صحابہ کرامؓ کا امتحان

امت محمدیہؐ کو حق تعالیٰ نے دو نعمتیں عطا کیں، ایک کلام پاک اور دوسری سنت رسولؐ۔ ایک علم کامل، دوسری عمل کامل۔ آپؐ خلق عظیم کے حامل تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرمؐ کے اخلاق کے بارے میں بتائیں؟ فرمایا: نبی اکرمؐ کے اخلاق قرآن ہیں۔ گویا جو قرآن کو مجسم شکل میں دیکھنا چاہے تو وہ میرے محبوب کو دیکھ لے۔
شیخ الاسلام حضرت قاری محمد طیبؒ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کی عملی تفسیر حیات نبویؐ، ذات و صفات کی آیتیں عقائد نبویؐ، احکام کی آیتیں اعمال نبویؐ، مہر و رحمت کی آیتیں جمال نبویؐ، نفی غیر کی آیتیں خلوت نبویؐ، قہر و غضب کی آیتیں جلال نبویؐ، خدا کی طرف توجہ کی آیتیں فنائیت نبویؐ اور اثبات حق کی آیتیں جلوت نبویؐ۔ گویا جس طرح قرآن کے علمی عجائبات کی انتہا نہیں، اسی طرح سنت کے علمی عجائبات کی انتہا نہیں۔
صحابہ کرامؓ نبی اکرمؐ کے کمالات کا نمونہ ہیں، کیوں کہ استاد کے کمالات ہمیشہ شاگردوں کے ذریعے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ ہر صحابیؓ نبوت کی دلیل بنا۔ اس دنیا سے جب نبی اکرمؐ تشریف لے گئے تو کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ موجود تھے اور تقریباً اتنے ہی انبیائے کرامؑ دنیا میں گزرے۔ ان صحابہؓ میں سے 313 بدری صحابہؓ اور انبیائؑ میں سے جو رسولؑ گزرے، وہ بھی 313 تھے۔ ان صحابہ کرامؓ میں سے چار خلفائے راشدینؓ بنے۔ جبکہ انبیائے کرامؑ میں سے صاحب کتاب انبیائؑ بھی چار تھے۔ تو معلوم ہوا کہ جب نبی اکرمؐ اس دنیا میں تشریف لے جانے لگے تو آپؐ نے سوا لاکھ انبیائے کرامؑ کے کمالات کو صحابہ کرامؓ میں منتقل کر دیا۔ اس لئے ہر صحابیؓ کسی نہ کسی ایک نبیؑ کے کمالات کا وارث بنا۔
نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’میرے صحابی ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت پا جاؤ گے۔‘‘
یہ وہی حضرات تھے جن کے سراپا کے بارے میں توراۃ اور انجیل میں بھی علامات آئی ہیں۔ رب العزت نے دنیا ہی میں ان حضرات کو جنت کی بشارتیں عطا فرما دیں۔ یہ ایسے نہیں ہوا، بلکہ ان کا رب تعالیٰ نے باقاعدہ امتحان لیا، جس کے بعد انہیں اپنی رضا مندی کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ تھے جن کا امتحان خدا نے لیا۔‘‘
پیپر کونسا تھا؟ فرمایا: تقویٰ کا، پھر پروردگار نے خود نتیجہ نکالا کہ: وہ پکے سچے مومن ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment