مولانا زاہد الراشدی
امیر اسلامی شریعت کونسل پاکستان، مدیر اعلیٰ ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
یہ 1987ء کی بات ہے کہ امریکا کے سفر کے دوران میرا قیام کچھ عرصہ نیویارک میں رہا۔ وہاں مکی مسجد، بروک لین میں چند روز تک ’’اسلام میں عقیدہ ختم نبوت‘‘ پر درس دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اسی دوران وہاں دوستوں نے ایک یہودی صحافی سے ملاقات کرائی، جو مسئلہ ختم نبوت اور قادیانیت کا قضیہ سمجھنا چاہتا تھا۔ یہاں پر اسی گفتگو کے ایک حصے کا خلاصہ پیش ہے:
اس صحافی نے مجھ سے پہلے سوال یہ کیا کہ: ’’احمدی، قرآن کو بھی مانتے ہیں اور حضرت محمدؐ کو بھی مانتے ہیں۔ مسلمان وہ ہے، جو قرآن اور حضرت محمدؐ کو مانے۔ پھر وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’میرے بھائی، مذہبی طور پر آپ کون ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’یہودی۔‘‘
پوچھا: ’’وجہ یہ ہے کہ آپ موسیٰؑ کو مانتے ہیں، تورات کو مانتے ہیں اور ذرا یہ بتایئے کہ عیسائی، موسیٰؑ کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے؟‘‘
اس نے کہا: ’’ہاں، مسیحی، موسیٰؑ اور تورات کو بھی مانتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’عیسائی، موسیٰؑ اور تورات کو ماننے کے بعد کیا یہودی ہیں۔ اگر وہ یہودی ہونے کا دعویٰ کریں گے تو کیا آپ مانیں گے؟‘‘
کہنے لگا: ’’ہم نہیں مان سکتے، کیونکہ وہ تورات اور موسیٰؑ کو ماننے کے بعد ایک نئے نبی اور کتاب کو بھی مانتے ہیں۔ بے شک وہ مانتے پھریں تورات اور موسیٰؑ کو، لیکن چونکہ وہ انجیل اور عیسیٰؑ کو بھی مانتے ہیں، اس لیے وہ یہودی نہیں ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں مسلمان ہوں اور الحمد للہ، تورات اور موسیٰؑ کو بھی مانتا ہوں، عیسیٰؑ اور انجیل کو بھی مانتا ہوں۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ میں یہودی ہوں تو کیا آپ اس دعوے کو تسلیم کریں گے؟‘‘
اس نے کہا: ’’ہر گز نہیں، کیونکہ تم موسیٰؑ اور تورات کے بعد، محمدؐ کو رسول اور قرآن کو مانتے ہو۔‘‘
میں نے کہا: ’’بھائی، میرا بھی یہی مسئلہ ہے۔ عیسائی، موسیٰؑ اور تورات کو ماننے کے باوجود یہودی نہیں کہلا سکتے، اس لیے کہ وہ انہیں نبی تو مانتے ہیں، مگر بعد ازاں نئی الہامی کتاب انجیل کو بھی مانتے ہیں۔ مسلمان، موسیٰؑ اور تورات، عیسیٰؑ اور انجیل کو ماننے کے باوجود نہ یہودی کہلا سکتے ہیں اور نہ عیسائی، کیوں کہ ان کے بعد وہ حضرت محمدؐ کو مانتے ہیں اور قرآن کو مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے مانتے ہوں گے قادیانی قرآن کو، حضرت محمدؐ کو بھی، میں سردست اس بحث میں نہیں پڑتا، لیکن جس اصول کی بنیاد پر ہماری گفتگو ہو رہی ہے، اسے آپ ذہن میں رکھیں کہ وہ حضرت محمدؐ اور قرآن کے بعد، مرزا غلام احمد کو نبی اور اس پر وحی و الہام مان کر مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰؑ اور انجیل کو ماننے والے یہودیوں سے الگ مذہب رکھتے ہیں، حضرت محمدؐ اور قرآن کو ماننے والے یہودیوں اور عیسائیوں سے الگ مذہب کے مالک ہیں، تو اسی اصول پر مرزا غلام احمد کو ’’نبی‘‘ قرار دینے والے بھی یقینی طور پر الگ مذہب کے حامل ہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے۔ اچھا اب یہ بتائیں کہ آپ ان کے حقوق کیوں نہیں مانتے؟‘‘
میں نے کہا: ’’کون سے حقوق؟ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ: ’’ہمارا ٹائٹل اور پہچان کا حوالہ اسلام ہی رہے گا۔‘‘ اب آپ بتائیں کہ ایک فرم یا کمپنی ایک سو سال سے ایک ٹریڈ مارک اور ایک ہی نام پر کام کر رہی ہے۔ ظاہر ہے اس کی ایک ساکھ، تاریخ اور ٹریڈ مارک ہے۔ اس میں سے ایک دو آدمی الگ ہوکر ایک نئی کمپنی بنا لیتے ہیں۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا اس نئی کمپنی کو پرانی کمپنی کا نام، اس کا مونو گرام اور اس کے ٹریڈ مارک کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہوگا؟‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ نئے نام سے کمپنی چلائے اور نیا مونو گرام بنائے۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’جب دنیا کے کسی قانون اور رواج میں اس کی گنجائش نہیں ہے، تو یہاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا فراڈ روا رکھنے پر کیوں زور دیا جا رہا ہے؟‘‘
یہ بات سن کر وہ خاموش ہوگیا۔ میں نے کہا: ’’بات یہ نہیں ہے کہ ہم ان کے حقوق نہیں مانتے، بلکہ آپ سے میرا ایک سوال ہے: میں پاکستان میں رہتا ہوں۔ پاکستان میں عیسائی رہتے ہیں؟ یہودی رہتے ہیں؟ سکھ اور ہندو رہتے ہیں؟ کیا کبھی کسی نے وقتاً فوقتاً عیسائیوں پر چڑھائی کی ہے کہ وہ جلسہ کیوں کر رہے ہیں یا وہ کیوں اپنے اشاعتی ادارے چلا رہے ہیں؟ سال میں دو ایک بار تو اتنے زیادہ سکھ آجاتے ہیں کہ ہر طرف انہی کی پگڑیاں نظر آتی ہیں، مگر کیا کبھی کسی عالم دین نے اس کے آنے اور مذہبی معاملات ادا کرنے پر کوئی سوال یا اعتراض اٹھایا؟ اسی طرح عیسائیوں اور ان کے گرجا گھروں پر سوال کیوں نہیں اٹھتا؟ یہودیوں سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ ہندوؤں کی دیوالی، ہولی اور پوجا پاٹھ پر کیوں کوئی اعتراض نہیں ہوتا؟ آخر قادیانیوں پر ہی کیوں اعتراض ہوتا ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’واقعی یہ دلچسپ سوال ہے، آپ خود ہی بتایئے اس کا سبب؟‘‘
عرض کیا: ’’بات دراصل یہ ہے کہ ہندو اپنے آپ کو ہندو کہہ کر بات کرتے ہیں اور اپنے حقوق کے دائرے میں رہتے ہیں اور سکھ اپنے حقوق کے دائرے میں رہتے اور ہم پر کوئی دعویٰ نہیں جماتے۔ مسئلہ وہاں پر شروع ہوتا ہے، جہاں قادیانی اپنا الگ وجود رکھنے کے باوجود اسے الگ تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے حقوق اپنے نام الاٹ کرانا چاہتے ہیں۔ آپ بتائیں یہ کیسے ممکن ہے؟ صحیح یا غلط کی بات الگ ہے، مگر تفریق کا اصول یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرح یہاں بھی ویسے بھی لاگو ہوگا کہ مرزائے قادیاں کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے والے الگ مذہب رکھتے ہیں اور اس کا انکار کرنے والوں کا مذہب الگ ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’اس لیے زیادتی ہم نہیں کر رہے ہیں، زیادتی قادیانی کر رہے ہیں اور اس زیادتی پر بین الاقوامی رائے عامہ کی لابیاں یا مخصوص این جی اوز قادیانیوں کی تائید و حمایت کرکے ہمارے جذبات اور ہمارے عقائد، ہمارے مفادات اور ہمارے اسٹیٹس کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح قادیانی مذہب کے حاملین کے بین الاقوامی سیاسی عزائم کی ایک تاریخ ہے، جسے یہاں پر زیر بحث نہیں لا رہا۔ پیغمبروںؑ سے لے کر صحابہ کرامؓ تک کے بارے میں ان کے گرو (Guru) مرزا غلام احمد کی، معیار سے گری گفتگو کر دہراتے ہوئے طبیعت کراہت محسوس کرتی ہے۔ اسی طرح ان کی طرف سے دین اسلام میں تحریف تو ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ ان سب زیادتیوں کے باوجود یہ نام مسلمانوں جیسے رکھیں، اپنے مراکز کو ’’مساجد‘‘ قرار دیں، اپنی پروپیگنڈہ مہمات کو ’’تبلیغ اسلام‘‘ قرار دیں اور مغالطہ انگیزی کا شکار کریں، تو کوئی انصاف پسند انسان ایسی تحریف اور جعل سازی کو کیسے قبول کر سکتا ہے؟ اسی لیے 1974ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے انہیں مسلمانوں سے الگ مذہب کا پیروکار قرار دیا تھا، جو مبنی برحقیقت فیصلہ ہے۔ اب وہ دنیا کے تسلیم شدہ اصولوں اور پاکستان کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کرکے خود اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔ اگر وہ بھلے سبھاؤ اپنے مذہب پر ہی چلیں، اپنی ہی نئی اصطلاحات، منفرد شناخت اور الگ نام برتیں تو کسی کو کیا اعتراض ہوگا؟‘‘
(بشکریہ: ’’کتاب: ناموس رسالت‘‘ مصنف: جسٹس شوکت عزیز صدیقی)