حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
علی گڑھ میں دوران حصول تعلیم چند واقعات گزرے، جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ سر سید احمد خان نے مدارس عربیہ کی اصلاح کیلئے مولانا لطف اللہ صاحبؒ سے کہا کہ اس کا امتحان سالانہ ہوا کرے۔ مولانا لطف اللہ نے اس سلسلے میں پریشانی کا اظہار کیا تو حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، ہم ہر قسم کے تقریری و تحریری امتحان کے لئے بالکل تیار ہیں۔
آپ کے ان الفاظ نے مولانا لطف اللہ کو ڈھارس بندھائی اور طلبا کا سالانہ امتحان دلوانا منظور کرلیا۔ سرسید احمد خاں نے اس سلسلے میں یورپ سے ماہر استاد کو امتحان لینے کے لئے بلوایا۔ مولانا لطف اللہ نے امتحان سے ایک دن پہلے خود طلبا کا امتحان لینے کا ارادہ کیا اور طلبا کو اقلیدس کا پرچہ حل کرنے کودیا۔
حضرت صاحبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اقلیدس کی شکل مسئولہ کا پہلے جواب تحریر کیا، جو اقلیدس میں دیا ہوا ہے۔ پھر اس پر اپنی طرف سے شکلیں اور اعتراضات کیے اور شکل مسئولہ پر اپنا حل تحریر کیا۔ مولانا نے میرے جوابات کو از حد پسند کیا اور انہیں ایک لفافہ بند کر کے ممتحن کے پاس بھیج دیا۔
اگلے روز تمام طلبا ممتحن کے انتظار میں بیٹے رہے، مگر کافی دیر تک ان کی آمد نہ ہوئی۔ اس کی اطلاع سر سید احمد خان کو دی گئی، مگر انہوں نے جواب دیا کہ ممتحن تو رات کو ہی چلے گئے تھے اور یہ کہہ کر گئے تھے کہ جو طلبا اقلیدس پر اعتراض کرسکتے ہیں، مجھ میں ان کا امتحان لینے کا حوصلہ اور لیاقت نہیں، بلکہ اس طرح میری بھی بے عزتی ہوسکتی ہے۔
ممتحن کے ان الفاظ کو سن کر مولانا لطف اللہ صاحب بڑے خوش ہوئے اور مجھے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا کہ صرف تمہاری وجہ سے ہمارا مدرسہ بچ گیا ہے، ورنہ اگر تم لوگ ناکام رہتے تو سرسید احمد خاں کا ارادہ اس کو ختم کرنے کا تھا۔
علی گڑھ میں داخل ہوتے ہی حضرت پیر فضل دین
صاحب نے آپ کا ماہوار وظیفہ ساٹھ روپے مقرر کردیا تھا۔ یہ رقم آپ کو ہر ماہ باقاعدگی سے ملتی تھی، مگر حضرت صاحبؒ اپنی رقم نادار طلبا میں تقسیم کردیا کرتے تھے، اسی لئے اکثر آپ روزے سے ہوتے۔
علی گڑھ میں آپ کی کچھ شہرت ہوگئی تھی، اساتذہ کرام اور طلبا سب ہی آپ کی ذہانت اور نکتہ رسی کے قائل اور معترف تھے۔ طلبا کی دلچسپی دیکھتے ہوئے حضرت صاحب نے یہاں بھی انگہ کی طرح ایک درس کا اہتمام کیا۔ انہی ایام میں وہاں ایک پٹھان طالب علم محمد محمود بھی اپنی قابلیت اور لیاقت کے لئے مشہور تھا۔ کچھ طلبا کو یہ درس بھی دیا کرتا تھا۔
لیکن جب حضرت صاحبؒ نے درس دینا شروع کیا تو جوق در جوق طلبا نے آپ کی طرف رخ کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ محمود کے پاس محض ایک طالب علم باقی رہ گیا۔ اس کو محمود نے یہ دھمکی دی کہ اگر تم مجھے چھوڑ کر پیر صاحب کے پاس درس لینے جاؤ گے تو تمہاری خیر نہیں ہے۔
یہ طالب علم آپ کے پاس حاضر ہوا اور اپنی پریشانی بتلائی کہ میں آپ سے درس لینا چاہتا ہوں، مگر مجھے محمود سے خطرہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم بے فکر ہو کر درس میں آؤ۔ حق تعالیٰ نے چاہا تو تمہاری حفاظت بھی کی جائے گی۔ کچھ دنوں کے بعد ایک رات محمود نے مسجد کے اندر کی کنڈی چڑھائی اور اس طالب علم کے سینہ پر سوار ہر کر اس کو قتل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ شور سن کر آپ بڑی مشکل سے اندر آئے اور اس کو طالب علم کے سینے سے اتار کر نیچے پھینک کر اس کے سینہ پر سوار ہوگئے۔ اس نے جب آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کی قسم دی تو اس کو معاف کر دیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment