حضرت امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا یزید اول 60ء میں تخت نشین ہوا، یہ میسون بنت سجدل کے بطن سے تھا، اس کی پیدائش حضرت امیر معاویہؓ کے دور امارت میں ہوئی تھی، سیرو شکار کا بڑا شائق تھا، لیکن سپہ گری کے جوہر موجود تھے۔ لڑائیوں میں شریک ہوتا تھا، قسطنطنیہ کی مشہور مہم میں بھی تھا اور سپہ سالار تھا۔ حضرت سیدنا حسینؓ، حضرت ابن زبیرؓ، حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرؓ وغیرہ نے یزید کی ولی عہدی تسلیم نہیں کی تھی، اس لئے تخت نشینی کے بعد یزید کے سامنے سب سے پہلے ان بزرگوں کی بیعت کا سوال پیدا ہوا۔ حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرؓ سے تو کوئی خاص خطرہ نہ تھا، لیکن حضرت حسینؓ اور حضرت ابن زبیرؓ کی جانب سے دعویٰ خلافت کا یقین تھا، جس کے معنی یہ تھے کہ ساری دنیائے اسلام خصوصاً حجاز اور عراق میں یزید کے خلاف انقلاب برپا ہوجاتا۔ اس لئے تخت نشینی کے ساتھ ہی اس نے ولید بن عتبہ حاکم مدینہ کو ان دونوں بزرگوں سے بیعت لینے کا تاکیدی حکم بھیجا۔ چنانچہ ولید نے حضرت سیدنا حسینؓ اور حضرت ابن زبیرؓ کو بلا بھیجا، ابھی تک حضرت معاویہؓ کے انتقال کی خبر مدینہ نہ پہنچی تھی، لیکن دونوں بزرگوں کو قرائن سے اس کا اندازہ ہو گیا اور وہ اس طلبی کا یہ مقصد سمجھ گئے، تاہم وہ ولید کے بلاوے پر اس کے پاس گئے۔ اس نے حضرت معاویہؓ کی موت کی خبر سنا کر یزید کا حکم سنایا، حضرت سیدنا حسینؓ نے انا للہ پڑھی اور حضرت معاویہؓ کیلئے دعائے خیر کی، پھر فرمایا: میرا جیسا آدمی چھپ کر بیعت نہیں کر سکتا اور نہ میرے لئے یہ زیبا ہے، جب عام لوگوں کو بلائو گے اس وقت میں بھی آجائوں گا، ولید نیک فطرت اور امن پسند شخص تھا، راضی ہو گیا اور آپؓ لوٹ گئے، حضرت ابن زبیرؓ ایک دن کی مہلت لیکر راتوں رات نکل گئے، ولید کو خبر ہوئی تو اس نے آدمی دوڑائے، لیکن حضرت ابن زبیرؓ دور جا چکے تھے۔ مکہ پہنچ کر وہ حرم میں پناہ گزین ہوگئے۔ حضرت سیدنا حسینؓ یزید کی غیر شرعی موروثی بادشاہت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھے، لیکن بغیر بیعت کے مفر کی کوئی صورت نہ تھی، عراق کے شیعان علیؓ کا میلان آپؓ کی طرف تھا، اس لئے آپؓ بڑی کشمکش میں مبتلا ہوگئے، لیکن مدینہ میں بغیر بیعت کے قیام نا ممکن تھا، اس لئے اپنے بھائی حضرت محمد بن حنفیہؒ کے مشورے سے شعبان 60ھ میں مع اہل وعیال کے مکہ روانہ ہوگئے، راستہ میں ایک محبِ اہل بیت ابن مطیع ملے، انہوں نے پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ فرمایا مکہ جاتا ہوں، ابن مطیع نے عرض کیا، وہاں جانے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن خدا کیلئے کوفہ کا قصد نہ فرمایئے گا، وہاں کے لوگ بڑے غدار ہیں، انہوں نے آپ کے والد بزرگوار اور محترم بھائی دونوں کو دھوکا دیا، آپ اہل حجاز کے سردار ہیں، حرم میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ لوگوں کو اپنی دعوت دیجئے، حرم کا گوشہ ہر گز ہر گز نہ چھوڑیئے گا، مکہ پہنچ کر آپؓ نے شعب ابی طالب میں قیام فرمایا۔ عراق کے شیعان علیؓ ابتداء سے حضرت امیر معاویہؓ کے خلاف تھے، ان کی وفات کے بعد انہوں نے خلافت کا منصب اہل بیت میں منتقل کرنے کی کوشش کی اور حضرت سیدنا حسینؓ کے مکہ پہنچنے کے بعد آپؓ کے پاس بلاوے کے خطوط لکھے، بلکہ عمائدین کوفہ نے خود آکر کوفہ چلنے کی درخواست کی، اس درخواست پر آپؓ نے اپنے چچیرے بھائی حضرت مسلم بن عقیلؒ کو حالات کی تحقیق کے لئے کوفہ بھیجا اور اہل کوفہ کو لکھا:’’تمہارے خط ملے، تمہاری خواہش معلوم ہوئی، میں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کی تحقیق کیلئے بھیجتا ہوں، جیسا کہ تم نے لکھا ہے اور تمہارے آدمیوں کا بیان ہے، اگر واقعی میری خلافت پر متفق ہو تو مسلم وہاں کے حالات دیکھ کر مجھے اطلاع دیں گے، میں فوراً روانہ ہوجائوں گا۔‘‘ یہ خط لیکر مسلمؒ کوفہ پہنچے اور مختار بن ابی عبید کے گھر میں قیام کیا، ان کی آمد کی خبر سن کر ان کے پاس شیعان علیؓ کی آمدورفت شروع ہوگئی، کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر کو اس کی خبر ہوگئی، لیکن وہ بڑے دیندار، نیک فطرت اور امن پسند آدمی تھے، اس لئے کسی قسم کی سختی نہیں کی، بلکہ لوگوں کو بلا کر صرف انہیں سمجھا دیا کہ: ’’فتنہ و اختلاف میں نہ پڑو، اس میں جان و مال دونوں کی ہلاکت و بربادی ہے، جب تک کوئی شخص میرے مقابلے کیلئے نہ کھڑا ہوگا، اس وقت تک میں محض بد گمانی پر کسی سے باز پرس نہ کروں گا۔‘‘ لیکن یزید کے جاسوسوں نے دمشق اطلاع بھیج دی کہ مسلم بن عقیل کوفہ آگئے ہیں اور لوگوں کو برگشتہ کر رہے ہیں۔ اگر حکومت کی بقا منظور ہے تو فوراً اس کا تدارک کیا جائے۔ اس اطلاع پر یزید نے عبید اللہ بن زیاد والی بصرہ کو حکم بھیجا کہ کوفہ جاکر جس طرح ممکن ہو، مسلم کو نکال دو، یہ حکم پاکر وہ کوفہ پہنچا اور اہل کوفہ کے سامنے تقریر کی: ’’باشندگان کوفہ! امیر المومنین نے مجھے تمہارے شہر کا حاکم مقرر کرکے بھیجا ہے اور مظلوموں کے ساتھ انصاف، مطیع وفرمانبردار کے ساتھ احسان و سلوک اور نا فرمانوں کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم کو پورا کروں گا، مطیع و فرمانبردار کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آئوں گا، لیکن مخالفوں کیلئے سم قاتل ہوں۔‘‘ (ابن اثیر ج 2 ص 10) اور ہر محلہ کے سر کردہ آدمی کو اس کے محلہ کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اپنے اپنے محلہ کے فتنہ پرداز خوارج اور مشتبہ لوگوں کے نام لکھ کر اطلاع دیں جو شخص اس میں کوتاہی کرے گا، اس کے دروازے پر اس کو سولی پر لٹکایا جائے گا۔ ان انتظامات کو دیکھ کر مسلم بن عقیلؒ مختار کے گھر سے ایک دوسرے محبِ اہل بیت ہانی بن عروہ کے یہاں منتقل ہوگئے۔ انہیں ٹھہرانے میں تامل ہوا، لیکن پاس مروت سے انکار نہ کرسکے اور بادل نخواستہ انہیں جگہ دیدی، یہاں بھی شیعان علیؓ کی آمدورفت برابر جاری رہی اور اٹھارہ ہزار کوفیوں نے مسلمؒ کے ہاتھ پر بیعت کرلی، انہوں نے حضرت سیدنا حسینؓ کو خط لکھ بھیجا کہ ’’حالات موافق ہیں، آپ فوراً تشریف لایئے۔‘‘ عبید اللہ بن زیاد برابر مسلم کی جستجو میں لگا ہوا تھا۔ لیکن پتہ نہ چلتا تھا۔ ہانی بن عروہ عمائد کوفہ میں تھے، اس لئے کوفہ کے والیوں کے یہاں ان کی آمدورفت رہتی تھی، لیکن جب سے حضرت مسلمؒ ان کے گھر آئے تھے، اس وقت سے انہوں نے عبید اللہ بن زیاد کے پاس آنا جانا بند کردیا تھا، ایک دن وہ بعض شرفائے کوفہ کے ساتھ عبید اللہ کے پاس گئے، اس نے پوچھا تم نے مسلم کو چھپایا ہے؟ اور لوگوں کو ان کی بیعت کیلئے جمع کرتے ہو؟ انہوں نے انکار کیا، ان کے انکار پر معقل نے شہادت دی، اس عینی شہادت کے بعد انکار کی گنجائش نہ تھی، ہانی نے اقرار کرلیا اور اصل واقعہ بیان کردیا کہ میں نے ان کو بلایا نہیں تھا، وہ خود میرے یہاں آئے تھے، مجھے انہیں ٹھہرانے میں تامل تھا، لیکن مروت سے انکار نہ کرسکا۔ اگر یہ فعل آپ کے مزاج کے خلاف ہے تو میں ابھی جاکر ان کو نکال دیتا ہوں، ابن زیاد نے کہا تم یہاں سے جا نہیں سکتے، یہیں ان کو بلا کر ہمارے حوالے کرو، ہانی کی غیرت نے اس کو گوارا نہ کیا، انہوں نے کہا میں اپنے یہاں پناہ لینے والے کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتا، ان کے انکار پر ابن زیاد نے انہیں قید کردیا۔ کوفہ میں خبر پھیل گئی کہ ہانی قتل کردیئے گئے، یہ افواہ سن کر حضرت مسلمؒ اپنے عقیدت مندوں کو لیکر نکل پڑے اور عبید اللہ بن زیاد کو قصر امارت میں گھیر لیا گیا، اس وقت ابن زیاد کے پاس حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا، صرف پچاس آدمی تھے، ان میں کچھ پولیس کے آدمی اور چند اشراف کوفہ تھے۔ ابن زیاد نے انہیں حکم دیا کہ وہ لوگ اپنے اپنے قبیلہ اور اثر والوں کو واپس کریں اور اعلان کرا دیا، جو شخص امیر کی اطاعت کرے گا، وہ انعام و اکرام سے نوازا جائے گا اور جو مخالفت کرے گا، اسے سخت سزا دی جائے گی، کچھ لوگ اس کی دھمکی کے خوف سے اور کچھ لوگ اشراف کے سمجھانے سے مسلم کا ساتھ چھوڑ کر الگ ہوگئے۔ کچھ لوگوں کے اعزا واقربا انہیں واپس لے گئے، غرض مسلمؒ کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے، اس وقت وہ بہت گھبرائے اور ایک بوڑھی عورت کے گھر پناہ لی۔ ابن زیاد نے یہ بھی اعلان کروا دیا کہ مسلمؒ جس کے گھر سے برآمد ہوں گے، اسے سخت سزا دی جائے گی اور جو انہیں گرفتار کرکے لائے گا، اسے انعام دیا جائے گا، اس اعلان کے ساتھ ہی گھروں کی تلاشی شروع کرا دی، اس اعلان سے خوفزدہ ہو کر بوڑھی عورت کے لڑکے نے بتا دیا۔ ابن زیاد نے اسی وقت محمد بن اشعث کو گرفتاری کیلئے بھیج دیا۔مکان کا محاصرہ کرلیاگیا، مسلمؒ نے جب دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو جان پر کھیل کر نکل آئے اور تن تنہا پوری جماعت کا مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہوگئے، اس وقت محمد بن اشعث جان بخشی کا وعدہ کرکے انہیں ابن زیاد کے پاس لے آیا اور اس سے کہا میں انہیں امان دے چکا ہوں۔ ابن زیاد نے ڈانٹا کہ میں نے تم کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا تھا، تمہیں امان دینے کا کیا حق تھا، یہ سن کر مسلمؒ نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرا بچانا تمہارے بس میں نہیں ہے، لیکن اتنا کرنا کہ حضرت حسینؓ کو میرے انجام کی خبر کرکے کہلا دینا کہ وہ کوفہ والوں پر ہر گز ہر گز اعتبار نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں، وہیں سے لوٹ جائیں۔ ابن اشعث نے ایفا کا وعدہ کیا۔ پھر عمر بن سعد سے جو ان کا قریبی عزیز اور اموی حکام میں تھا، وصیت کی کہ میں نے سات سو درہم اہل کوفہ سے قرض لئے تھے، انہیں ادا کردینا اور میری لاش کو دفن کردینا، حضرت سیدنا حسینؓ کو اطلاع دیکر راستہ سے واپس کردینا۔ ان وصیتوں کے بعد ابن زیاد نے ان کو شہید کرا دیا۔ ان کی شہادت سے حضرت سیدنا حسینؓ کا ایک بازو ٹوٹ گیا۔ حضرت مسلمؒ نے حضرت سیدنا حسینؓ کو کوفہ کے حالات کی اطلاع دیکر آپؓ کو بلا بھیجا تھا، اس اطلاع پر آپؓ نے روانگی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں، اہل مکہ اور حضرت سیدنا حسینؓ کے اعزا کوفیوں کی غداری سے پوری طرح واقف تھے، اس لئے انہیں جب آپؓ کی تیاریوں کی خبر ملی تو تمام بہی خواہوں نے روکا۔ عمرو بن عبد الرحمن نے کہا: میں نے سنا ہے آپ عراق جا رہے ہیں، وہاں آپ کے دشمنوں کی حکومت ہے۔ ان کے حکام موجود ہیں، ان کے ہاتھ میں فوج اور خزانہ ہے، عوام بندئہ زر ہوتے ہیں، جن لوگوں نے آپ کی مدد کا وعدہ کیا ہے، وہی آپ سے لڑیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ نے سمجھایا کہ خدارا! اس ارادہ سے باز آئیں، اگر عراقیوں نے شامی حکام کو قتل کرکے شہر پر قبضہ کرلیا ہو تو بے شک جائو اور اگر مخالفین کی حکومت قائم ہے تو یقین مانو کہ عراقیوں نے تم کو محض لڑنے کیلئے بلایا ہے، شامی حکام کے ہوتے ہوئے کوئی تمہارا ساتھ نہ دے گا، تم سب کو بے یارو مددگار چھوڑ دیں گے، جن لوگوں نے تم کو بلایا ہے، وہی تم کو جھٹلائیں گے اور تمہارے خلاف لڑیں گے، حضرت سیدنا حسینؓ نے جواب دیا: میں استخارہ کروں گا۔ دوسرے دن پھر حضرت ابن عباسؓ نے سمجھایا کہ میرا دل کسی طرح نہیں مانتا، اس راہ میں تمہاری جان کا خوف ہے، عراقی غدار ہیں، ہر گز ان کے یہاں نہ جائو، مکہ ہی میں رہو، تم حجازیوں کے سردار ہو، اگر عراقی واقعی تمہارے حامی ہیں تو ان کو لکھو کہ پہلے وہ تمہارے دشمنوں کو اپنے یہاں سے نکال دیں، اس وقت تم وہاں کا قصد کرو، لیکن اگر تم نے جانے ہی کا فیصلہ کرلیا ہے اور مکہ میں رہنا نہیں چاہتے تو عراق کے بجائے یمن جائو، وہ ایک الگ تھلگ مقام ہے، وہاں تمہارے والد کے حامی موجود ہیں، ہر طرح کی حفاظت کا سامان ہے، وہاں بیٹھ کر اپنی خلافت کی کوشش کرو، اس طرح آسانی سے تمہارا مقصد حاصل ہو جائے گا، حضرت سیدنا حسینؓ نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے سچے بہی خواہ ہیں، لیکن اب میں پختہ عزم کرچکا ہوں، حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا اگر نہیں مانتے تو کم از کم اہل وعیال کو ساتھ نہ لے جائو، مجھے ڈر ہے کہ حضرت عثمانؓ کی طرح تم بھی شہید کئے جائو گے۔ لیکن مشیت کچھ اور تھی، اس لئے خیر خواہوں کی ساری کوششیں بیکار گئیں اور حضرت سیدنا حسینؓ ذی الحجہ 60 ہجری کو مع اہل وعیال مکہ سے کوفہ روانہ ہوگئے۔ مکہ سے نکلنے کے بعد فرزدق شاعر جو کوفہ سے آرہا تھا، ملا اس نے بتایا کہ کوفیوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں بنی امیہ کے ساتھ۔ آپؓ کی روانگی کے بعد آپؓ کے چچیرے بھائی حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ نے عمرو بن سعید اموی حکام مکہ سے خط لکھوا کر بھیجا کہ آپ لوٹ آیئے، میں ہر طرح سے آپ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں، آپ اطمینان و سکون کے ساتھ مکہ میں رہئے، میں ہر طرح سے آپ کی مدد کروں گا، یہ خط آپ کو راستہ میں ملا، آپؓ نے اس کے جواب میں عمرو بن سعید کو شکریہ کا خط لکھا، مگر واپس نہ ہوئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭