امت رپورٹ
کراچی میں محرم الحرام کے دوران سرکاری سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ 7 ہزار اسکائوٹس بھی سیکورٹی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 60 تنظیموں کے اسکائوٹس کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے، ممکنہ خود کش بمبار پر قابو پانے اور دہشت گردی سے بچائو کی ٹریننگ دی گئی ہے۔ رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے والے 10 سے 50 سال تک کی عمر کے یہ تربیت یافتہ اسکائوٹس شہر بھر کی امام بارگاہوں کے اطراف، مجالس کے مقامات اور جلوسوں کے روٹس پر سیکورٹی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ یکم محرم سے یوم عاشور تک انہیں آرام کا کم ہی موقع ملتا ہے۔ واضح رہے کہ 2010ء میں یوم عاشور پر ہونے والے بم دھماکے سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات میں کئی اسکائوٹس بھی جاں بحق اور معذور ہوچکے ہیں۔ تاہم خطرات کے باوجود وہ نہایت بے خوفی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں اسکاؤٹس کی تعداد 25 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ اسکائوٹس کی بیشتر تنظیمیں شیعہ کمیونٹی کی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عموماً جلوسوں کے شرکا اور مجالس میں آنے والے افراد سیکورٹی کے معاملات میں سرکاری اہلکاروں سے تعاون نہیں کرتے، تاہم رضاکاروں اور اسکائوٹس کی جانب سے جامہ تلاشی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ لہذا حساس مقامات پر سیکورٹی ایک حصار اسکائوٹس کا ہوتا ہے۔ ذرائع کے بقول سیکورٹی اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ کیونکہ کہیں بھی دہشت گردی کی کارروائی کی صورت میں تمام ذمہ داری سیکورٹی اداروں پر ہی آتی ہے۔ لہذا سرکاری سیکورٹی اہلکار عاشورہ والے روز مرکزی جلوس کیلئے اسکائوٹس کے بعد سیکورٹی کے چار سے پانچ سرکل بناتے ہیں۔ دوسری جانب شیعہ برادری کی جانب سے بھی حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ امام بارگاہ کی انتظامیہ الگ ہوتی ہے۔ ماتمی جلوسوں کو کور کرنے والے ذمہ دار الگ ہوتے ہیں۔ رینجرز اور پولیس کے اہلکار امام بارگاہوں اور مجالس کے پنڈال میں نہیں جاتے، وہاں شیعہ تنظیموں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ امام بارگاہ کے اطراف پوسٹیں بنا کر یا موبائل کھڑی کرکے رینجرز اور پولیس والے سیکورٹی دیتے ہیں۔ جبکہ اندرونی حصے میں رضاکار، اسکائوٹس اور نجی سیکورٹی گارڈ ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق محرم میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد مختلف تنظیموں کے اسکائوٹس کو ٹریننگ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور اب سات ہزار سے زائد تربیت یافتہ اسکائوٹس خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں بوتراب اسکاؤٹ، امامیہ اسکاؤٹ، حسینی اسکاؤٹ، عباس عملدار اسکاؤٹ، پاک سادات اسکاؤٹ، کرار اسکاؤٹ، کاظم اسکاؤٹ سمیت تقریباً ساٹھ تنظیموں کے رضاکار شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق سندھ کے شہروں شکارپور، سیوھن، نواب شاہ، جیکب آباد، گھوٹکی، حیدرآباد، سکھر اور خیرپور سمیت دیگر شہروں میں بھی محرم الحرام میں سیکورٹی کے مسائل تھے، کیونکہ سندھ کے بڑے شہروں میں شیعہ برادری کے پروگرامز پر خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ لہذا وہاں کی اسکائوٹس تنظیموں کے رضاکاروں کو کراچی میں تربیت دی گئی۔ دس سال قبل تک کراچی میں اسکاؤٹس کی تعداد دو ہزار تھی، جو اب 7 ہزار سے تجاویز کرچکی ہے۔ مجموعی طور پر سندھ بھر میں 25 ہزار اسکاؤٹس محرم الحرام میں سیکورٹی ڈیوٹی کررہے ہیں۔ شیعہ اسکائوٹس تنظیموں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اسکاؤٹس کو مشکل صورتحال کو سنبھالنے اور دہشت گردی سے بچاؤ کی تربیت دی جاتی ہے۔ نمائش چورنگی پر موجود بوتراب اسکاؤٹس کے ذمہ دار علی اصغر کا کہنا تھا کہ اسکاؤٹ تنظیم میں 10 سال سے 70 سال تک کے لوگ شامل ہیں۔ طلبا و طالبات سمیت فیکٹریوں اور دفاتر میں کام کرنے والے افراد رضاکارانہ طور پر اسکائوٹس کی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ سیکورٹی اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہر اسکاؤٹ تنظیم کا ڈریس الگ رنگ اور ڈائزائن کا ہوتا ہے۔ انہیں ٹریفک کنٹرول کرکنے اور پارکنگ کرانے کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے۔ جبکہ کسی حادثے کی صورت میں یہ زخمیوں کو فوری طبی امداد بھی فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہزاروں افراد کے درمیان موجود خودکش بمبار کو شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن مخصوص علامات دیکھ کر ایک تربیت یافتہ اسکائوٹ اس کو نہ صرف شناخت کرسکتا ہے بلکہ محفوظ طریقے سے قابو بھی کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکاؤٹ واک تھرو گیٹ اور میٹل ڈی ٹیکٹر کا استعمال بھی جانتے ہیں۔ انہیں جامہ تلاشی لینے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ خواتین اسکاؤٹس عورتوں اور بچیوں کو چیک کرتی ہیں۔ حسینی اسکاؤٹ کے ذمہ دار باقر علی کا کہنا تھا کہ اسکائوٹس کو میٹیل ڈی ٹیکٹر، بم ڈیٹکٹر اور دیگر آلات دیئے جاتے ہیں۔ امامیہ اسکاؤٹس کے ذمہ دار جعفر علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ محرم الحرام کے علاوہ سال بھر ہونے والے مذہبی پروگراموں کی سیکورٹی کیلئے امام بارگاہوں کی انتظامیہ کی جانب سے اسکائوٹس کو بلوایا جاتا ہے، جو مجالس اور ماتمی جلوسوں کو سیکورٹی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم محرم الحرام شروع ہوتے ہی اسکائوٹس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور انہیں کھانے پینے تک کا ہوش نہیں ہوتا ہے۔ العباسی اسکاؤٹس کے ذمہ دار کاظم علی نے بتایا کہ اکثر اسکاؤٹس کی وجہ سے دہشت گردوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ اینٹی دہشت گردی کے علامت بن چکے ہیں۔ بھوکے پیاسے دن رات کام کرتے ہیں۔ سیکورٹی ادارے ان کے اطراف الرٹ رہتے ہیں اور ان کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں کہ یہ کسی حوالے سے انفارم کریں تو وہ کارروائیں کریں۔ اہل تشیع خاتون سکینہ نے بتایا کہ ان کے تین بچے اسکاؤٹ تنظیم میں ہیں۔ ان کو کسی حوصلہ افزائی یا تمغے کی ضرورت نہیں۔ بس یہ کوشش ہوتی ہے کہ محرم امن و امان سے گزر جائے۔
٭٭٭٭٭