مرزا عبدالقدوس
پیپلز پارٹی کے اعلی سطحی وفد کی کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت اور بعد ازاں آصف علی زرداری کی بلاول بھٹو کے ہمراہ رائیونڈ جاکر نواز شریف سے تعزیت کے نتیجے میں دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان سرد مہری ختم اور مثبت رابطوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ملک کی ان دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے۔ ذرائع کے بقول دونوں میں باہمی تعلقات میں بہتری کی خواہش کی وجوہات الگ الگ ہیں، لیکن دونوں جماعتوں کی قیادت آپس میں تعاون کو ناگزیر سمجھتی ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف نے اپنے خلاف مقدمات کے نتائج سے بے پروا ہو کر جس راہ کا انتخاب کیا ہے، اس پر چلتے ہوئے جو ان کا ہم رکاب ہو اس سے وہ سیاسی تعاون اور اتحاد پر آمادہ ہیں اور اس کا خیر مقدم کریں گے، تاکہ غیر سیاسی قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ان ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں وہ اپنے ان سیاسی دوستوں اور حریفوں سے بھی اچھی توقعات رکھتے ہیں، جنہوں نے ماضی میں ان کو دھوکا دیا یا ان کے معاملے میں خود نواز شریف سے کوتاہی ہوئی۔ لیگی ذرائع کے بقول یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب کی تلخیوں کے باوجود نواز شریف نے پی پی قیادت سے خوش دلی سے ملاقات کی اور فاتحہ خوانی کیلئے آمد پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس موقع پر شہباز شریف بھی نواز شریف کے ساتھ تھے، جو کچھ عرصہ قبل آصف علی زرداری کی رائیونڈ آمد کے موقع پر ان سے ملاقات سے گریز کرتے ہوئے پہلے ہی لاہور چلے گئے تھے۔ کیونکہ دو ہفتے قبل پی پی نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے کیلئے اپوزیشن کا متفقہ امیدوار تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پی پی کی ایک دوسرے سے اچھے سیاسی تعلقات کی خواہشات کی وجوہات اور مقاصد الگ لگ ہیں۔ شریف برادران ایسا کیوں چاہتے ہیں، اس کی بھی الگ الگ وجوہات ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں ان سے حالیہ ہفتوں میں ملاقاتیں کرنے والے یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیل میں اسیر ہونے اور اپنی اہلیہ کی وفات کے باوجود وہ ٹوٹے نہیں ہیں اور نہ حوصلہ ہارا ہے۔ وہ نتائج سے بے پروا ہوکر غیر سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ سیاسی مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، گو کہ اس پالیسی پر ان کی اپنی پوری جماعت بھی یکسو نہیں ہے، لیکن وہ پیپلزپارٹی کو اصلی اور حقیقی جمہوری قوت سمجھتے ہوئے اس کے تعاون کے خواہش مند ہیں۔ ایک غیر جانبدار تجزیہ نگار کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے حالیہ سخت اقدامات اور کرپشن کے خلاف سخت پالیسی نے نواز شریف کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا کہ وہ ڈٹے رہنے کا تاثر دیں۔ جبکہ پی پی قیادت ان دنوں کرپشن اور بد عنوانی کے مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس صورت حال میں آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ ’’ن‘‘ لیگ سے سیاسی تعاون کا عندیہ دیکر پی ٹی آئی حکومت اور غیر سیاسی قوتوں پر دباؤ ڈالا جائے اور انہیں اپنے خلاف موجود مقدمات میں نرمی لانے پر مجبور کیا جائے۔ جو ذرائع کے مطابق بظاہر بہت مشکل ہے، کیونکہ عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت کرپٹ عناصر خاص طور پر جنہوں نے ملکی دولت لوٹی ہے ان کے معاملے میں نرمی دکھانے پر کسی صورت آمادہ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف جو ماضی میں پی پی خاص طور پر آصف علی زرداری کے سخت خلاف رہے ہیں، ان کی بھی خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر اعتدال پسندی پر مبنی اپوزیشن کی جائے اور پی پی کی وساطت سے نواز شریف کو بھی جارحانہ انداز فکر سے واپس لایا جائے اور ملک میں رائج سیاسی کلچر کے مطابق تمام اداروں کو اعتماد میں لے کر سیاست کی جائے۔ ایک معتبر لیگی رکن پارلیمنٹ کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب سے پہلے اسپیکر چیمبر میں حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کو یقین دہانی کرا دی تھی کہ آج آپ دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہونے دیں، شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی نہ کریں۔ کل حکومت قومی اسمبلی کے اجلاس میں الیکشن کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن کا اعلان کر دے گی، جس پر سب نے اتفاق کیا۔ لیکن صدر کے خطاب کے آغاز پر نون لیگ نے دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر صرف اپنی سیاسی ضرورت کیلئے شور شرابہ کیا اور واک آؤٹ کر گئی، جس میں اس کا ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے نہیں دیا، بلکہ صرف ان جماعتوں نے دیا جو اس کی حکومت میں اتحادی تھیں۔ ذرائع کے مطابق مشاورت کے بغیر کئے گئے اس احتجاج میں اگر پی پی شامل نہیں ہوئی تو اس میں قصور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی قیادت کا ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق اگلے چند دنوں میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کا بھی امکان ہے، لیکن اس کا انحصار بھی پی پی قیادت اور اس کے خلاف موجود مقدمات پر ہے۔
واضح رہے کہ چوہدری برادران اور شریف خاندان کے درمیان سیاسی اختلاف کے باوجود سماجی تعلقات رہے ہیں۔ لیکن ان کو بڑا نقصان اس وقت ہوا جب نواز شریف نے چوہدری برادران سے رائے ونڈ میں ملاقات اور ناشتے کی دعوت کنفرم کرنے کے بعد اچانک منسوخ کر دی تھی۔ حالیہ الیکشن 2018ء کے بعد سابق اسپیکر ایاز صادق نے چوہدری پرویز الہیٰ کو فون کرکے سیاسی تعاون پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی، تاکہ پنجاب میں پی ٹی آئی مخالف حکومت بنائی جا سکے۔ لیکن پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد کے نتیجے میں ایوانوں میں پہنچنے والی مسلم لیگ ’’ق‘‘ کی قیادت نے معذرت کرلی تھی۔ کلثوم نواز کی وفات کے بعد چوہدری شجاعت حسین اور مونس الہیٰ نے بھی رائے ونڈ جا کر نواز شریف سے اظہار تعزیت کیا، لیکن فی الحال دونوں لیگی دھڑوں کے درمیان کسی بھی سطح پر سیاسی تعاون کا امکان نہیں اور نہ ’’ق‘‘ لیگ اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اس نے اپنا سیاسی مستقبل پی ٹی آئی سے منسلک کر رکھا ہے، جو مضبوط اور فی الحال محفوظ نظر آتا ہے۔