اس دن بھی مرزا فخرو نے مولوی صہبائی سے پہلی بات عندالملاقات یہی پوچھی۔ ’’استاد کوئی نیا معما؟‘‘۔
مولانا صہبائی نے سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا: ’’صاحب عالم، معمے تو میں ہزار کہہ لاؤں، ہستی ہماری خود ہی معما ہے۔ لیکن یہ معما بھی عجب بے سر پیر کی شے ہے کہ سر کی جگہ پا اور پا کی جگہ سر رکھ دیں تو اس کی بھی ہستی عام ہو جائے، پھر معما کی کیا وقعت رہی صاحب عالم؟‘‘۔
مولانا صہبائی نے بلاشک یہ جملہ بطرز معما کہا تھا۔ مرزا فخرو سوچ میں پڑ گئے کہ اس کا حل نکالیں اور استاد کو معقول جواب دیں، اور وہ بھی جلد از جلد، ورنہ بڑی کرکری ہوگی۔ لیکن بات سمجھ میں نہ آئی تھی۔ اچانک مودی خانے کی مہتمم باہر غلام گردش میں بڑ بڑاتی ہوئی گزریں۔ ’’موئے مونڈی کاٹے مولا بخش کو خصی کا گوشت لانے کو کس نے کہا تھا…‘‘۔ معاً فتح الملک بہادر کے انتقال ذہنی نے انہیں ’’اخص‘‘ تک پہنچایا۔ بمعنی ’’سب سے زیادہ خاص ترین‘‘۔ پھر وہاں سے ذہن ’’اعم‘‘ کی طرف گیا۔ یعنی ’’سب سے زیادہ عام، عام ترین…‘‘۔
پھر تو معاملہ آسان تھا: ’’معما‘‘ کا سر الگ کریں تو’’عما‘‘ بچتا ہے، اور پاؤں الگ کریں تو صرف ‘‘عم‘‘ رہ جاتا ہے۔ اب سر (میم) کی جگہ پاؤں (الف) رکھیں تو ’’اعم‘‘ آتا ہے، اور اب پاؤں (الف) کی جگہ سر (میم) رکھیں تو ’’اعمم‘‘ بنتا ہے، جسے ’اعم‘‘ اور ’’اعمیٰ‘‘ یعنی ’’اندھا‘‘ الگ مادوں سے ہیں۔ لیکن شبہ اشتقاق کا لطف رکھتے ہیں، دیکھیں وہاں آپ کی جودت طبع کیا ایجاد کرتی ہے۔
’’صاحب عالم کے ذہن رسا کی داد کون نہ دے گا،‘‘ مولانا نے متانت سے کہا۔ ’’معما‘‘ کا سر ایک باری اور قطع کریں اور اس کے پاؤں میں جوڑ دیں توکیا آپ چچا کو نعوذ باللہ نابینا تصور فرمائیں گے؟‘‘۔
مولانا کے چہرے پر اس قدر سنجیدگی، بلکہ عالمانہ خشکی تھی کہ گمان ہی نہ گزرتا تھا کہ وہ معما گوئی کر رہے ہیں۔ لیکن شہزادے پر ظاہر تھا کہ یہ معما ہے اور ہمیں اسے ابھی ہی حل کرنا ہے۔ انہوں نے دل میں کہا۔ ’’معما کا سر ایک بار اور کاٹو تو ’’عما‘‘ بچتا ہے۔ ’’اعمٰی‘‘ سے اس کی صوتی تجنیس ظاہر ہے۔ اب رہا ’’معما‘‘ کا پاؤں، یعنی الف، تو اسے… نہ نہ ہرگز نہیں، اسے ’’عما‘‘ سے نہیں بلکہ ’’اعمیٰ‘‘ سے جوڑنا چاہیے۔ اب ملا ’’اعمیم‘‘ یعنی ’’اعمام‘‘ جو جمع ہے، ’’عم‘‘ کی بمعنی ’’چچا‘‘۔ اور ’’اعمام‘‘ بر وزن افعال کے معنی ہیں۔ ’’بہت سے چچاؤں والا ہونا‘‘۔
’’ہرگز نہیں حضرت‘‘۔ مرزا فخرو بولے۔ ’’ہم تو کلّ عام بھلائی کے قائل ہیں، کسی کا برا کیوں چاہیں اور بالخصوص اپنے عمان مکرمان کا‘‘۔
یہ فقرہ گرم تھا، کہ ’’عام‘‘ کے معنی سال، ’’برس‘‘ کے بھی ہیں اور نئے سال کے لئے تہنیت کے موقع پر ’کلُّ عَام وَ اَنتُم بخیر‘ کا فقرہ بھی اس زمانے میں رائج ہو رہا تھا۔ صہبائی مسکرائے کہ شاگرد قابل اور رشید ہے۔ لیکن انہوں نے دل میں کہا، صاحب عالم نے یہاں مجھے صبح صبح معما بازی کے لئے تو یاد کیا نہ ہوگا، خدا جانے کیا مصلحت ہے۔ لیکن مجھے خود کچھ کہنا معیوب ہے۔ میں تو یوں ہی باتیں بنائے جاؤں، گویا مقصد معما ہی ہے اور کچھ نہیں۔ یہ خیال کر کے وہ بولے: ’’حضرت صاحب عالم کے حافظۂ مبارک میں میری وہ بیت تو ہوگی جس میں کئی صد اسما و اشیا کے معمے مخفی ہیں؟‘‘۔
’’جی، یاد کیا معنی، صاحب ہم تو اسے اکثر پڑھتے اور حل نکالنے کی سعی میں راتوں کو جاگتے بھی ہیں‘‘۔ شہزادے نے کہا۔
’’قدر افزائی ہے مرشد زادہ آفاق کی، اچھا وہ بیت پھر سنائے دیتا ہوں۔ اور یہ بھی عرض کئے دیتا ہوں کہ اس کا حل ’’سام‘‘ ہے۔ یعنی جہاں اس بیت میں صدہا اور معمے ہیں، ایک معما اور بھی ہے جس کا حل ’’سام‘‘ ہے‘‘۔
’’ارشاد ہو، یک لفظی حل تو ہم ڈھونڈ ہی لیں گے۔ مولانا، آج بندے کو آپ کی چونی کا نقصان منظور ہے‘‘۔
’’بہت خوب، بیت ملا خطہ ہو۔
چو آں مہ روے خود از پردہ بنموددل از ما برد و آخر کرد نا بود کہیئے، کچھ سمجھے؟‘‘۔
مرزا فتح الملک بہادر سناٹے میں آگئے۔ بھلا الفاظ میں لفظ ’’سام‘‘ کہاں پوشیدہ ہو سکتا تھا؟ کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔
انہوں نے ہلکے سے تالی بجائی اور جب چوبدار حاضر ہوا تو اس سے فرمایا: ’’ارے صاحب سنگھ ذری کی ذری صاحب عالم مرزا قادر بخش صابر صاحب کو تو بلوالائیو۔ کہیو مولانا صہبائی رونق افزائے بزم ہیں، شتاب یہاں آجاویں‘‘۔
مرزا قادر بخش صابر کو بلوانے میں کئی مصلحتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ خود بھی مولانا صہبائی کے شاگرد فن شعر میں تھے۔ دوسری بات یہ تھی (حویلی والوں کی افواہوں سے اللہ بچائے) کہ مرزا قادر بخش صاحب عالم کا زیر تصنیف تذکرہ موسوم بہ ’’گلستان سخن‘‘ تمام تر مولوی صہبائی کو دیکھا ہوا بلکہ لکھوایا تھا، لہٰذا ممکن تھا کہ مولوی صاحب نے اس بیت کا حل صابر مرزا کو بتادیا ہو۔ تیسری بات یہ صابر مرزا اور فتح الملک بہادر میں ہمیشہ سے گاڑھی چھنتی رہی تھی۔
جب تک مرزا قادر بخش آئیں آئیں، بھنڈے اور گلوریوں کے دور چلے۔ مرزا فخرو نے اپنے دو ایک شعر سنائے اور استاد سے داد پائی۔ مرزا فخرو برابر سوچتے رہے کہ ’’سام‘‘ والے معمے کا حل نکل سکے۔ لیکن انہیںکامیابی بالکل نہ ہو رہی تھی۔ اتنے میں مرزا قادر بخش تشریف لائے۔ سن و سال کے اعتبار سے وہ فتح الملک بہادر سے ایک ہی دو سال بڑے تھے، مگر خاندانی اور ذاتی وجاہت کی بنا پر سب ان کا ادب حد سے زیادہ کرتے تھے۔ مرزا قادر بخش کے والد مرزا مکرم بخت کے پر دادا مرزا عزالدین بڑے بیٹے معزالدین جہاندار شاہ بادشاہ دہلی کے تھے۔ اس طرح ان کا سلسلہ نسب براہ راست اعلیٰ حضرت محی الدین اورنگ زیب عالمگیر شاہ شاہان خلد مکان سے ملتا تھا۔ مرزا قادر بخش کے اکرام میں فتح الملک بہادر نے سر و قد کھڑے ہو کر تنظیم دی اور مولانا صہبائی نے باجودیکہ استاد تھے، نیم قد ہو کر سینے پر ہاتھ رکھا۔
قادر مرزا نے فرمایا: ’’اماں استاد آپ یہاں خوب ملے، میں آپ کو یاد ہی کر رہا تھا۔ مثنوی معنوی کل شب زیر مطالعہ تھی، ایک مقام بالکل مغوش تھا، کچھ بات سمجھ ہی میں نہ آتی تھی۔ خیال کیا کہ استاد ملیں گے تو پوچھوں گا۔ اب خدا کرنا ایسا ہوا کہ آپ یہیں تشریف فرما ہیں‘‘۔
’’مثنوی کے شعر تو پھر سمجھ لیںگے برادر، اس وقت تو استاد کا معما زیر غور ہے اور اسی کے لئے آپ کو زحمت دی گئی ہے۔ بھلا فرمائیے تو سہی اس بیت سے اسم ’’سام‘‘ کیوں کر برآمد ہوتا ہے‘‘۔ فتح الملک بہادر نے شعر پڑھا، لیکن کنکھیوں سے مرزا قادر بخش کی جانب بھی دیکھتے گئے کہ ان پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ لیکن مرزا قادر بخش صابر کے بھی منہ پر وہی نامفہومی کی الجھن تھی۔ انہوں نے زیر لب شعر کو دہرایا۔
چو آں مہ روے خود از پردہ بنمود
دل از ما برد و آخر کرد نا بود
’’مہ نے اپنے چہرے کو پردے کے اندر سے ظاہر کیا، یعنی … ’’مہ‘‘ بمعنی ’’مہینہ‘‘ کے معنی عربی میں ’’شہر‘‘ لئے جائیں تو …‘‘ مرزا قادر بخش نے زیر لب کہا۔
’’بہت خوب، صاحب عالم‘‘۔ صہبائی نے کہا۔ ’’ایک قدم آپ آگے بڑھے‘‘۔
’’مگر… مگر… پھر شہر گویا مہ ہے جو پردے سے باہر نکلا ہے۔ اچھا بہت خوب…‘‘ فتح الملک بہادر نے کہا۔ ’’اجی پر اس کے آگو کیا ہے؟‘‘۔
’’اچھا، لفظ ’’شہر‘‘ کے اعداد پان سے پانچ ہیں۔ کچھ یہ اعداد کا طلسم تو نہیں…؟ لیکن ’’سام‘‘ کے اعداد تو محض ایک سے ایک ہیں۔ کیا پان سے پانچ جوڑ گھٹا کر ایک سے ایک بن سکتا ہے؟ قادر مرزا نے کہا۔
’’بجا، لیکن اس سے بات کیا بنتی ہے؟ ہمیں تو دھیان میں پوری بیت کو رکھنا ہے‘‘۔
ان بحثوں کے درمیان مولانا صہبائی مزے مزے سے بھنڈے کے کش لے رہے تھے اور زیر لب مسکرا رہے تھے۔ جب دونوں شاگرد عاجز آگئے تو مرزا فتح الملک نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی، ’’حضور اب آپ ہی عقدہ کشائی فرمائیں۔ ہم دونوں آپ کو نذر پیش کریں گے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭