دنیا بھر کے مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کے احیا کی امید باندھ لی

عارف انجم
دنیا بھر اور بالخصوص ترکی میں لاکھوں مسلمانوں نے 2023ء سے بے انتہا امیدیں باندھ لی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد 1923ء میں مغربی طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیئے تھے۔ مسلمانوں کیلئے اس سانحے کو 2023ء میں 100 برس پورے ہو جائیں گے۔ کئی برسوں سے ترکی اور اب حالیہ کچھ عرصے سے پاکستان میں بھی یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اگلے پانچ برس میں ترکی اور مغرب کے درمیان طے پانے والے بعض معاہدوں کی سو سالہ مدت پوری ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ترکی کو اپنی حدود میں تیل نکالنے اور آبنائے باسفورس سے گزرنے والے جہازوں پر ٹیکس لگانے کا اختیار مل جائے گا، بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی سعودی حکومت کے بجائے ترکی کے کنٹرول میں آجائیں گے۔ یہ تینوں انتہائی حیرت انگیز خبریں پھیلانے والوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی اور مغرب کے درمیان خفیہ معاہدوں کے تحت ترکی کو اپنی سرزمین سے تیل نکالنے سے روک دیا گیا تھا، اسی طرح آبنائے باسفورس سے گزرنے والے بحری جہازوں پر وہ 2023ء تک ٹیکس بھی نہیں لگا سکتا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت سابق سلطنت عثمانیہ میں شامل حجاز کا علاقہ سعودی حکومت کے حوالے کیا تھا۔ یہ معاہدہ بھی پانچ برس میں ختم ہو رہا ہے اور اسلامی دنیا کی قیادت دوبارہ ترکی کے ہاتھ میں آجائے گی۔ عالمی تاریخ اور بین الاقوامی معاہدوں کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مکہ مدینہ سمیت حجاز مقدس پر ترکی کا اثر و رسوخ دوبارہ بحال ہونے سمیت کئی حیرت انگیز عالمی تبدیلیاں مستقبل قریب میں رونما ہوسکتی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب موجودہ ترک صدر رجب طیب اردگان کا وہ منصوبہ ہے جس کے تحت 2023ء تک ترکی کو اتنی ہی طاقت ور اور بااثر عالمی قوت بنانے کیلئے کوششیں جاری ہیں جتنا کہ سلطنت عثمانیہ تھی۔ یہ منصوبہ 2010ء میں ترکی کے اس وقت کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے تیار کیا تھا۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے غیر رسمی احیا پر اس سے بھی پہلے شروع ہوچکا تھا۔
اس منصوبے کو نو عثمانیت (neo-ottamanism ) کا نام دیا جا رہا ہے۔ ترک عوام بڑی محبت سے اسے ’’ینی عثمانلی‘‘ کہتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے کسی نئی صورت میں احیا کی خبریں ترکی میں بلا سبب نہیں پھیل رہیں۔
صدر اردگان کی عدالت و کلقنمہ (انصاف و ترقی) جماعت ملک کے شہری علاقوں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ مقبول ہے۔ 16 اپریل 2017ء کو ترکی میں آئینی ریفرنڈم کے دوران تین سب سے بڑے شہروں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں اردگان کی مخالفت میں ووٹ ڈالے گئے، لیکن دیگر چھوٹے بڑے شہروں سے ملنے والے ووٹوں کی بدولت وہ ریفرنڈم جیت گئے۔ انہی نسبتاً چھوٹے شہروں میں 2023ء میں ترکی اور مغربی طاقتوں کے درمیان معاہدے ختم ہونے کی خبریں پھیلی ہیں۔ اردگان کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ چونکہ چھوٹے شہروں اور دیہات کے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں اس لیے وہ ان باتوں پر یقین کر لیتے ہیں جو اردگان کی جماعت کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ سب سے زیادہ افواہیں معاہدہ لوزان کے بارے میں ہی جس پر ترکی نے اگست 1923ء میں دستخط کیے تھے۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے کی ایک خفیہ شق کے تحت ترکی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر تیل کیلئے ڈرلنگ نہیں کر سکتا۔ تاہم اس خفیہ پابندی پر یقین کرنے والے تمام ہی لوگ کم تعلیم نہیں۔ ترکی کے جنوبی ساحلی شہر مرسین سے تعلق رکھنے والے الیکٹرک انجینئر متین اوزساورن کا کہنا ہے کہ ترکی میں ہر برس ہی اخبارات میں خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، لیکن پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ تیل تلاش کرنے والے سرکاری اداروں کے ماہرین نے خود انہیں بتایا ہے کہ جب بھی وہ کوئی نئی دریافت کرتے ہیں تو انہیں اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ مذکورہ جگہ پر نشانی لگا کر اسے سیل کر دو۔ متین جیسے پڑھے لکھے ترک سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ترکی پر خفیہ پابندیوں کی باتیں محض افواہ ہیں تو پھر ان واقعات کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے۔ تاہم ان سوالات کے باوجود معاہدہ لوزان کی 143 شقوں میں تیل کیلئے ڈرلنگ پر پابندی کی کوئی شق نہیں اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے معاہدوں میں خفیہ شقیں کوئی قانونی وزن نہیں رکھتیں۔
معاہدہ لوزان کے حوالے سے ایک اور ’’افواہ ‘‘ یہ ہے کہ 2023ء کے بعد ترکی آبنائے باسفورس سے گزرنے والے بحری جہازوں سے راہداری ٹیکس وصول کرنا شروع کردے گا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ وہ بحیرہ اسود اور بحیرہ ایجیئن کو بحیرہ مرمر کے ذریعے ملانے والی دو آبنائوں باسفورس اور در دانیال میں اپنی افواج داخل نہیں کرے گا اور نہ ہی یہاں سے گزرنے والے سویلین بحری جہازوں پر بھاری ٹیکس وصول کرے گا۔ (گزرگاہ کے استعمال کیلئے معمولی رقم لی جاتی ہے)۔ معاہدہ لوزان کے کچھ عرصے بعد ترکی نے یونان کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کے باعث کچھ خدشات ظاہر کیے اور 1936ء میں ایک نئے مونٹرو کنونشن پر دستخط ہوئے جس کے تحت ترکی کو ان دونوں آبی گزرگاہوں میں اپنی افواج رکھنے کی اجازت دیدی گئی جبکہ سویلین جہازوں کی آزادانہ آمد و رفت کی شرط برقرار رکھی گئی۔ ایک اور شرط یہ ہے کہ بحرہ احمر سے تعلق رکھنے والے ممالک کے سوا کسی بھی ملک کے جنگی جہاز ان آبنائوں میں داخل نہیں ہوسکتے۔ معاہدے کے تحت آبی گزرگاہوں کے استعمال پر ترکی معمولی رقم وصول کرتا ہے۔
تیسری ’’افواہ ‘‘حجاز مقدس کے بارے میں ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ 2023ء کے بعد مکہ اور مدینہ سمیت حجاز کے علاقے پر کنٹرول ترکی کو واپس مل جائے گا اور یہ کہ مغربی طاقتوں نے سعودی عرب اور ترکی میں کوئی خفیہ معاہدہ کرایا تھا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے وقت سعودی عرب نام کا ملک ابھی وجود میں ہی نہیں آیا تھا۔ مکہ، مدینہ، جدہ، تبوک اور دیگر شہروں پر مشتمل حجاز نامی خطے سے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت 1916ء میں شریف مکہ حسین بن علی نے کی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے شریف مکہ کے منصب پر ہاشمی خاندان کے افراد کو مقرر کیا جاتا تھا۔ 1908ء میں مقرر ہونے والے حسین بن علی نے ترکوں پر قوم پرستی کا الزام عائد کرتے ہوئے 1916ء میں وہ بغاوت کردی جسے باضابطہ عرب بغاوت کا نقطہ آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ 1915ء سے حسین شریف مصر میں برطانوی ہائی کمشنر لیفٹیننٹ کرنل سر ہنری میک میہون سے خط وکتابت میں مصروف تھے۔ انگریزوں نے انہیں کافی یقین دہانیاں کرا رکھی تھیں۔ جنگ عظیم کے خاتمے پر اگست 1920ء میں سلطنت عثمانیہ اور مغرب میں طے پانے والے معاہدہ سیورے میں حجاز بھی ایک فریق کے طور پر موجود تھا۔ جب اتاترک نے خلافت ختم کرنے کا اعلان کیا تو حسین شریف نے 1924ء میں خود خلافت کا اعلان کردیا لیکن اسی برس ہی نجد سے تعلق رکھنے والے عبدالعزیز ابن سعود نے حجاز کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ 1938ء میں حجاز، نجد اور دیگر خطوں کو ملا کر سعودی عرب کی بنیاد رکھی گئی۔ سلطنت عثمانیہ 1919ء میں مغربی طاقتوں سے طے پانے والے معاہدہ مدروس کے تحت پہلے ہی حجاز سے تقریباً دستبردار ہو چکی تھی۔ عبدالعزیز ابن سعود کے حملے پر انگریزوں نے حسین شریف کی کوئی مدد نہیں کی البتہ ان کے دو بیٹوں کو اردن اور عراق کے بادشاہ ضرور بنا دیا۔ اس طرح حجاز کے معاملے میں سلطنت عثمانیہ اور سعودی حکومت کے درمیان کسی خفیہ معاہدے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خفیہ معاہدہ یا خفیہ شقوں سے متعلق خبریں افواہ ہونے کے باوجود مشرق وسطیٰ کے تیل کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا، آبنائے باسفورس سے گزرنے والے جہازوں پر ٹیکس لگانا اور حجاز مقدس پر اثرورسوخ بڑھانا ترکی کے بڑے اہداف میں شامل ہے۔ 2023ء تک ترکی یہ اہداف حاصل کرنے کیلئے تیزی سے پیشرفت کر رہا ہے۔ اور یہی پیشرفت نہ صرف ترکی و دیگر ممالک میں 1923ء کے خفیہ معاہدوں سے متعلق افواہیں پھیلا رہی ہے بلکہ عربوں کو بھی پریشان کر رہی ہے۔
نوعثمانیت یا ینی عثمانلی نامی منصوبے کے بظاہر دو حصے ہیں۔ ایک حصہ اعلانیہ ہے جسے رجب طیب اردگان کے وژن 2023ء کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں ترکی کی معاشی ترقی کے حوالے سے اہداف کا ذکر ہے۔ لیکن دوسرا غیر اعلانیہ حصہ زیادہ اہم ہے جس پر خاموشی سے عمل ہو رہا ہے۔ ینی عثمانلی کی پالیسی کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جاتا ہے، ’’جمہوریہ ترکی ان تمام ممالک اور خطوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرے گا جو ماضی میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔‘‘ یاد رہے کہ سلطنت عثمانیہ، قفقاز سے لے کر شمالی افریقہ اور یورپ میں بلقان تک پھیلی ہوئی تھی۔ اردن، فلسطین، مصر، عراق ،شام اور حجاز اس کا حصہ تھے۔ گو کہ ینی عثمانلی میں ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول کی بات نہیں کی گئی، لیکن تعلقات مضبوط کرنے کی بات سے بھی عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پریشان ہیں۔ کئی واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پریشانی کچھ ایسی بے جا بھی نہیں۔
دسمبر 2017ء میں ترکی نے بحیرہ احمر کے کنارے واقع سوڈان کے ساحلی شہر سواکن کو 99 سالہ لیز پر حاصل کر لیا۔ یہ جگہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھی۔ عثمانی دور میں حاجیوں کے قافلے یہاں پہنچتے تھے اور پھر یہاں سے کشتیوں میں سمندر پار کرتے ہوئے جدہ اترتے تھے۔ اس زمانے میں یہ تجارتی بندرگاہ بھی تھی لیکن موجودہ دور میں پورٹ سوڈان کے نام سے ایک نئی بندرگاہ یہاں سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر کام کر رہی ہے۔ ترکی نے سوڈان سے یہ ساحلی بندرگاہ اس بنیاد پر لیز پر لی ہے کہ تاریخی شہر کی تعمیر نو کے بعد اسے سیاحتی مقام بنایا جائے گا تاہم معاہدے کی شرائط میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ترکی اپنے جنگی جہاز یہاں رکھ سکتا ہے اور مستقبل میں یہ ’’کسی بھی قسم کے فوجی تعاون‘‘ کیلئے استعمال ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب کے قریب ترکی نے یہ واحد جگہ حاصل نہیں کی۔ سواکن کے معاہدے سے تین ماہ قبل ترکی نے صومالیہ میں فوجی اڈہ بنایا تھا۔ سواکن بندرگاہ ’’ینی عثمانلی‘‘ کا کتنا اہم حصہ ہے؟ اس کا اندازہ ترک صدر اردگان کی سوڈان میں کی گئی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’تصور کریں کہ ترکی سے حاجی یہاں آتے ہیں، سواکن میں تاریخی مقامات کا دورہ کرتے ہیں اور پھر کشتی میں بیٹھ کر جدہ پہنچتے ہیں۔‘‘ سواکن میں یہ بندرگاہ یقیناً ترکی کو حجاز مقدس کی کھوئی ہوئی سرزمین سے قریب تر کر دے گی۔ سعودی شاہی حکومت پہلے ہی خطے میں ترکی کے بڑھتے اثر و رسوخ بالخصوص ثقافتی اثرات سے پریشان ہے۔ مارچ 2018ء میں سعودی عرب کی ملکیت ٹی وی نیٹ ورک ایم بی سی نے ترکی کے ڈرامے اپنے ٹی وی چینلز پر نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔ یاد رہے کہ ایم بی سی مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ٹی وی نیٹ ورک ہے جس کے تحت کئی سٹیلائیٹ چینلز مختلف عرب ممالک میں نشریات پیش کر رہے ہیں۔ ترک ڈراموں پر اس پابندی کی وجہ ’’ سلطان سلیمان ‘‘ جیسے وہ ڈرامے ہیں جن میں سلطنت عثمانیہ کی شان و شوکت دکھائی گئی ہے۔ یہ ڈرامہ پاکستان میں بھی بہت مقبول ہوا تھا۔
آبنائے باسفورس میں غیرملکی جہازوں پر بھاری ٹیکس لگانے کیلئے بھی ترکی نے راستہ نکال لیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے استنبول میں آبنائے باسفورس کے متوازی ایک اور نہر نکالنے کے منصوبے جاری ہے۔ اس نئی نہر یا چینل کی تکمیل کی صورت میں استنبول کا یورپی حصہ جزیرے میں تبدیل ہو جائے گا۔ ترک حکومت نے منصوبے کا جواز یہ پیش کیا کہ آبنائے باسفورس پر جہازوں کی ٹریفک بہت زیادہ ہے اور نئی چینل اس دبائو میں کمی لانے میں معاون ثابت ہوگی۔ تاہم یہ بات بھی کھل کر کہی جا رہی ہے کہ نئی سمندری گزرگاہ پر مونٹرو کنونشن کا اطلاق نہیں ہوگا اور یہاں سے گزرنے والے جہازوں سے ترک حکومت اپنی مرضی کا ٹیکس وصول کر سکے گی۔ دوسری جانب آبنائے باسفورس سے گزرنے والے جہازوں پر ترک حکومت نے نئی پابندیاں لگانا شروع کردی ہیں۔ یہ پابندیاں رواں ماہ یعنی ستمبر 2018 کے آغاز میں ہی لگائی گئی ہیں جن کے تحت جہازوں کے کپتان پابند ہوں گے کہ وہ آبنائے باسفورس میں داخل ہونے سے پہلے ہی ایک تفصیلی سیفٹی لسٹ جمع کرائیں۔ اسی طرح 300 میٹر سے زیادہ طویل جہاز 10 دن پہلے اپنی آمد کی اطلاع دیں گے۔ ترک حکومت آبنائے باسفورس سے گزرنے والے بحری آئل ٹینکرز کے خطرناک ہونے کا نقطہ پہلے ہی کئی بار اٹھا چکی ہے۔ ایسے حالات میں کہا جاسکتا ہے کہ 2023ء تک غیر ملکی جہازوں سے بھاری ٹیکس وصولی کی ترک تیاریاں مکمل ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment