جھٹلا چکی ہے ان سے پہلے نوح کی قوم، پھر جھوٹا کہا ہمارے بندے کو اور بولے دیوانہ ہے اور جھڑک لیا اس کو، پھر پکارا اپنے رب کو کہ میں عاجز ہو گیا ہوں تو بدلہ لے، پھر ہم نے کھول دیئے دہانے آسمان کے، پانی ٹوٹ کر برسنے والے سے اور بہا دیئے زمین سے چشمے، پھر مل گیا سب پانی ایک کام پر جو ٹھہر چکا تھا اور ہم نے اس کو سوار کردیا ایک تختوں اور کیلوں والی پر، بہتی تھی ہماری آنکھوں کے سامنے، بدلہ لینے کو اس کی طرف سے جس کی قدر نہ جانی تھی اور اس کو ہم نے رہنے دیا نشانی کیلئے، پھر کوئی ہے سوچنے والا پھر کیسا تھا میرا عذاب اور میرا کھڑ کھڑانا اور ہم نے آسان کردیا قرآن سمجھنے کو، پھر ہے کوئی سوچنے والا۔
خلاصۂ تفسیر
ان لوگوں سے پہلے قوم نوح نے تکذیب کی، یعنی ہمارے بندے (خاص نوح علیہ السلام) کی تکذیب کی اور کہا کہ یہ مجنون ہیں اور (محض اس قول بے ہودہ ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ ان سے ایک بے ہودہ فعل بھی سرزد ہوا یعنی) نوح (علیہ السلام) کو (ان کی طرف سے) دھمکی (بھی) دی گئی (جس کا ذکر سورۃ شعراء میں ہے) تو نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں (محض) درماندہ ہوں (ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا) سو آپ (ان سے) انتقام لے لیجئے (یعنی ان کو ہلاک کر دیجئے) پس ہم نے کثرت سے برسنے والے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور زمین سے چشمے جاری کر دیئے، پھر (آسمان اور زمین کا) پانی اس کام کے (پورا ہونے کے) لئے مل گیا، جو (علم الٰہی میں) تجویز ہو چکا تھا (مراد اس کام سے ہلاکت ہے کفار کی، یعنی دونوں پانی مل کر طوفان بڑھا، جس میں سب غرق ہوگئے)(جاری ہے)