بچوں کا دیا گیا پانی چار روز بعد بھی ختم نہیں ہوا

جب بچے نظروں سے اوجھل ہوگئے تو میں نے اپنا واپسی کا سفر پھر شروع کردیا۔ راستے میں کیپ راک کا وہ علاقہ آگیا جس کو آتے ہوئے صرف اس بنا پر تفصیلی طور پر چیک نہ کیا تھاکہ اگر آگے کیپ راک میں ہیمے ٹائٹ کی افزودگی (Concentration) کی مختلف منزلیں دکھانے والی اس سے بہتر کوئی جگہ نہ ملی تو واپسی پر اس علاقے کی تصاویر اتاروں گا اور نمونے بھی حاصل کرلوں گا۔ کیونکہ بچوں والے مقام پر نمک اور کیپ راک کے تعلق کے حوالے سے بڑی اچھی جگہ مل گئی تھی اور وہاں سے میں نے نمک اور پوری طور سے ہیمے ٹائزڈ (hematised) کیپ راک کا نمونہ بھی لے لیا تھا، اس لیے اس جگہ میں نے تصاویر لینے پر ہی اکتفا کیا۔
اس مرحلے سے فراغت کے بعد میں پھر برساتی نالے کے ساتھ ساتھ اپنے زیریں سفر پر روانہ ہوگیا۔ مگر ایک مرتبہ پھر پیاس اور خالی پیٹ نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ پیاس کا بندوبست بفضل تعالی میرے پاس تھا اور اس کو استعمال بھی میں نے دل کھول کر کیا کہ ایک تو اس سے پیاس بجھتی تھی، دوسرے 2.25 لیٹر والی پانی کی بوتل کا وزن بھی کم ہوتا تھا، جو نقاہت کی وجہ سے اپنے فلیڈ کے دیگر سامان (جیوجیکل ہتھوڑا، کیمرہ، فیلڈ ڈائری نقشے اور سب سے بڑھ کر پتھروں سے بھرے متعدد کپڑے کے سیمپل بیگ) کے ساتھ اٹھانا میرے لیے مسئلہ بنتا جارہا تھا۔ ایک دفعہ دماغ میں یہ خیال بد آیا کہ کیوں نہ میں اس بوتل کا پانی گرادوں اور نشانی کیلئے خالی بوتل ساتھ رکھ لوں۔ مگر دوسرے ہی لمحے میں نے اس خیال بد کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا کہ جس پانی کو اللہ تعالی نے اپنے کرم خاص سے اور مجھ پر رحم کھاتے ہوئے بچوں کے ذریعے عنایت فرمایا ہے، میں بدبخت اسے ضائع کرنے کی بابت سوچ رہا ہوں۔ پھر اس کے بعد میں نے اپنا یہ وطیرہ بنالیا کہ ہر تھوڑی دیر بعد رکتا، بوتل کھول کر جتنا پانی پی سکتا تھا پیتا اور پھر آگے بڑھتا۔ مگر ایسا لگتا تھا کہ بوتل میں پانی کی سطح ایک خاص مقام پر آکر رک گئی ہے اور اس سے مزید نیچے جانے سے بالکل انکاری ہے۔ میں اللہ تعالی کی قدرت پر حیران تھا کہ کوئی گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ پیشتر پیاس سے میرا برا حال تھا، دو قدم چلنا یا تین چار فٹ بھی اوپر چڑھنا میرے لیے مصیبت بن گیا تھا اور میں اپنی زندگی سے مکمل طور پر مایوس ہوچکا تھا۔ اور اب میں پانی سے سیر ہوں، بلکہ زبردستی پی رہا ہوں۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میں نے اپنے آپ کو اس مقام پر پایا جہاں اس برساتی نالے کو کہ جس کے ساتھ میں نیچے کی طرف آرہا تھا، ہرمز کی سر کلر روڈ نے کراس کیا اور میں نے اپنے آپ کو سرکلر روڈ پر کھڑا پایا۔ مگر یہ مقام موٹر بوٹ کے ایسکلے سے کافی دور تھا۔ میں اسی تذبذب میں تھا کہ یہاں کچھ دیر آرام کروں یا اپنا سفر جاری رکھوں کہ میرے کانوں میں دور سے کسی ٹریکٹر کے چلنے کی آواز آئی۔ میں نے اس آواز پر کان لگا دیئے اور پھر یہ محسوس کر کے جان میں جان آئی کہ ٹریکٹر نیچے سے مستقل میرے نزدیک ہی آرہا ہے۔ جب وہ میرے قریب پہنچ گیا تو میں نے ہاتھ اٹھا کر ڈرائیور کو رکنے کی درخواست کی اور اس شریف آدمی نے فوراً ہی اپنے ٹریکٹر کو کہ جس کے ساتھ پتھروں سے بھری ہوئی ایک بڑی ٹرالی بھی تھی، روک دیا۔ میں نے ڈرائیور کو خاصی بلند آواز میں السلام علیکم کہا اور اس نے بڑی خندہ پیشانی سے میرے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی اردو میں پوچھا کہ ’’پاکستانی ہو؟‘‘۔ میں نے اثبات میں جواب دے کر خود اس مرد نیک سے پوچھا ’’اور تم کہاں سے ہو‘‘۔ جواب میں اس نے بتایا کہ میں افغانی ہوں اور کابل میرا شہر ہے۔ قصئہ مختصر میں ٹریکٹر ٹرالی میں ملبے کے اوپر بیٹھا اور ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا تو اس مرد نیک نے کہا کہ اسے اس بات کا افسوس ہے اور رہے گا کہ وہ ایک معزز پاکستانی مہمان کو ٹرالی کے ملبے پر بٹھا کر لایا۔ میں نے کہا کہ ایسا بالکل نہ سوچو۔ میں اپنی مرضی سے اور تمہارے اصرار کے باوجود کہ میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر چلوں، ملبے پر بیٹھ کر آیا ہوں کہ وہ قانون کے خلاف تھا اور میں اپنے محسن کو کسی مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ سن کر اس نے خوش دلی سے مجھے خدا حافظ کہا اور رخصت ہوگیا۔
میں نے ایسکلا پر تھوڑی دیر ہی انتظار کیا تھا کہ بندر عباس سے مسافروں کو لیے آخری موٹر بوٹ پہنچ گئی اور مسافروں کے اترنے کے بعد میں چند دیگر صاحبان کے ساتھ اس میں سوار ہوگیا اور بفضل تعالی تقریباً پانچ بجے شام بندر عباس شہر کے ایسکلا پائیں پر وارد ہوگیا اور وہاں سے ایک ٹیکسی کے ذریعے اپنے مہمان پذیر بلوار پہنچ گیا۔ ضروریات سے فارغ ہونے اور قضا نمازیں پڑھنے کے بعد جب میں اپنے کمرے میں قدرے سکون سے بیٹھا اور اس روز ہرمز میں گزرے واقعات پر غورکیا تو ہر چیز اور ہرگزرے واقعے کو عجیب و غریب اور اللہ تعالی کا کرشمہ پایا۔ ہرمز میں تھا تو محسوس ہوتا تھا کہ گویا میں پچھلی ایک صدی سے اسی جزیرے پر تھا۔ اور واپس پہنچا تو لگتا تھا کہ میں وہاں چند لمحے ہی رہا ہوں۔ سب سے زیادہ جو چیز میرے ذہن پر ہرمز کے حوالے سے نقش تھی وہ، وہ بچے تھے جو میرے لیے پانی کی بوتل لے کر پہنچے تھے اور جن کے باعث اللہ تعالی نے مجھے نئی زندگی دی تھی۔ میں نے اس بوتل کو چوما اور پھر اسے پانی سے دھوکر اور خشک کر کے کمرے میں سب سے زیادہ نمایاں جگہ پر رکھا اور طے کیا کہ جب تک میں یہاں ہوں، پانی صرف اسی بوتل کا پیوں گا۔ میں نے ایسا ہی کیا، مگر اس کا پانی ختم نہ ہوا اور ایک لیول پر آکر رک ہی گیا۔ حتیٰ کہ چوتھے روز یعنی گیارہ مارچ 2002ء کی صبح جب میں نے مہمان پذیر بلوار کو چھوڑا اور اس معجزاتی بوتل کو میز پر رکھ کر اس کی تصویر اتاری تو اس میں اتنا ہی پانی موجود تھا۔ کیونکہ بوتل کافی بڑی تھی اور اس کو دوران سفر ہر وقت بااحترام پاس نہ رکھا جا سکتا تھا، اس لیے میں نے اسے مہمان پذیر ہی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسرے دن صبح بستر سے بہت تاخیر سے نیز بڑی مشکل سے اٹھا۔ گزشتہ روز کے ہرمز کے ٹرپ نے جسم کی چول چول ہلادی تھی اور ہر جوڑ دکھتا تھا۔ مگر اس سے زیادہ آرام بھی نہ کیا جا سکتا تھا کہ میرا پروگرام ابھی کافی باقی تھا اور وقت محدود تھا۔ مجھے احساس تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب جنہوں نے میرے ایران کے دورے کے اخراجات برداشت کیے تھے، میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کا دیا ہوا کام تو میرے کرمان کے قیام کے دوران ہی مکمل ہوگیا تھا۔ باقی کام تو اپنے پیشہ وارانہ علم و تجربے میں اضافہ کیلئے ہی کر رہا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا طریقہ کار یہ تھا کہ اگر وہ کسی کو اپنا ذاتی کام تفویض کرتے تو اپنے ذہن میں اس کام پر درکار اصل خرچ اور محنتانے یا پیشہ ورانہ فیس کا ایک تخمینہ لگاتے اور متعلقہ شخص کو پوری رقم یکمشت ادا کردیتے۔ نہ اس کے بعد مزید خرچے کا کوئی مطالبہ تسلیم کرتے، نہ باقی بچے ہوئے پیسے طلب کرتے۔ اکثر حالات میں ان کا تخمینہ اتنا فراخ دلانہ ہوتا کہ سرمایہ کم پڑ جانے کا کوئی ڈر نہ ہوتا۔ میرے اس معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ اس لیے میں نے اپنا کوکنگ کوئلے کے ذخائر اور ان کی دستیابی کا اصل ہدف مکمل کرنے کے بعد ایران کے خام لوہے کے ذخائر اور نمک کے گنبدوں کی چھان بین شروع کردی تھی۔ خام لوہے کے ذخائر تو مجوزہ کنڈی اسٹیل مل جس کے لیے کوکنگ کوئلہ درکار تھا، کا مفاد وابستہ تھا۔ مگر نمک کے گنبدوں کی جیولیوجی سو فیصد میرا ذاتی پروجیکٹ تھا، جس کو میں اپنے محنتانے سے فنانس کر رہا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment