امت رپورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں پر سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے دلائل اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے جوابی دلائل مکمل ہوگئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تقریباً دو بجے دوپہر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جو تین بجے سنایاگیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزائوں کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے تینوں ملزمان کو پانچ، پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ ان مجرموں کی سزا معطل ہوئی ہے، سزا ختم نہیں کی گئی یا معاف نہیں کی گئی ہے۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ تینوں ملزمان کی اپیلوں پر حتمی فیصلے تک احتساب عدالت کا حکم معطل رہے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف، مریم اور صفدر کے ضمانتیوں کو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر، سینیٹر آصف کرمانی اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے تینوں کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے روبکار جاری ہوا اور ن لیگی رہنما روبکار لے کر اڈیالہ جیل کی طرف دوڑے تاکہ اڈیالہ جیل کے حکام تک عدالتی حکم نامہ پہنچے اور رہائی کا پروانہ ملتے ہی نوازشریف اور مریم و صفدر کو رہا کردیا جائے۔ لیگی ذرائع کے مطابق جیل حکام نے بتایا کہ عدالت کی کارروائی اور فیصلے کے ٹی وی پر نشر ہوتے ہی نواز شریف، کیپٹن صفدر اور مریم نواز کا سامان پیک کیا جانے لگا اور روبکار کا انتظار کیا جانے لگا جسے لے کر طارق فضل، آصف کرمانی چوہدری تنویر اور بیرسٹر ظفر اللہ اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے جاری ہونے والے اس فیصلے کی بازگشت کئی دنوں سے اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں سنی جارہی تھی۔ دوسری جانب تحریک انصاف بھی یہ نہیں چاہتی تھی کہ نواز شریف اور مریم نواز جیل میں رہ کر سیاسی طور پر زیادہ مقبول ہوجائیں۔ اس لیے ان کوجیل سے رہا کرنے کی کوششوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ لیکن تحریک انصاف کا نواز شریف کی رہائی کے فیصلے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ نوازشریف کی رہائی عدالت کے ذریعے ہی عمل میں آئے گی اور اس کے بعد میاں نواز شریف اور مریم نواز لندن منتقل ہوسکتے ہیں۔ نواز شریف فطری طور پر مصالحت پسند انسان ہیں لیکن مریم نواز ہارڈ لائنر ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کی رہائی اس وقت عمل میںآئی جب وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب اور عرب امارات کے دورے پر ہیں۔ ن لیگی اور دیگر سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی رہائی میں کسی بھی دوست ملک کا کوئی کردار نہیں ہے۔ آصف علی زرداری کو کائونٹر کرنے کیلئے نوازشریف کو جیل سے باہر لانا پڑا ہے۔ لیکن میاں نواز شریف رہائی کے باوجود ملک سے کہیں باہر نہیں جاسکیں گے۔ مگر وہ اپنے لوگوں سے ملاقات ضرور کرسکتے ہیں ان انہیں اپنی سیاسی سرگرمی اپنے ہی خرچ پر کرنا پڑے گی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ میاں نوازشریف کو لندن جانے دیا جاتا ہے یا نہیں؟ نواز لیگ کے بانی رہنما کی رہائی اس لئے بھی اہم ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ بدھ کو میاں نوازشریف اور مریم کی رہائی کا فیصلہ متوقع ہے، لیگی رہنما عدالت کے باہر 250 سے زیادہ لوگوں کو جمع نہیں کرسکے۔ نیب نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی اور سپریم کورٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ بعض ماہرین قانون کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ نیب کی جانب سے عدالت میں کمزور دلائل پیش کیے گئے ہیں، جس کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی کیلئے بارگین ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں نیب عدالت نے سزا دی تھی، جس کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 11 اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 جبکہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فیصلے میں نوازشریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو ضبط کرنے کا بھی حکم دیا، جبکہ عدالت نے کیپٹن (ر) صفدر پرکوئی جرمانہ عائد نہیں کیا۔ سابق وزیراعظم ان کی صاحبزادی مریم نواز اور صفدر اڈیالہ جیل میں قید تھے اور ان سے ملاقات کیلئے جمعرات کا دن مختص کیا گیا تھا جس دن ان کے اہل خانہ، قریبی ساتھی اور پارٹی کے دیگر رہنما ملاقات کرتے تھے۔ لیکن بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو پیرول پر رہائی دی گئی تھی۔ اس وقت بھی یہ امکان تھا کہ پیرول کی مدت میں اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن کہا گیا کہ میاں نوازشریف نے مدت میں اضافے کی پیش کش مستردکردی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ صرف ایک یا دو دن میں عدالت سے ان کے حق میں فیصلہ آجائے گا اور وہ اپنی کسی درخواست کے نتیجے میں رہا نہیں ہوں گے بلکہ ان کی رہائی عدالتی حکم پر عمل میں آئے گی اور یہی ہوا۔
٭٭٭٭٭