محمد قاسم
امریکا نے افغان طالبان سے مذاکرات کے دوران یہ پیشکش کر دی ہے کہ امریکی افواج کو افغانستان میں صرف دو اڈوں تک محدود رہنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم دوسری جانب افغان طالبان نے اس آفر کو مسترد کر دیا ہے۔ افغان طالبان اب امریکا کے مکمل انخلا سے کم پر راضی نہیں ہیں۔ طالبان نے افغانستان بھر میں قابض افواج پر حملے بھی تیز کر دیئے ہیں۔ جس کے سبب امریکا پر مذاکرات کیلئے دبائو بڑھنے لگا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق امریکا نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ بگرام اور مزار شریف کے اڈوں میں امریکی فوج کو قیام کی اجازت دی جائے، جبکہ امریکی افواج فوری طور پر شین ڈنڈ، ہرات، جلال آباد، قندھار، ہلمند، فراہ اور زابل سمیت مشرقی افغانستان میں موجود تقریباً اکیس اڈوں کو چھوڑ دے گی۔ تاہم افغان طالبان نے امریکا کی یہ پیشکش مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ اب یہ پلان پرانا ہوچکا ہے۔ جس وقت افغان طالبان اس منصوبے پر عمل درآمد کیلئے تیار تھے، امریکا نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا کہ افغانستان میں وہ پانچ اڈوں تک محدود ہو کر سترہ سے زائد اڈوں کو چھوڑ دے۔ چنانچہ اب افغان طالبان اس منصوبے کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے امریکا کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا ہے کہ امریکا دو اڈوں تک محدود ہو کر تقریباً دس سال کے اندر انخلا کرلے گا۔ تاہم افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کو محفوظ راستہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ یہ محفوظ راستہ اس صورت میں ممکن ہوگا کہ امریکا افغانستان میں کسی اڈے پر قیام نہیں کرے گا اور جتنی مدت میں اپنے سامان کو منتقل کر سکتا ہے، اس عرصے میں طالبان اپنی کارروائیاں روک دیں گے اور امریکا کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کریں گے۔ البتہ اس میں یہ بات شامل نہیں ہوگی کہ امریکا افغانستان میں اڈو ں پر قیام کرے گا۔ بلکہ افغانستان سے اپنے سامان کی ترسیل اور فوجیوں کی واپسی کیلئے ہی اسے محفوظ راستہ دیا جائے گا اور اس کے کانوائے کو تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا۔ افغان طالبان اس بات کی ضمانت دینے کیلئے بھی تیار ہیں کہ ان کا افغانستان سے باہر کوئی ہدف نہیں ہو گا اور نہ ہی افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال کی جائے گی۔ افغان طالبان نے امریکی پیشکش ایک ایسے وقت میں مسترد کی ہے جب پاکستان نے امریکا کو افغانستان سے نکلنے کیلئے مدد فراہم کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ تاہم افغان طالبان کے اس پیغام کے بعد کہ وہ امریکا کو کوئی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں، افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات معطل ہو جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ وقت گزر گیا جب طالبان مذاکرات میں امریکا کو رعایت دینے کیلئے تیار تھے۔
دوسری جانب افغانستان میں امریکی سفیر جان باس نے اعتراف کیا ہے کہ نہ صرف امریکا بلکہ تمام اتحادی اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ جنگ کے ذریعے ختم نہیں ہو سکتا۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان لڑائی کا سیاسی حل ممکن ہے اور سیاسی راستے سے یہ لڑائی ختم ہو گی۔ تاہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو امریکا کی مدد کرنا ہوگی تاکہ اس جاری لڑائی کو ختم کیا جا سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ امریکا اور افغا ن طالبان کے درمیان تازہ رابطے ہوئے ہیں، تاہم امریکی پیشکش کو مسترد کرنے کے بعد افغان طالبان اور امریکا کے درمیان آئندہ چند دنوں میں مذاکرات ہوں گے یا نہیں؟ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ افغانستان اور پاکستان کیلئے روس کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہونے پر کہا ہے کہ امریکا کو افغانستان کے قیام امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور امریکا افغانستان کو خانہ جنگی میں چھوڑ کر علاقے سے نکلنا چاہتا ہے، تاکہ خطے میں امن قائم نہ ہو۔ افغان طالبان نے امریکا کو جو پیشکش کی ہے اس سے نہ صرف خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے بلکہ داعش اور دیگر جنگجوئوں کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے۔ جبکہ افغانستان میں مستقبل میں بھی ایسی سرگرمیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر لڑائی مزید جاری رہی تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ افغان طالبان کوئی بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق ایک طرف امریکا پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے تو دوسری جانب افغان طالبان نے افغانستان کے اندر اپنے حملوں میں مزید تیزی پیدا کر دی ہے۔ جبکہ پاکستان نے افغان طالبان کو راضی کرنے کیلئے علما سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔