئی میں سٹے کی عالمی مارکیٹ سے براہ راست رابطے میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق دبئی میں اپنا مستقل سیٹ اپ رکھنے والے بدنام بھارتی بک میکرز بھی ایشیا کپ کے موقع پر پوری طرح متحرک ہیں۔ ان میں سنیل المچندانی عرف دبئی، جیتو دبئی اور شوبان مہتا عرف کالا چوکی قابل ذکر ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ایشیا کپ کے میچوں کا ریٹ ممبئی سے نکالا گیا ہے۔ پاک بھارت میچ پر بکیز نے پاکستانی ٹیم کا خفیہ نام ’’پیارے‘‘ اور انڈین ٹیم کا کوڈ ’’مہاراج‘‘ رکھا ہے۔ پنٹرز ان ہی ناموں کو استعمال کر کے دونوں ٹیموں پر سٹہ لگائیں گے۔ بالخصوص ٹیلی فون پر بکنگ کرانے والوں کو خاص تاکید کی گئی ہے کہ وہ رقم لگاتے وقت کوڈ ناموں کا خیال رکھیں۔ ایشیا کپ شروع ہونے سے قبل بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے ایشین کرکٹ کونسل کوتجویز دی تھی کہ اسٹیڈیم میں پکڑے جانے والے بکیز کے ایجنٹوں کو موقع پر ہی سزا دینے کے لئے موبائل عدالتیں قائم کی جائیں، تاہم اس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا۔
سٹے کی عالمی مارکیٹ سے جڑے ایک بکی نے بتایا کہ موبائل فونز ٹیکنالوجی نے کھیلوں پر جوئے کی ڈائنامکس تبدیل کر دی ہیں۔ کیونکہ روایتی جوئے کے مقابلے میں یہ ایک محفوظ طریقہ ہے۔ لہٰذا پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت دنیا کے ان تمام ممالک کے بکیز اور پنٹرز میں آن لائن جوا تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس وقت ایسی سو سے زائد آن لائن بیٹنگ ویب سائٹس یا ایپس ہیں، جن کے ذریعے غیر قانونی جوا کھیلا جا رہا ہے۔ متعلقہ ممالک کی حکومتوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ان سائٹس پر پابندی لگا سکیں۔ پھر یہ کہ آن لائن بیٹنگ سائٹس کی اکثریت غیر قانونی ہے۔ لہٰذا درست اعداد و شمار حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے کہ کتنے لوگ ان سائٹس کے ذریعے جوا کھیل رہے ہیں۔ بکی کے مطابق برطانیہ میں قائم بیٹ فیئر، بیٹ 365 اور لیڈ بروکس جیسی قانونی آن لائن بیٹنگ کمپنیاں بھی یہ اعداد و شمار دینے سے گریز کرتی ہیں کہ ان کے غیر قانونی پنٹرز کی تعداد اور ان کی طرف سے لگائی جانے والی رقوم کتنی ہے۔ ان تینوں آن لائن بیٹنگ کمپنیوں کے ذریعے ہی پاکستان اور بھارت میں سب سے زیادہ غیر قانونی جوا کھیلا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں ان کمپنیوں کے ذریعے جوا کھیلنا مکمل طور پر قانونی ہے۔ تاہم پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں ان کمپنیوں کے ذریعے جوا کھیلنا تاحال غیر قانونی ہے۔ اب پاکستان اور بھارت میں اپنے طور پر بھی بکیز نے مقامی آن لائن بیٹنگ سائٹس بنا لی ہیں۔ ان میں پاکستان کی ’’آن لائن بیٹنگ ڈاٹ کام، پی کے‘‘ قابل ذکر ہے۔
برطانوی آن لائن بیٹنگ کمپنی بیٹ فیئر کے ایک سابق عہدیدار پیٹرک جے نے کھیلوں پر جوئے کی عالمی مارکیٹ کا حجم سالانہ ایک کھرب ڈالر سے تین کھرب ڈالر بتایا ہے۔ جن کھیلوں پر آن لائن جوا کھیلا جا رہا ہے، ان میں کرکٹ کے علاوہ باکسنگ، سائیکلنگ، گالف، ہاکی، گھڑ ریس، رگبی، اسنوکر، فٹبال، ٹینس اور تیر اندازی شامل ہیں۔ پیٹرک جے کے بقول گزشتہ پانچ برس کے دوران آن لائن جوئے میں دگنا اضافہ ہوا ہے اور 2021ء تک اس میں مزید اتنا ہی اضافہ متوقع ہے۔ جبکہ اس آن لائن سائٹس پر 90 فیصد غیر قانونی جوا کھیلا جاتا ہے۔ پیٹرک جے کا کہنا ہے کہ موبائل ٹیکنالوجی کے سبب آن لائن جوئے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ موبائل فون اور ٹیبلٹس آج تقریباً ہر ایک کے پاس موجود ہیں۔ لہٰذا موبائل ٹیکنالوجی نے جواریوں کے لئے آسان بنا دیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر بیٹھ کر جوا کھیل سکتے ہیں۔
ایک پاکستانی آن لائن بیٹنگ سائٹ کی تازہ ریسرچ کے مطابق دو کروڑ سے زائد پاکستانی اس وقت اسپورٹس بیٹنگ میں ملوث ہیں۔ پاکستان جوا کھیلنے والے پچاس سرفہرست ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ آن لائن جوا کھیلنے والے ایک پنٹر نے بتایا کہ کسی بھی آن لائن سائٹ پر چند بنیادی دستاویزات کے ذریعے آسانی سے اکائونٹ کھولا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے زیادہ تر کریڈٹ کارڈ یا ای ویلٹ استعمال کیا جا رہا ہے۔ پنٹر کے بقول برطانوی آن لائن بیٹنگ کمپنیاں بیٹ فیئر، بیٹ 365 اور لیڈ بروکس پاکستان اور بھارت کے پنٹرز میں اس لئے زیادہ مقبول ہیں کہ ان کمپنیوں کے ذریعے میچ سے پہلے اور میچ کے دوران، دونوں مواقع پر شرطیں لگائی جاتی ہیں۔ جواریوں کی اکثریت ان ویب سائٹس پر اکائونٹ کھولنے اور ڈپازٹ رکھنے کے لئے ای ویلٹ ’’اسکرل‘‘ (آن لائن بٹوہ) استعمال کر رہی ہے۔ پیسے کا لین دین عموماً ویسٹرن یونین یا ہنڈی کے ذریعے ہوتا ہے۔ رقم لگانے اور وصولی کے لئے ویسٹرن یونین کا استعمال تھوڑا پُر خطر ہے، کیونکہ رقم جیتنے کی صورت میں پنٹرز کو آن لائن کمپنیوں کے نام سے رقم بھیجی جاتی ہے۔ چنانچہ ایجنٹ کو علم ہوتا ہے کہ رقم جوئے کے مقاصد کے لئے تھی۔ لہٰذا جواریوں کی اکثریت لین دین کے لئے ہنڈی کو زیادہ محفوظ طریقہ تصور کرتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment