سطوت عثمانیہ کی یاداردگان نے تازہ کرنا شروع کی

دوسری قسط
عارف انجم
’’ینی عثمانلی‘‘ یا ’’نو عثمانیت‘‘ کا راستہ رجب طیب اردگان کے لیے انتہائی کٹھن رہا ہے اور مستقبل میں شاید پہلے سے بھی زیادہ دشواریاں آئیں۔ 1997ء میں جوانی کی توانائی سے بھرپور رجب طیب اردگان استنبول کے میئر تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی طے کردہ پالیسی کے تحت ترکی میں اسلامی روایات یا سلطنت عثمانیہ کی اسلامی ثقافت کے بارے میں بات کرنا ممنوع تھا۔ عثمانی دور میں ترک فوج کی کامیابیوں پر بات کرنے کی اجازت تو تھی، لیکن ان کامیابیوں کا سہرا ترک خلفا کے سر باندھنے کی ممانعت تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران گیلی پولی کے میدان میں عثمانی فوجیوں نے برطانیہ اور فرانس کی افواج کو تاریخی شکست دی تھی۔ لیکن اس فتح کا ذکر جدید ترکی میں صرف فوجی کمانڈروں کے حوالے سے آتا تھا۔ ایسے وقت میں اردگان نے ایک جلسے میں عثمانی دور کے ترک شاعر ضیا گوک الپ کی نظم پڑھ ڈالی۔
مسجدیں ہماری بیرکیں ہیں،گنبد ہمارے ہیلمٹ،مینار ہماری سنگینیں ہیں،اور مسلمان ہمارے فوجی۔
مسلم ثقافتی اور مذہبی ورثے کے اس ذکر نے ترکی کے فوجی اور سویلین حکمرانوں کو آگ لگا دی۔ اردگان 1994ء سے استنبول کے میئر چلے آ رہے تھے۔ ان کی کارکردگی کا اعتراف مخالفین بھی کرتے تھے۔ لیکن یہ خوبیاں انہیں زیر عتاب آنے سے نہ بچا سکیں۔ انہیں چار ماہ جیل ہوئی۔ میئر کے عہدے سے برطرف کر کے ان کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ جیل سے رہائی ملنے پر اردگان نے بظاہر اپنا رویہ تبدیل کر دیا۔ اب وہ سماجی ترقی کی باتیں کرنے لگے۔ 2001ء میں انہوں نے عدالت و کلقنمہ پارٹی (اے کے پی) کی بنیاد رکھی۔ 2002ء میں یہ جماعت الیکشن جیت کر برسر اقتدار آگئی اور 2003ء میں اردگان پر پابندی ختم کر دی گئی۔ وہ ترکی کے شہر سعرد سے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ اسی شہر سے جہاں عثمانی دور کے شاعر کی نظم پڑھنے پر وہ زیر عتاب آئے تھے۔
اگلے کئی برس تک طیب اردگان اور ان کی جماعت نے اقتصادی اصلاحات کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اتاترک دور کی اسلام مخالف پالیسیوں سے چھیڑ چھاڑ سے گریز اسی مصالحانہ حکمت عملی کا حصہ تھی۔ اسی دور میں یورپ کے مطالبے پر شہری آزادیوں کے کئی قوانین بھی منظور کیے گئے، تاکہ ترکی میں یورپی یونین کی شمولیت کی راہ ہموار ہو سکے۔ ترکی کی مجموعی قومی پیداوار دگنی ہونے کی راہ پر گامزن تھی۔ شہریوں کی آمدن بڑھ گئی تھی۔ لیکن 2007ء سے ترکی میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہوگئی۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں دہشت گرد حملے شروع ہو گئے تھے۔ اردگان کی پارٹی کو اندازہ ہو گیا کہ یورپی یونین اب اسے رکنیت نہیں دے گی۔ اب مغرب نواز پالیسیوں کی جگہ کھلم کھلا نو عثمانیت کا ذکر ہونے لگا۔ امریکہ کے معروف جنگی مورخ جوزف مائیکالف 2007ء سے شروع ہونے والی اس تبدیلی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’دوسرے لفظوں میں ماڈرن، سیکولر یورپ کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد اے کے پی نے ترکی کیلئے ایک نیا کردار وضع کرنے کا سوچا۔ ایک ایسا کردار، جس میں عثمانی اور اسلامی ثقافت کو گلے لگایا جائے گا، نہ کہ کمالیت پسندوں کی طرح مسترد کیا جائے گا۔ نو عثمانیت کا نظریہ ترکی کو اسلام اور مشرق وسطیٰ کی طاقت بنائے گا‘‘۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں ترکی میں اسلامی تشخص پر زور دیا جانے لگا۔ اردگان نے مدارس کیلئے رقوم کا اعلان کیا۔ مدارس میں تعلیم کا سلسلہ پھیلنے لگا۔ مدارس کے طلبہ کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ حجاب پر پابندیاں ختم ہوگئیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ترک میں اسلام پسندی صرف اے کے پی کی وجہ سے پائی جاتی ہے یا یورپی یونین کی بے رخی نے اسلام پسندی کو مہمیز کیا۔ اتاترک کے ترکی میں 1932ء سے 1950ء تک عربی زبان میں اذان پر پابندی تھی۔ لیکن 1950ء میں ترکوں نے عربی اذان بحال کروا لی تھی۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ترکی کے دیہی علاقوں کے لوگ زیادہ اسلام پسند ہیں اور یہاں کمالیت کا زیادہ اثر نہیں رہا۔ اردگان حکومت کی نئی پالیسیاں چونکہ فوج کو قبول نہیں تھیں، اس لیے بغاوتوں کی کوششیں شروع ہوئیں۔ پہلی کوشش 2007ء میں ہی کی گئی۔ پھر 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت ہوئی۔ ان دونوں کوششوں نے اردگان کو پہلے سے زیادہ مضبوط کر دیا۔ مسلح افواج میں موجود اپنے لاکھوں مخالفین کو وہ نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کم ازکم داخلی محاذ پر نو عثمانیت کیلئے کوئی بڑی مزاحمت باقی نہیں رہی۔
نو عثمانیت کی حکمت عملی کے معمار سابق ترک وزیر اعظم اور وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو ہیں۔ ان کی ایک اور شناخت بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کی ہے۔ 2001ء میں انہوں نے اپنی کتاب ’’اسٹرٹیجک ڈیرنلک‘‘ (اسٹرٹیجک ڈیپتھ، جسے اردو میں تزویراتی گہرائی کہا جاتا ہے) شائع کی۔ اس کتاب میں ترکی کے لیے نئی خارجہ پالیسی کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ترک قوم پرستی کے بجائے سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہنے والے ممالک سے قریبی تعلقات کی تجویز دی گئی تھی۔ تاہم دائود اغلو ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ اس پالیسی کا مطلب ترکی کی جانب سے دوسرے ممالک پر قبضہ نہیں ہے۔ وہ صرف ثقافتی و مذہبی تعلق کی بات کرتے ہیں۔ 2009ء میں دائود اوغلو پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک بیان میں خود کو ’’نیا عثمانی‘‘ قرار دیا ہے۔ جس کی انہوں نے پُر زور تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نو عثمانیت کی اصطلاح ان معنوں میں قبول کی جانی چاہیے کہ ترکی خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے۔ جبکہ مغربی ممالک نو عثمانیت کی اصطلاح منفی معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک کے دبائو کا مقابلہ کرنے کیلئے سابق عثمانی ریاستوں کو بطور تزویراتی گہرائی استعمال کرنے کی جو تجویز دائود اوغلو نے پیش کی، اس سے ملتی جلتی تزویراتی گہرائی کی بات بھارت کے مقابلے پر پاکستان کے افغانستان سے قریبی تعلقات کے تناظر میں بھی کی جاتی ہے۔ لیکن احمد دائود اوغلو کے نظریے میں ترکی اس تزویراتی گہرائی کا مرکز ہے۔ جس کے گرد جمع ہو کر مسلمان ریاستیں اسے علاقائی طاقت بنا دیں گی۔ دائود اوغلو 1989ء سے 1993ء تک ترکی کے وزیر اعظم رہنے والے تورگوت اوزل کے مشیر تھے۔ اوزل کے دور میں بھی نو عثمانیت کا ذکر عام ہوا تھا۔
تاہم 1990ء کے عشرے کے آغاز میں نو عثمانیت اور پھر گزشتہ عشرے کی ابتدا میں اسٹرٹیجک گہرائی دونوں ہی ڈھیلے ڈھالے نظریات رہے، جن کا وجود کاغذوں تک محدود تھا۔ دیگر ممالک میں عدم مداخلت کی یہ پالیسی عملی طور پر کوئی بڑے معنے نہیں رکھتی تھی۔ لیکن نو عثمانیت کے عملی پہلو پر کام 2010ء میں شروع ہوا۔ عرب ممالک میں حکمرانوں کے خلاف ہونے والی بغاوتوں نے جنہیں ’’عرب اسپرنگ‘‘ کا نام دیا گیا، اردگان اور احمد دائود اوغلو کے حوصلے بلند کیے اور یہاں سے نوعثمانیت کی حقیقی شکل سامنے آئی۔ جو عدم مداخلت کی فلاسفی سے کوسوں دور ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے، جو کسی دستاویز کی صورت میں دستیاب نہیں۔ لیکن اس کے عملی مظاہر مصر، شام، عراق اور خلیجی ریاستوں کے اطراف دیکھے جا رہے ہیں۔ ترکی نے مصر میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر مرسی کی حمایت اسی منصوبے کے تحت کی تھی۔ احمد دائود اوغلو کے سابق طالب علم اور مرمرا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر بہلال اوزکان کا کہنا ہے کہ ’’جب مصر میں حسنی مبارک کی حکومت گری تو احمد دائود اوغلو نے سوچا کہ یہی مناسب وقت ہے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ مسائل پیدا نہ کرنے کی پالیسی رک گئی۔ ترکی 180 درجے کے زاویے پر مڑ گیا اور حقیقی نظریاتی خارجہ پالیسی پر عمل درآمد شروع ہوگیا‘‘۔
2010ء کو نو عثمانیت کے ترک منصوبے کا عملی نقطہ آغاز کہا جاسکتا ہے۔ نو عثمانیت کے اسی عملی پہلو نے خلیجی ممالک میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ مصر میں فوج کے ذریعے صدر مرسی کی حکومت ختم کرانے کے بعد امریکہ نو عثمانیت کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن قطر اور حجاز کے معاملات اتنی جلدی سعودی عرب یا امریکہ کے کنٹرول میں آتے دکھائی نہیں دیتے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment