سید ارتضی علی کرمانی
اس دوران ایک واقعے نے آپؒ کی عظمت کو بلند درجہ مقام بخشا۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ آپ کے استاد صاحب کے بیٹے کے پاؤں میں ورم آگیا۔ اب اس پر باندھنے کے لیے ارنڈ کے پتوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آپ نے یہ پتے لانے کی ذمہ داری قبول کی اور انگلہ سے کچھ فاصلہ پر پہاڑیوں میں سے ارنڈ کے پتے تلاش کرکے ایک رومال میں باندھ کر لا رہے تھے کہ اثنائے راہ دیکھا کہ بھیڑیئے نے ایک گدھی کو گھیر کر گرایا ہوا ہے۔
گدھی کا بچہ بے چینی سے گدھی کے گرد چکر لگا رہا تھا اور شدت کرب سے بلبلا رہا تھا۔ آپ نے یہ ماجرہ دیکھا تو بے اختیار دل بھر آیا۔ آپ بے اختیار اس جانب دوڑے اور اس رومال سے جس میں پتے بندھے ہوئے تھے، بھیڑیئے کے منہ پر مارنے لگے۔ چند کسان جو کچھ فاصلے پر کھیتی باڑی کر رہے تھے، آپ کو اس فعل سے روکنا چاہا، مگر اس دوران آپ نے بھیڑیئے کو بھگا دیا۔
ان کسانوں نے آپ سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا جب بھیڑیا شکار کر رہا ہوتا ہے تو انتہائی خونخوار ہوتا ہے۔ اگر آپ پر حملہ کر دیتا تو پھر کیا ہوتا۔ آپ تو ابھی بچے ہیں۔ آپ نے کمال ادب سے جواب دیا کہ میرے بزرگو مجھ سے گدھی کے بچے کی بے اختیاری اور بے بسی نہیں دیکھی گئی۔ جو ماں کی محبت میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر بے قراری سے اس کے گرد ہی بھاگ رہا تھا۔ اس کے بعد آپ اس گدھی اور اس کے بچے کو ہانکتے ہوئے انگلہ لے آئے۔
واپس آکر تمام ماجرا اپنے استاد محترم کے گوش گزار کیا۔ آپ کے استاد صاحب نے آپ کو بہت دعائیں دیں اور ان کو بے پناہ شاباش دی۔ اگلے ہی روز جمعۃ المبارک تھا۔ جب مولانا سلطان محمود صاحب نے وعظ شروع کیا تو ایک جم غفیر جمع تھا۔ انہوں نے دیگر اسلامی موضوعات سے ہٹ کر اپنے شاگرد رشید کی تعریف کی اور بتایا کہ اس نوجوان نے باوجود کم عمری اور بغیر کسی ہتھیار کے ایک خونخوار درندے سے ایک گدھی اور اس کے بچے کو کس طرح بچایا۔ یہ واقعہ کافی عرصے تک لوگوں کے اذہان میں محفوظ رہا۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کے مزاج پر شروع دن سے ہی عشق الٰہی کا رنگ غالب تھا اور سماع گویا آگ پر تیل کا کام کرتا تھا۔ آپ خود بھی خوش الحان تھے۔ آپ کی عام طور پر گفتگو بھی از حد شگفتہ اور دور انگیز ہوتی تھی۔ لوگ آپ کی گفتگو سننے کے مشتاق ہوتے۔ انہی ایام میں آپ اکثر آبادی سے ویرانے کا رخ کرتے اور بلند آواز سے درد انگیز شعر پڑھتے۔ آپ کے ہم مکتب طلبا اور گاؤں کے دوسرے لوگ خاص طور پر گاؤں کے نمبردار میاں علی اکبر صاحب آپ کی اس کیفیت کا انتظار کرتے اور تلاش میں رہتے اور جب ان لمحات کو پا لیتے تو پوری پوری طرح فیض یاب ہوتے۔
ایک جگہ حضرت جامیؒ کی ’’یوسف زلیخا‘‘ کی طرز میں فرماتے ہیں۔
نسیما قاصدانہ ویس لائیںبوجہ اللہ ماہی دے دیس جائیںادب بیتی دیویں بوسہ زمیں نوںتے آکھیں اس طرح اس نازنیں نوںمدت ہوئی نہ ملیا یار پیاراکدیں منزل کرے سوہنا اتارابھانواں کول آکھاں بول وے ڈھولترے بولن اتوں عالم کراں گھولکے ہو سی چانوازیں گولڑی نوںزیادہ نہ کریں گل تھولڑی نوں وچھوڑا ناں کسے دے پیش آوےکسے دا یار ناں پردیس جاوےکدیں پردیسیاں نوں یاد کرناںغریب الوطن دا دل شاد کرناںکوئی ہووے سیو کشتی مہاناںاساں سر پر سجن دے دیس جاناںہوواں میں سگ مدینے دی گلی داایہو رتبہ ہے ہر کامل ولی دادلا سمجھاتوں اکھیاں روندیاں نوںجگر دا خون بھر بھر کھوندیاں نوںرہی سمجھاتے آون باز ناہیںروون دھوون تے دسن راز ناہیںایک مرتبہ جمعۃ المبارک کی شب ایک کمرہ میں قوالی کا خفیہ طور پر اہتمام کیا گیا۔ جس میں آپ نے بھی حصہ لیا۔ صبح استاد محترم کے پاس شکایت ہو گئی۔ استاد صاحب نے حضرت صاحبؒ کو تو نرم انداز میں سمجھا، مگر طلبا کو بڑی سختی سے سمجھایا۔ مسجد سے قریب ہی ایک عابدہ بزرگ خاتون کا بسیرا تھا۔ جو حضرت سلطان العارفین قبلہ سلطان باہوؒ کی حضوری سے مشرف تھیں۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کو منع کیا گیا ہے تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ آج تو حافظ سلطان محمود اس سید زادے کو ٹوک رہے ہیں۔ کل جب ان کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ ہوں گے تو ان کے پاؤں چومیں گے۔ یہ نہایت ہی صاحب کمال بچہ ہے۔رب تعالیٰ کے نزدیک اس کا بڑا مرتبہ ہے اور ہر لمحہ اس کے مراتب بلند سے بلند تر ہو رہے ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭