نمائندہ امت
باوثوق ذرائع کے مطابق گزشتہ روز چین کے سفیر سے ملاقات میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی علمائے کرام کے ایک وفد کو چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے، سنکیانگ کے مسلمانوں پر عائد بے جا پابندیاں ختم کی جائیں اور ان کو عبادات آزادی سے کرنے کی اجازت دی جائے۔ ذرائع کے بقول اس کے جواب میں چین کے سفیر مسٹر یاؤ جنگ نے کہا کہ سنکیانگ میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ سوچ کے خاتمے کیلئے حکومت چین نے بعض اقدامات کئے ہیں اور یہ ایسے اقدامات ہیں جو اکثر ممالک اپنے مخصوص علاقوں میں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کی حکومت معتدل سوچ کے حامل مذہبی طبقات اور صوفی ازم کے حامی طبقات کی معاونت کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ معاشرے میں اعتدال پسندی فروغ پائے۔ ذرائع کے مطابق چین کے سفیر نے وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری کو دورہ چین کی دعوت دی، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبہ سنکیانگ میں مسلم یوغور آبادی اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے جو الزامات سامنے آرہے ہیں، ان کی حقیقت کو جانچنے اور حالات کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان کے علما کے ایک وفد کو سنکیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس پر چین کے سفیر نے مثبت رائے کا اظہار کیا، لیکن کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی۔ البتہ وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری نے دورہ چین کی دعوت قبول کرلی، امید ہے کہ جب بھی ان کا دورہ چین فائنل ہوا، وہ سنکیانگ بھی جائیں گے۔
واضح رہے کہ چین کے سفیر مسٹر یاؤجنگ نے گزشتہ روز پیر نور الحق قادری سے ان کے آفس میں ملاقات کی تھی۔ جس کا مقصد سی پیک کے حوالے سے بعض ایشوز پر ہم آہنگی پیدا کرنا اور سابق فاٹا، جو اب صوبہ خیبرپختون کا حصہ ہے، وہاں سماجی اصلاحات کیلئے باہمی تعاون کے امور پر بات چیت کرنا تھا۔ اس ملاقات میں پیر نور الحق قادری نے کہا کہ پاک چین دوستی سیاست سے بالاتر ہے اور اس کی جڑیں اب دونوں ممالک کے عوام میں ہیں، جو کافی گہری ہیں، سی پیک پاکستان کیلئے قومی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔ ذرائع کے مطابق گفتگو کے دوران وزیر مذہبی امور نے سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے بارے میں آنے والی اطلاعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے چینی سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوغور مسلمانوں پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جائے اور ان کو مذہبی آزادی دی جانی چاہئے۔ کیونکہ سخت بندشوں اور پابندیوں کی وجہ سے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے اور پھر اس کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے دونوں ممالک کے مذہبی علما کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اسی سلسلے میں پاکستان کے علما کا ایک وفد سنکیانگ بھیجنے کی تجویز دی۔ ذرائع کے مطابق چین کے سفیر نے علمائے کرام کے درمیان تبادلہ خیال کو ضروری قرار دیا اور اس کی اہمیت بھی محسوس کی، اب وہ ان تجاویز پر اپنی حکومت سے بات چیت کریں گے۔
چین کے جنوب مغربی صوبے سنکیانگ میں تقریباً دو کروڑ مسلمان بستے ہیں، جن میں اکثریت یوغور مسلم قبیلے کی ہے، جو اس صوبے کی آبادی کا تقریباً 45 فیصد ہیں۔ ان کو مذہبی اجتماعات کے انعقاد سے پہلے اجازت لینا ضروری ہے، جو بہت مشکل سے ملتی ہے۔ وہ اپنے گھروں میں رہ کر بھی کسی مذہبی مسئلے پر مشاورت نہیں کرسکتے۔ کوئی مذہبی سرگرمی، عبادت یا تبلیغ براہ راست نشر نہیں ہوسکتی۔ اکثر مساجد بند ہیں اور کئی مساجد پر سرکاری پرچم لہرا رہا ہے۔ بعض اداروں کے مسلمان ملازمین پر رمضان المبارک میں روزے رکھنے پر بھی پابندی ہے۔
سنکیانگ کی صورتحال کے حوالے سے اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کیلئے قائم کمیٹی کی گزشتہ ماہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 10 لاکھ سے زائد یوغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے افراد سنکیانگ کے حراستی کیمپوں میں محصور ہیں۔ ان کو مذہب تبدیل کرنے اور اسلام میں حرام قرار دی گئی خوراک کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور تواتر سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چنگ نے گزشتہ ہفتے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ رپورٹ بے بنیاد اطلاعات اور معلومات پر مبنی ہے۔ ہم اس صوبے میں انتہا پسندی کو روکنے کیلئے ایسے ہی اقدامات کررہے ہیں یا کئے ہیں، جس طرح کئی دیگر ممالک نے بھی کئے ہیں۔ ترجمان نے ان اقدامات کی وضاحت نہیں کی، لیکن اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سنکیانگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی رپورٹ میں دی گئی اطلاعات کافی حد تک درست ہیں، جن کی ملفوف انداز میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے تصدیق کی ہے۔
وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کے قریبی ذرائع کے مطابق یوغور مسلمانوں کی بھاری اکثریت سنی العقیدہ ہے، ان کی بدترین حالت زار کا پیر نورالحق کو بخوبی علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حساس اور اہم ایشو کو انہوں نے چین کے سفیر کے سامنے اٹھایا۔ ذرائع کے مطابق اگر دورہ چین میں انہیں سنکیانگ جانے کی اجازت ملی تو وہ علما کا ایک وفد بھی ہمراہ لے جائیں گے اور وہاں کے علما سے بھی تبادلہ خیال کرکے صوبے میں مذہبی معاملات کو اعتدال پر لانے کی کوشش کریں گے۔ اس سلسلے میں پہلے وہ چین کی حکومت اور وزارت خارجہ پاکستان کا بھی اعتماد حاصل کریں گے۔
٭٭٭٭٭