نوسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا انجام

حضرت دائود بن اسدؒ، بنو سلامہ کے ایک آزاد کردہ غلام سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا کہ ہم نہرین کے مقام پر اپنی زمین میں تھے، رات ہو گئی تو ہم کچھ افراد بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے، ہم نے کہا کہ جس نے بھی حضرت حسینؓ کے قتل میں مدد کی، دنیا ہی میں حق تعالیٰ نے اس کو مصیبت میں مبتلا کیا، ہمارے ساتھ بنوطے کا ایک آدمی بھی تھا، اس نے کہا کہ میں تو حسینؓ کے قتل میں مدد کرنے والوں میں شامل تھا، مگر مجھے تو ہمیشہ نعمت نصیب ہوئی۔ اس دوران چراغ بجھ گیا تو بنوطے کا وہ آدمی اس کو صحیح کرنے گیا، صحیح کر ہی رہا تھا کہ اس کے کپڑے کے دامن میں آگ لگ گئی، وہ نہر فرات کی طرف بھاگا اور پانی میں کود پڑا، ہم بھی اس کے پیچھے بھاگے تو ہم نے دیکھا کہ جب وہ پانی میں ڈوب جاتا ہے، آگ اس سے جدا ہو جاتی ہے اور پھر جیسے ہی وہ پانی کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے، آگ اس کی طرف لپک پڑتی ہے، یہاں تک کہ آگ نے اس کو ہلاک کر دیا۔ (تاریخ مدینۃ دمشق 233-232/14)
حضرت سفیانؒ نقل کرتے ہیں کہ قبیلہ جعفی کے دو آدمی حضرت حسینؓ کے قتل میں شریک ہوئے۔ ان میں سے ایک کا نازک عضو اتنا لمبا ہوگیا کہ چلتے وقت اس کو لپیٹ کر چلنا پڑتا اور دوسرا بڑی مشک میں منہ ڈال کر آخری قطرہ تک سارا پانی پی جاتا (مگر سیرابی نہ ہوتی) سفیانؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ان میں سے ایک کے لڑکے کو دیکھا ہے کہ وہ پاگل ہو چکا تھا۔ (تاریخ مدینۃ دمشق 230-234/14)
علقمہ بن وائلؒ کہتے ہیں کہ میرا چشم دید واقعہ ہے کہ ایک آدمی ایک دفعہ کچھ لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر کہنے لگا کہ تم میں حسینؓ موجود ہیں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہیں۔ اس نے کہا: (اے حسین) جہنم کی بشارت لے لو (العیاذباللہ) حضرت حسینؓ نے فرمایا: تم رحمت والے رب اور سفارش کرنے والے نبیؐ کی بشارت لو۔ تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں حزیرہ ہوں۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا: خدا اس کو جہنم میں پیشانی سے پکڑ کر دھکیلے۔ اتنے میں اس آدمی کی سواری بد کی تو اس کا پاؤں پالان میں پھنس گیا، سو سواری پر اس کے پاؤں کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ (بغیۃ الطلب لابن العدیم 2641/6)
ابو رجاء بیان کرتے ہیں کہ بلہجیم کا ہمارا ایک پڑوسی کوفہ سے آیا اور حضرت حسین بن علیؓ کے بارے میں نازیبا کلمات کہنے لگا۔ اسی وقت خدا نے اس کی دونوں آنکھوں پر دو تارے پھینکے، جس سے اس کی آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی۔ خدا اس پر لعنت کرے۔
(تاریخ مدینۃ دمشق 332/14 سیر اعلام النبلاء 313/3 بغیۃ الطلب لابن العدیم 2642/6)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment