ایف بی آر کے آڈٹ ڈپارٹمنٹس ٹھپ ہونے سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوا

عمران خان
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرنے والے آڈٹ اور نگرانی کے تینوں ڈپارٹمنٹ ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں، جس کے نتیجے میں ٹیکس چوری اور اسمگلنگ میں ملوث مافیا کی وارداتیں ریکارڈ توڑ ہو چکی ہیں۔ ذرائع کے بقول ٹرانسشپمنٹ پرمٹس پر ملک کے ڈرائی پورٹس اور کراچی کے اپریزمنٹ کلکٹوریٹ کے علاوہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے مس ڈکلیریشن، راستے میں سے چوری اور افغانستان جانے والا سامان واپس پاکستان اسمگل کر کے مقامی مارکیٹوں میں سپلائی کرنے کیلئے بعض تاجروں اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹوں نے ایک ریکٹ قائم کرلیا ہے، تاہم ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کا سراغ لگانے کیلئے قائم کردہ ایف بی آر کے تین اداروں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹرنل آڈٹ اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کی کارکردگی 60 فیصد تک گر چکی ہے۔ یہ تینوں ادارے محکمہ کے اندر کرپشن اور بدعنوانی کو روکنے کے علاوہ ٹیکس چوروں اور اسمگلروں کی مانیٹرنگ اور نگرانی کیلئے قائم کئے گئے تھے۔ تاہم ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کی عدم دلچسپی اور ایف بی آر افسران کے درمیان اختیارات کی جنگ نے اس پورے سسٹم کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، جس کے نتیجے میں ملک کو ریونیو کی مد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
ذرائع کے بقول کراچی کے تینوں کسٹم اپریزمنٹ جن میں ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم، ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ایسٹ، ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ کے علاوہ اسلام آباد، فیصل آباد، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے ڈرائی پورٹس کے ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ سے روزانہ کی بنیاد پر بیرون ممالک سے ہزاروں پاکستانی تاجروں اور کمپنیوں کی جانب سے منگوائے گئے سامان کی کھیپ کی کلیئرنس کیلئے گڈز ڈکلریشن یعنی جی ڈیز ان کے کلیئرنگ ایجنٹوں کے ذریعے جمع کروائی جاتی ہیں، جس پر ان کی جانب سے ظاہر کردہ کوائف کی روشنی میں ان کے سامان کی سرسری جانچ پڑتال کے بعد ان کو کلیئرنس دی جاتی ہے اور ان کی جانب سے ظاہر کردہ مقدار، مالیت اور معیار کے حساب سے ان کے سامان پر لاگو ہونے والی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ تاہم اس وقت سب سے زیادہ سامان ان تمام کلکٹوریٹس پر گرین چینل کے ذریعے کلیئر ہوکر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر سامان کسٹم کے الیکٹرونک گڈ کلیئرنس سسٹم یعنی وی بوک سے کلیئر ہو کر آتا ہے۔ اس دوران مس ڈکلیریشن اور اسمگلنگ کی وارداتوں کے ذریعے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کی جاتی ہے، جس کیلئے ٹرانسشپمنٹ پرمٹ کی وارداتیں کی جاتی ہیں۔ یعنی کراچی کی بندر گاہوں سے سامان کلیئر کرانے کے بجائے یہ سامان ڈرائی پورٹ پر کلیئر کروانے کیلئے سامان لے کر جانے کے اجازت نامے حاصل کرکے راستے میں سے قیمتی سامان نکال کر اس کی جگہ ہلکا سامان بھر دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد، لاہور، پشاور اور فیصل آباد کی خشک گودیوں پر اس کم قیمت سامان پر ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کرکے قیمتی سامان راستے میں ہی مقامی مارکیٹوں کے دکانداروں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ دوسری قسم کی وارداتوں میں مس ڈکلیریشن کا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی منگوائے گئے سامان کی مالیت، مقدار اور معیار میں ردو بدل ظاہر کرکے کم سے کم ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کرکے چوری کی جاتی ہے۔ اس کیلئے کلیئرنگ ایجنٹوں کے ذریعے جعلی دستاویزات بنوائی جاتی ہیں۔ جبکہ تیسری قسم کی ٹیکس چوری اور اسمگلنگ ان دونوں طریقوں سے زیادہ سنگین ہے۔ جس میں کراچی میں موجود ڈائریکٹو ریٹ جنرل آف ٹرانزٹ ٹریڈ سے منظوری حاصل کرکے کراچی کی بندرگاہوں سے اربوں روپے کا سامان افغانستان کے تاجروں کے نام پر کلیئر کروایا جاتا ہے۔ تاہم یہ سامان افغانستان میں داخل ہونے کے بعد واپس پاکستان میں اسمگل کردیا جاتا ہے یا پھر راستے میں ہی چوری کرکے مقامی مارکیٹوں میں سپلائی کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول ان تینوں قسم کی وارداتوں کی بیخ کنی اور ان کی سرپرستی میں ملوث کسٹم افسران کے خلاف کارروائیوں کیلئے ایف بی آر میں تین اہم شعبے موجود ہیں جن میں سے سب سے اہم شعبہ ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کا ہے۔ اس شعبے کا ڈائریکٹر جنرل خود مختار ہوتا ہے اور وہ براہ راست چیئرمین ایف بی آر کو ہی رپورٹ کرتا ہے۔ اس شعبے کو کئی اختیارات حاصل ہیں، جس کے تحت اس شعبے کے تمام صوبوں میں ڈائریکٹوریٹ آفس قائم ہیں جہاں انٹیلی جنس افسران تعینات ہوتے ہیں۔ ان کی ٹیمیں کلکٹوریٹ سے کلیئر ہونے والے سامان کا نہ صرف کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ چیک کرسکتی ہیں، بلکہ پورٹ اور ٹرمینل پر کھڑے سامان کو بھی شک کی بنیاد پر چیک کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس شعبے کی ٹیموں کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ یہ سڑکوں پر رواں دواں ٹرکوں کے کنٹینرز کو کسی بھی مقام پر روک کر جانچ پڑتال کرسکتے ہیں اور ٹیکس چوری یا اسمگلنگ ثابت ہونے پر ضبط کرکے مقدمات درج کرسکتے ہیں۔ تاہم یہی شعبہ اس وقت سب سے زیادہ الزامات کی زد میں ہے یہاں تک کے اس کے ڈائریکٹر جنرل شوکت علی عباسی پر بھی سنگین کرپشن کے الزامات ہیں اور ان کے خلاف ان کے اپنے ہی ادارے کے بعض اہلکاروں کی جانب سے دی جانے والی درخواستوں میں سے ایک پر گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے بھی نوٹس لیا گیا اور ان کے خلاف تحقیقات کے احکامات جاری کئے گئے۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹو ریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی ٹیمیں کراچی سمیت اندرون سندھ اور پنجاب بھر میں کئی ٹیکس چور کمپنیوں اور ٹرانسشپمنٹ پرمٹ اسمگلنگ میں ملوث گروپوں کے خلاف مقدمات درج کرچکی ہیں۔ تاہم ان پر الزامات ہیں کہ ان مقدمات اور انکوائریوں پر تحقیقات مکمل نہیں کی گئیں، بلکہ یہ التوا کا شکار ہیں اور ان میں جوڑ توڑ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انٹیلی جنس افسران پر رشوت خوری کے الزامات ہیں۔ جبکہ حالیہ دنوں میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی آفس کی ایک ٹیم پر اسمگلنگ کے موبائل فونز کی کھیپ پکڑنے کے بعد ان میں سے بھاری مقدار میں موبائل فون فروخت کرنے کے الزامات بھی ہیں۔ اسی طرح سے ایف آئی اے لاہور بھی ایک ایسی انکوائری پر تحقیقات کر رہی ہے جس میں ڈائریکٹو ریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن لاہور کے افسران پر اسمگلنگ کے ضبط کئے جانے والے موبائل فونز کی بھاری کھیپ فروخت کرنے پر انکوائری کی جا رہی ہے۔ تاہم ان تمام الزامات کے باجود ڈی جی شوکت عباسی تاحال اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔
ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے علاوہ دیگر دو نگرانی اور آڈٹ کے شعبے ڈائریکٹو ریٹ جنرل انٹرنل آڈٹ اور ڈائریکٹو ریٹ جنرل آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ میں تعینات افسران کی تعداد ان شعبوں کیلئے منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں 40 فیصد ہے جو کہ پورے ملک کے ماڈل کسٹم کلکٹوریٹس سے ہونے والی کلیئرنس کی جانچ پڑتال اور آڈٹ کیلئے ناکافی ہے۔ ذرائع کے بقول ڈائریکٹو ریٹ جنرل آف انٹر نل آڈٹ میں65 افسران کی اسامیاں ہیں۔ تاہم اس وقت صرف 28 افسران کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح سے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ میں 120 افسران کی اسامیاں مقرر ہیں جبکہ اس کے تحت ملک بھر میں صرف 58 افسران کام رہے ہیں۔ جبکہ ان دونوں شعبوں کو ملک کے تمام ماڈل کسٹم کلکٹوریٹس میں داخل ہونے والی جی ڈیز کلیئر کروانے کیلئے داخل کردہ دستاویزات کے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے انہیں وقت پر ٹیکس چوری پکڑنے اور وارداتوں کا سراغ لگانے میں ناکامی ہوتی ہے۔ ذرائع کے بقول اس ضمن میں کئی بار ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا جاچکا ہے کہ انہیں ریکارڈ تک رسائی دی جائے، تاہم ایف بی آر کے مختلف شعبوں کے افسران کے درمیان اختیارات کی جنگ اس میں آڑے آرہی ہے، کیونکہ کسی شعبے کے افسران دوسرے شعبے کے حکام کو اپنے کام میں مداخلت نہیں کرنے دیتے اور اس سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ اندرونی معاملات باہر نہ آسکیں۔ اس طرح سے ماڈل کسٹم کلکٹوریٹس کے اپریزمنٹ کے وہ افسران جو کہ ٹیکس چوروں اور اسمگلروں کی سرپرستی کرتے ہیں انہیں بچنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment