فضائی آلودگی کے باعث برطانوی باشندے یادداشت کھونے لگے

سدھارتھ شری واستو
برطانوی اداروں نے ایک نئی ریسرچ میں دعویٰ کیا ہے کہ فضائی آلودگی اور بالخصوص ٹریفک کا دھواں انسانی یاداشت کو تباہ کردیتا ہے اور انسانی دماغ کے خلیوں کو ہلاک کرتے ہوئے نئے خلیوں کی پیدائش کا عمل بھی روک دیتی ہے جس سے انسان کا دماغ شدید متاثرہوجاتا ہے اور نئے خلیات نہ بننے کی وجہ سے انسانی رویہ میں جارحانہ یا نیم دلانہ تبدیلی آجاتی ہے اورانسان بتدریج تمام پرانی باتیں اور چیزیں فراموش کرنے لگتا ہے، جس کو مغربی اصطلاح میں ’’ڈے منشیا‘‘ کی بیماری سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس عارضہ کو یورپی اور امریکی طبیبوں نے ’’ایلزائمر‘‘ کی بیماری سے ملتی جلتی ایک شاخ قرار دیا ہے جس میں مریض اپنا ماضی اور حال بھول جاتا ہے اور قدم قدم پر غلطیاں کرتا ہے اور جلدی غصہ میں آجاتا ہے۔ لانسیٹ نامی جریدے کے مطابق برطانوی محققین کی رپورٹ میں مصروف شاہراہوں کے قریب رہنے والے مکینوں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ ان کا آلودگی کے پاس رہنا ان کو ڈے منشیا کا مریض بنا سکتا ہے۔ گارجین جریدے نے یو کے ایئر پلیوشن کرائسز کے حوالہ سے انکشاف کیا ہے کہ فضائی آلودگی ہر برس 40 ہزار برطانوی شہریوں کی جان لے لیتی ہے، جن میں 9 ہزار شہری لندن میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں اور ایک لاکھ بیس ہزار مریضوں کو پھیپھڑوں کے انفیکشن سمیت سانس کی نالیوں کے مسائل اور دمے اور اتنے ہی شہریوں کو دماغی خلل ڈے منشیا کے مرض میں مبتلا کردیتی ہے، لیکن ابھی تک لندن میں فضائی آلودگی کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے جس پر متعدد تنظیموں اوراداروں نے شدید تشویش ظاہر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں برطانوی تنظیم ایلزائمر ایسوسی ایشن نے بتایا ہے کہ اس وقت ان کے پاس ڈے منشیا کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد ہے۔ فضائی آلودگی سے ڈے منشیا کے پھیلائو کے بارے میں تحقیق کا سہرا تین معروف برطانوی تعلیمی اداروں یونیورسٹی آف لندن، امپیریل کالج لندن اور کنگز کالج لندن کے محققین کے سر جاتا ہے، جن کا کہنا ہے کہ 2004 میں کی جانیوالی تحقیق میں ایک لاکھ اکتیس ہزار مریضوں میں سے ایک بھی کیس ڈے منشیا کا نہیں تھا، لیکن محض 13 برس میں سترہ ہزار مریض ڈے منشیا کے مرض میں مبتلا پائے گئے ہیں، جس کا سبب فضائی آلودگی قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈے منشیا کا سبب ہوا میں موجود دو عنصر نائٹروجن ڈائی اوکسائیڈ اور کیمیائی مادہ mp2.5 ہیں، جس سے ’’نیورو جنریٹیو بیماری‘‘ کا پھیلائو مزید بڑ ھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تحقیق معروف جرنل لانسیٹ میں شائع ہوئی ہے۔ یورپی جریدے پیسفک اسٹینڈرڈ نے ایک الگ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ماحولیاتی تنظیموں اور طبی ماہرین نے کہا ہے کہ شہروں میں موجود فضائی آلودگی کے سبب سانس کی مدد سے پھیپھڑوں اور نالیوں میں نائٹروجن سمیت مختلف گیسیں، کاربن کے بخارات اور کیمیکلز پہنچ جاتے ہیں جو اندرونی جھلیوں کو تباہ کردیتے ہیں اور پھیپھڑوں کی باریک نالیوں میں آکسیجن اور کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے تبادلہ کو متاثر کرتے ہیں، جبکہ سانس کی مدد سے دماغ میں پہنچنے والی آلودہ آکسیجن سے دماغ کے خلیات تباہ ہوجاتے ہیں اور نئے خلیات کا بننا متاثر ہوتا ہے۔ برطانوی سرزمین پر موجود لکھاری روہن نائیک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ماضی میں ڈے منشیا کی بیماری شراب نوشی اور منشیات کی کثرت، ڈپریشن اورغذائیت کی کمی کا بنیادی سبب قرار دی جاتی تھی، لیکن اب برطانوی معاشرے میں پائی جانیوالی فضائی آلودگی کے سبب بھی ڈے منشیا کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی آئی ہے۔ کوئین میری یونیورسٹی، لندن کے ماہرین نے بتایا ہے کہ برطانوی بچوں میں پھیپھڑوں، سانس کی نالی اور دیگر امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس سے ہزاروں بچوں میں سینہ کا انفیکشن عام مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ برطانوی جریدے گارجین نے ایک چشم کشا رپورٹ میں بتایا ہے کہ دار الحکومت لندن سمیت برطانیہ بھر کے شہر فضائی آلودگی کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور بالخصوص لندن کی فضا انسانوں کی صحت کیلئے زیادہ آلودہ ہوچکی ہے۔ واضح رہے کہ لندن کے درجنوں پرائمری اسکولوں کی انتظامیہ نے ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کی وجہ سے اسکولوں کے احاطہ میں موجود تمام کلاس رومز کے اندر آکسیجن کی سپلائی اور ہوا کو صاف کرنے کے پلانٹس/ ایئر پیوریفائر لگوالئے ہیں، تاکہ بچوں کی صحت کو بر قرار رکھا جاسکے۔ ایوننگ اسینڈرڈ نامی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے سبب لندن کے ہزاروں شہری گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جن میں لندن کی ایک شہری کیتھرائین بازیل بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ شدید قسم کی بیماریوں اور بالخصوص ناک اور سانس سمیت ڈے منشیا سے تحفظ کیلئے اب شہر میں شاذ و نادر ہی نکلتی ہیں اور خود کو سانس اور دمہ کے امراض سے پیدا ہونے والی ڈے منشیا جیسی مہلک بیماری سے بھی بچا کر رکھتی ہیں۔ لندن کے ڈاکٹر ایڈورڈ کہتے ہیں کہ بلاشبہ فضائی آلودگی اور ہوا میں پائی جانیوالی مختلف اقسام کی گیسیں انسانی دماغ پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ڈے منشیا ایک دماغی بیماری ہے جس میں دماغ کے خلیات تیزی سے غیر فعال یا مردہ ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک قدرتی عمل نہیں ہے لیکن فضائی آلودگی کے سبب اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس بیماری میں مبتلا افراد کی یاداشت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں برطانوی میڈیکل جرنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈے منشیا اصل میں ایلزائمر کی ایک قسم ہے جس میں مریض کے دماغ کے خلیات بتدریج مرتے ہیں، لیکن ان کی جگہ لینے کیلئے نئے خلیات بننے کا عمل بند ہوجاتا ہے، جس سے مریض کے اندر خراب یاداشت، شخصیت میں تبدیلی، بار بار ایک ہی بات دہرانا اور ایک بہت زیادہ سوچنا بھی شامل ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن میں کارگزار اقوام متحدہ کے ادارہ تحفظ اطفال (unicef) کی مقامی برطانوی سربراہ ایمی گبز کا کہنا ہے کہ لاکھوں برطانوی بچے اسکول جاتے اور آتے وقت سنگین آلودگی کے مسائل کا شکار ہیں جس سے ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن پایا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں تحقیقی رپورٹ میں شامل کئے جانے والے 40 اطفال کی طبی جانچ کا ڈیٹا استعمال کیا گیا تو علم ہوا ہے کہ سوائے ایک بچے کے تمام بچوں میں فضائی آلودگی کے سبب انفیکشن موجود ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment