یورپ میں تاریخ کے بدترین قحط کا اندیشہ

احمد نجیب زادے
برطانوی اور بلجیم میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ شمالی اور وسطی علاقوں سمیت بیشتر یورپی ممالک کو اپنی تاریخ کے بد ترین قحط کا سامنا ہے اور فصلوں کی کم ہوتی مقدار، اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سمیت گھاس نہ اُگنے کے سبب مویشی فارمنگ کی مشکلات نے یورپی یونین کے کان کھڑے کردیئے ہیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس کے مطابق ایک اعلیٰ سطح کے یورپی مشن ’’جوائنٹ ریسرچ سینٹر‘‘ اور ’’یورپین ڈرائوٹ آبزرویٹری‘‘ نے کہا ہے کہ خشک سالی سے اسکینڈے نیویا، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ سمیت بالٹک اور جرمنی میں صورت حال تیزی سے خراب ہورہی ہے۔ دونوں یورپی مشن نے اپنی سفارشات میں یونین کے ممالک کو قحط کے منفی اثرات سے فوری بچائو کے ٹھوس اقدامات کی سفارش کردی ہے۔ بلجیم حکام کا ماننا ہے کہ امسال قحط اور خشک سالی کے سبب ملک بھر میں اُگنے والے آلوؤں کی فصل 35 فیصد کم ہوئی ہے، جبکہ آلو کا سائز نصف ہوچکا ہے جس کی وجہ سے بلجیم سوسائٹی میں شوق سے تناول کئے جانے والے آلو چپس کی لمبائی میں ایک انچ تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس کا ایک بڑا سبب موسمیاتی تبدیلیاں بتائی جاتی ہیں، کیونکہ شمالی یورپ کے تمام ممالک میں 100 سالہ گرمی اور بلند درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے اور ابھی تک اس درجہ حرارت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے تصدیق کی ہے کہ خشک سالی کے نتیجہ میں سوئیڈن سمیت متعدد ممالک میں جنگلات اور چراگاہوں میں آگ لگنے کے 50 واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں ایکڑ کے رقبہ پر جنگلات اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ خشک سالی اور بتدریج قدم بڑھاتے قحط کے سبب برطانوی سوسائٹی میں فروخت ہونے والے آلو چپس کی لمبائی میں بھی تین سینٹی میٹر تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو اگرچہ کہ اچنبھے کی بات ہے لیکن قحط کی کھلی نشانی بھی ہے۔ عالمی جریدے اسٹریٹس ٹائمز نے ایک چشم کشا رپورٹ میں یورپی یونین کے ممالک میں بڑھتی خشک سالی کا اعتراف کیا ہے اور بتایا ہے کہ شمالی یورپ کی ہزاروں چراگاہیں پانی کی کمی اور گھاس کی کم پیداوار کے سبب ویرانی کا منظر پیش کررہی ہیں جہاں سوکھی گھاس تو دکھائی دے جاتی ہے لیکن ہری گھاس اور نئی فصلیں شاذ و نادر ہی میسر آرہی ہیں، جس کی وجہ سے مقامی کسان اور مویشی فارمنگ سے وابستہ افراد انتہائی پریشان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں خشک سالی کے سبب فصلیں ایک تہائی کم پیدا ہوئی ہیں اور اس منظر نامہ سے کسان شدید پریشان ہیں۔ یورپی یونین کے جو ممالک قحط اور خشک سالی کا براہ راست نشانہ ہیں ان میں ہالینڈ، پولینڈ، بیلاروس، جمہوریہ چیک، بلجیم، ڈنمارک، سوئیڈن ، ایسٹونیا، فن لینڈ، آئرلینڈ، لٹویا، لتھوانیا، ناروے اور برطانیہ شامل ہیں۔ فرانسیسی جریدے دی لوکل نے انکشاف کیا ہے کہ شمالی یورپی ممالک کے بیشتر کسانوں اورمویشی بانوں نے اپنے لاکھوں جانوروں کو گھاس کی کمی اور غذائی قلت کے سبب مذبح خانوں میں بھیج دیا ہے، لیکن ماحولیاتی ماہرین کا استدلال ہے کہ جانوروں کو فروخت کرکے گوشت بیچنا مالی نقصان سے بچائو کا ایک طریقہ کار ضرورہے لیکن اس سے قحط کی صورت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے جو آگے چل کر مویشیوں سے ملنے والے اون، چمڑے اور دودھ کی کمی کا سبب بنے گا۔ سوئیڈن کے چیف اکانومسٹ برائے سویڈش بورڈ آر ایگری کلچر نے قحط کی صورت حال کی تصدیق کی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امسال سردیوں میں مویشیوں کو کھلانے کیلئے ہمارے پاس کسی قسم کا چارہ (خشک یا گیلی گھاس) نہیں ہوگا، جبکہ انسانوں کے استعمال کیلئے اُگائی جانے والی فصلوں کی 35 فیصد مقدار کم ہوچکی ہے۔ برطانوی جریدے گارجین نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یورپی ممالک کے وہ کسان جو ہر سال فصلوں کی کاشت کیلئے بینکوں سے قرضہ لیا کرتے تھے، اب قحط اور خشک سالی کے سبب اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے پریشان ہیں کیوں کہ ان کو نفع کے بجائے فصلوں کی کمی سے نقصان ہو رہا ہے۔ سویڈش جریدے افتون بلادت نے انکشاف کیا ہے کہ خشک سالی اور بڑھتے درجہ حرارت کے باعث سوئیڈن، لٹویا، لتھوانیا اور ڈنمارک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، کیونکہ وسطی اور شمالی یورپی ممالک میں 12 فیصد سے 56 فیصد تک بارشیں کم ہوئی ہیں جس سے خشک سالی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ سویڈش فارمرز ایسوسی ایشن کے ایک سرکردہ رکن اورکسان لینارٹ نیلسن نے بتایا ہے کہ ان کی 65 سالہ زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ قحط شدید تر صورت حال اختیار کرچکا ہے، جس سے قومی خزانہ کو زراعت اور لائیو اسٹاک کی مد میں 8 ارب کرونا (سویڈش کرنسی) کا نقصان ہوچکا ہے، جبکہ مختلف فصلوں کی پیداوار میں 50 فیصد تک کی کمی ریکارڈ کی جاچکی ہے اور شمالی یورپی ممالک میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ جرمنی، سویڈن، ڈنمارک، ہالینڈ اور اسکینڈے نیویا میں مویشیوں کا چارہ 60 فیصد اور پولینڈ، بیلاروس، جمہوریہ چیک، بلجیم، ایسٹونیا، فن لینڈ، آئر لینڈ، لٹویا، لتھوانیا، ناروے اور برطانیہ میں 25 سے 40 فیصد چارہ کم پیدا ہوا ہے، جس سے دودھ کی پیداوار میں کمی ظاہر ہوئی ہے۔ جبکہ چارہ کی قیمتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment