زمین کھاگئی آسمان کیسے کیسے

مسجد قرطبہ کے علاوہ خلیفہ عبدالرحمٰن ثالث نے قرطبہ سے چند میل کے فاصلے پر اپنی محبوبہ عیسائی بیوی زہرہ کے لئے جو عالی شان محل بنوایا تھا، وہ بھی اپنی خاص صنعت وکاریگری اور فنی خوبی کے لحاظ سے ایک نادر روزگار عمارت یعنی نہایت عمدہ تھا۔
مورخین کا بیان ہے کہ اس محل کے گنبد چار ہزار تین سو ستونوں پر قائم تھے۔ یہ ستون سنگ مرمر کے مختلف اقسام وانواع سے بنے ہوئے تھے اور ان پر طرح طرح کی گلکاری کی گئی تھی۔ ان ستونوں میں سے بعض ستون، فرانس اور قسطنطنیہ کے بادشاہوں نے خلیفہ عبدالرحمٰن کو تحفہ بھیجے تھے اور دیگر ایسے بھی تھے جو مختلف انجینئروں کو افریقہ بھیج کر منگوائے گئے تھے۔
ستون کی طرح محل کی دیواریں اور چھتیں بھی نوع بنوع بیش بہا قیمتی پتھروں، مثلا عقیق یشب (ایک قیمتی پتھر جو سبزی مائل ہوتا ہے) یا قوت اور لا جورد ( یہ بھی نیلے رنگ کا چمکدار پتھر ہے)وغیرہ سے مزین تھیں۔
چھتوں میں ان پتھروں کے علاوہ سونا بھی لگایا ہوا تھا۔ محل کی وسعت کا اندازہ اسی ایک بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کو بجائے قصر الزہرہ (زہرہ کا محل) کے، عام طور پر ’’مدینۃ الزہرہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ یعنی زہرہ کا شہر۔ اس محل کی وسیع و عریض عمارتوں میں جابجا صاف و شفاف اور شیرین و میٹھے پانی کے حوض اور خوبصورت فوارے بنے ہوتے تھے۔ ایک سب سے بڑا فوارہ جو سونے کا معلوم ہوتا تھا اور جس پر نہایت خوش نما نقش ونگار تھے۔ قسطنطنیہ سے اور ایک فوارہ سنگ سبز کا شام سے منگوایا تھا۔
مورخین کا بیان ہے کہ سنگ سبز کے فوارہ میں ایک درجن چرند، پرند، جانوروں کی صورتیں لگائی گئی تھیں۔ ان میں سے ہر جانور کے منہ سے پانی کا فوارہ نکلتا تھا۔ اس محل کا ایک حصہ جو قصر الخلفاء (خلفاء کا محل) کہلاتا تھا۔ اس کی چھت خالص سونے کی تھی اور دیواریں ایسی صاف و شفاف سنگ مرمر سے بنی ہوئی تھیں کہ ایک طرف کی چیز دوسری طرف سے نظر آتی تھی۔ قصر (محل) کے درمیان میں ایک خوبصورت مرصع (یعنی موتی یا جواہرات سے جڑا ہوا) فوارہ تھا۔ جس کے اوپر ایک موتی جڑا ہوا تھا۔ یہ موتی شہنشاہ یونان نے بطور تحفہ عبدالرحمٰن کی خدمت میں بھیجا تھا۔ علاوہ ازیں ایک فوارہ نماطشت (یعنی تھال) پارہ سے لبریز رکھا ہوا تھا۔
محل کے ارد گرد نہایت خوش نما آئینے ہاتھی دانت کے چوکھٹوں میں جڑے ہوئے لگائے گئے تھے۔ مختلف قسم کی لکڑیوں کے مرصع دروازے سنگ مرمر اور بلوری چوکھٹوں پر نصب تھے۔ جس وقت یہ دروازے کھول دئیے جاتے تھے اور سورج کی شعاع سے مکان روشن و منور ہوتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ اس کی چھت اور دیواروں کی طرف نظر بھر کر دیکھ سکے۔
اس حالت میں اگر پارہ ہلادیا جاتا تو یہ معلوم ہوتا کہ مکان جنبش و حرکت میں ہے۔ جو لوگ اس راز و بھید سے واقف نہ تھے، انہیں اس وقت بڑا خوف و ڈر لگتا تھا۔ اگر آج کے سائنسی دور کا کوئی آدمی ایسے محل کو دیکھ لے تو نہ معلوم اس کا کیا حال ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت وہ ترقی کا دور تھا نہ کہ پتھر کا زمانہ جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہےقصر الزہرہ کا انتظام انصرام:اس عظیم الشان محل کی داستان کے بعد اس کے ملازمین و ملازمات کی فوج ظفرموج کا حال بھی سن لیجئے۔
قصر زہرہ کے انتظام و نگرانی کے لئے تیرہ ہزار سات سو پچاسی ملازم اور تیرہ ہزار تین سو بیاسی غلام مقرر تھے۔ حرم سرا (بیگمات کے رہنے کا مکان) میں چھ ہزار عورتیں خدمت گزاری کے لئے ہر وقت حاضر رہتی تھیں۔ حوضوں میں روزانہ بارہ ہزار روٹیاں علاوہ اور چیزوں کے مچھلیوں کی خوارک کے لئے ڈالی جاتی تھیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ محل ہمارے اس زمانے کے موجودہ رائج الوقت سکہ کے اعتبار سے کئی کھرب روپے کی لاگت میں بن کر تیار ہوا تھا۔
اس کا طول (لمبائی) چار میل اور عرض (چوڑائی) تقریباً تین میل تھا۔ 325ھ میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور بیس سال میں تکمیل کو پہنچی۔
نوٹ: قصر الزہرہ کے متعلق مندرجہ بالا بیان کا بڑا حصہ عہد حاضر کے بڑے مشہور مورخ مولانا اکبر شان خان نجیب آبادی کے اس مقالہ سے ماخوذ ہے، جو موصوف نے اپنے ماہوار رسالہ ’’عبرت‘‘ جلد 5 ص 3 میں لکھا تھا۔
خوب کہا کسی عارف نے:
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے
ملے خال میں اہل شاں کیسے کیسے
مکیں ہوگئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسمان کیسے کیسے
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment