سعودیہ کے مقابلے میں ترکی سنیوں کا عالمی ترجمان بننے لگا

عارف انجم
شام اور عراق میں ترکی کی پیش قدمی تاحال انہی علاقوں تک محدود ہے، جن کا ذکر عثمانی پارلیمنٹ کے منظور کردہ ’’میثاق ملی‘‘ میں کیا گیا تھا۔ اگرچہ ترکی کے مخالفین دعویٰ کرتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے تمام سابق حصوں تک رسائی کیلئے اردگان حکومت شام پر مکمل تسلط چاہتی ہے اور اسی مقصد کیلئے اس نے 2011ء میں شامی صدر بشارالاسد کو تجویز دی تھی کہ وہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے وزرا کو اپنی کابینہ میں شامل کریں۔ جب یہ تجویز نہیں مانی گئی تو اردگان حکومت بشارالاسد کی دشمن ہوگئی۔ تاہم زمینی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی کی دلچسپی اس وقت شامی صدر کا تختہ الٹنے میں نہیں، بلکہ سعودی عرب میں ہے۔ شامی صدرکے خلاف زیادہ آگے نہ جانے کا سبب ترکی کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، جو صدر بشارالاسد کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکی دبائو کا مقابلہ کرنے کیلئے ترکی کو ماسکو سے بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ترکی ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کی پالیسی پر چل رہا ہے اور ایران بھی بشارالاسد کا حامی ہے۔ لہٰذا اس وقت اردگان حکومت کا واضح غیر ملکی مخالف سعودی عرب دکھائی دیتا ہے، جس کے ساتھ انقرہ کے تعلقات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (جو عملاً تمام تر امور مملکت چلا رہے ہیں) نے رواں برس مارچ میں الزام عائد کیا کہ ایران اور مصر کے اسلامی گروپوں کے ساتھ مل کر صدر اردگان نے ’’برائی کی تکون‘‘ بنالی ہے۔ شہزاد محمد بن سلمان نے کھل کر کہہ دیا کہ اردگان سلطنت عثمانیہ کے احیا کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ترک عزائم پر سعودی ولی عہد کی تشویش کا ایک بڑا سبب قطر اور اردگان حکومت کا ایکا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی خلیجی ممالک نے قطر کی اقتصادی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ جبکہ ترکی نے قطر کے تحفظ کیلئے وہاں اپنی فوج تعینات کر دی ہے۔ ترک فوجیوں کی قطر میں تعیناتی کا معاہدہ 2015ء میں ہوا تھا۔ تاہم اقتصادی ناکہ بندی شروع ہونے کے بعد ترکی نے اپنے اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ قطر کی ناکہ بندی کرنے والے خلیجی ممالک نے گزشتہ برس ستمبر میں مطالبات کی ایک فہرست حکومت دوحہ کے حوالے کی تھی۔ اس میں ایک مطالبہ قطر سے ترک افواج کو نکالنے کا ہے۔ لیکن اردگان نے یہ مطالبہ سختی سے مستردکر دیا۔ سوڈان سے سواکن بندرگاہ کے حصول، صومالیہ میں فوجی اڈے کے قیام اور قطر میں فوجی تعیناتی کے ذریعے ترکی نے اس وقت سعودی عرب کے تین اطراف اپنی موجودگی یقینی بنالی ہے۔ تاہم سعودی عرب اور ترکی کی کش مکش کا فیصلہ فوجی میدان جنگ میں نہیں، بلکہ سفارتی، ثقافتی اور مذہبی محاذوں پر ہونا ہے اور ان تینوں محاذوں پر ترکی کی یلغار تیز تر ہو رہی ہے۔ ثقافتی میدان میں ترکی کے سلطنت عثمانیہ سے متعلق ڈراموں اور بیانیے نے اپنا کردار ادا کیا۔ جس کے جواب میں سعودیہ کو ان پر پابندی لگانا پڑی۔ سفارتی سطح پر روس اور ایران کو ہم نوا بنا کر انقرہ حکومت آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن سب سے اہم میدان مذہب کا ہے۔
اسلامی دنیا میں سعودی عرب کو اب تک غیر معمولی اہمیت اہل تشیع ایران کے مقابلے میں سنیوں کے ترجمان کے طور پر رہی ہے۔ سعودی حکمران خود کو خادم حرمین شریفین کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ سعودی عرب کو اب تک سنی دنیا میں قائدانہ کردار حاصل ہے۔ ترک حکومت تیزی سے یہ اعزاز سعودی عرب سے چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد موصل سمیت کئی شہر فرقہ واریت کا نشانہ بنے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موصل پر داعش کے قبضے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ شیعہ ملیشیا فورسز سے تنگ شہر کی سنی آبادی نے داعش کی حمایت کی۔ تاہم داعش کا دہشت گرد چہرہ جلد ہی سامنے آگیا۔ اس کے بعد 2016ء میں موصل کو داعش سے چھڑایا گیا۔ اس موقع پر رجب طیب اردگان نے کہا کہ موصل میں صرف سنی عربوں، ترکمانوں اور سنی کردوں کو رہنا چاہیے۔ شیعہ ملیشیا کو داخلے سے روکا جائے۔ ان کے اس بیان پر بغداد کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔ تاہم قطر کے الجزیرہ ٹی وی کے مطابق اردگان کے اس مطالبے کے پیچھے یہ خدشات تھے کہ اگر عراقی افواج کے ساتھ شیعہ ملیشیا فورسز موصل میں داخل ہوئیں تو وہ سنیوں کو وہاں سے نکال دیں گی۔ سنیوں کے حقوق کیلئے اس طرز کے مطالبات کے باوجود اردگان پر مسلکی تعصب یا فرقہ واریت کا الزام عائد کرنا اس لیے مشکل ہے کہ وہ عراق میں ہی ایک نمایاں شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامی ہیں۔ امریکہ کے سخت مخالف کے طور پر پہچانے جانے والے مقتدیٰ الصدر کی جماعت نے مئی 2018ء کے انتخابات میں 54 نشستیں جیتیں تو اردگان نے خود فون کرکے انہیں مبارکباد دی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ حکومت بنائیں۔ ترک صدر کی کامیابی یہی ہے کہ فرقہ واریت کا ٹھپہ لگوائے بغیر انہوں نے عراق کے علاوہ شام میں بھی سنیوں کے حقوق کی بات کی۔ رواں برس اپریل میں او آئی سی کے اجلاس کے دوران عرب اور ایرانی مندوبین کی موجودگی میں انہوں نے شیعہ سنی تقسیم پر سخت تنقید کی۔ اردگان کا کہنا تھا کہ اس تقسیم کی وجہ سے او آئی سی فیصلے نہیں کر پاتی۔ انہوں نے عرب لیگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اردگان کا کہنا تھا کہ ’’ایک طرف آپ اسلامی تعاون کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب عرب لیگ کی۔ یہ عرب لیگ کیا چیز ہے؟ کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں۔ نہ کسی عجمی کو عربی پر برتری حاصل ہے۔ میں ایک ترک ہوں۔ میرا عرب بھائی مجھے الگ سمجھتا ہے۔ اگر ایک ترک بھی ایک عرب کو الگ سمجھے گا تو ہم سب برباد ہو جائیں گے‘‘۔ اردگان نے اس’’غلطی‘‘ کو درست کرنے پر زور دیا۔
اردگان نے شیعہ سنی تقسیم کو ہوا دیئے بغیر سنیوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کیلئے عالمی رہنما کے طور پر سامنے آنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ سنی ممالک میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں اب تک عرب ملکوں بالخصوص سعودی عرب کا زیادہ کردار رہا ہے۔ اردگان نے اس معاملے میں ترکی کو سعودیہ کے متبادل کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ 2002ء سے ترک حکومت بیرون ملک مساجد کی تعمیرکا پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔ فارن افیئرز میگزین کے مطابق اس مقصد کیلئے مذہبی امور کے دفتر ’’دیانت‘‘ کے بجٹ میں بڑا اضافہ کیا گیا۔ 2015ء میں اس دفتر کا بجٹ 5 اعشاریہ 4 ارب لیرا (2 ارب ڈالر) تک پہنچ چکا تھا۔ مساجد کی تعمیر کیلئے بھی ان علاقوں کو ترجیح دی جا رہی ہے، جو ماضی میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے۔ تاہم مسلمان ممالک کے علاوہ غیر مسلم ملکوں میں بھی مساجد کی تعمیر کو اہمیت دی گئی۔ 2016ء میں صدر اردگان نے امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں ایک بڑی مسجد کا افتتاح کیا۔ جس پر 11کروڑ ڈالر لاگت آئی۔ اس سے ایک برس قبل وہ کیوبا گئے تو وہاں کی حکومت سے ہوانا شہر میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت مانگ لی۔ استنبول یونیورسٹی کی پروفیسر عشتر غازی الدین کے مطابق بلقان کے خطے میں ترکی اور سعودیہ کے درمیان مساجد کی تعمیر اور ان میں لوگوں کو لانے کا مقابلہ چلتا رہا۔
سعودی عرب کے مقابلے اور اس کا متبادل بن کر سامنے آنے سے اردگان کو بیشتر عرب دنیا میں اب مخاصمت کا سامنا ہے۔ سنیوں کے دفاع کی ترک پالیسی نے ابتدا میں بعض سعودی شہریوں اور صحافیوں کو بھی متاثر کیا تھا۔ 2016ء میں سعودی عرب کے ممتاز صحافی اور العرب نیوز چینل کے ایڈیٹر ان چیف جمال خاشقجی نے اردگان کا انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو کے حوالے سے سعودی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جمال خاشقجی نے کہاکہ اردگان ایک ایسے پرعزم مسلمان رہنما کے طور پر سامنے آتے ہیں، جو امت مسلمہ کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں۔ خاشقجی کے مطابق جب انہوں نے اردگان سے موصل کے حوالے سے سوال کیا تو اردگان ’’کٹر سنی رہنما‘‘ دکھائی دیئے۔ لیکن یہ 2016ء کی بات تھی۔ عرب لیگ پر اردگان کی تنقید اور قطر کے جھگڑے نے ترک صدر کے حوالے سے عربوں کو محتاط کر دیا ہے۔ عرب لیگ پر اردگان کی تنقید گہرے پس پردہ معنی رکھتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران جب برصغیرکے مسلمان خلافت کو بچانے کیلئے مہم چلا رہے تھے تو یہ عرب ممالک تھے، جنہوں نے خلافت کے مقابلے میں علم بغاوت بلند کر رکھا تھا۔ اسی دور کے واقعات پر ترکی اور متحدہ عرب امارات میں سفارتی تنازعہ سامنے آچکا ہے۔ اپریل 2014ء میں اردگان کی تقریر سے کچھ ماہ پہلے ہی دسمبر 2017ء میں متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ نے مدینہ کیلئے سلطنت عثمانیہ کے آخری فرد فخر الدین پاشا پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے مدینہ میں عربوں کے گھر لوٹے اور قیمتی اشیا ترکی منتقل کردی تھیں۔ یاد رہے کہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کے دوران عرب افواج نے مدینہ کو محاصرے میں لے لیا تھا۔ لیکن فخرالدین پاشا نے باقی خطوں میں سلطنت عثمانیہ کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود مدینہ کا دفاع جاری رکھا تھا۔ فخر الدین پاشا پر تنقید کو اردگان نے شرمناک قرار دیا۔ سلطنت عثمانیہ کے غیر رسمی احیا کیلئے اردگان کی کوششوں نے عربوں اور ترکوں کی اس پرانی عداوت کو جگا دیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ عرب قوم پرستی میں مصر آگے آگے ہے۔ جہاں سڑکوں کے نام تبدیل کر کے عثمانی دور کی یادگاروں کو مٹانے کی مہم جاری ہے۔
لیکن کیا ترکوں کے خلاف عرب قوم پرستی کا سکہ سو برس پہلے کی طرح اب بھی چل سکے گا؟۔ اس سوال کا حتمی جواب فوری طور پر دینا مشکل ہوگا۔ ترکی نے عرب لیگ کے تین ممالک قطر، سوڈان اور صومالیہ میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ سعودی عرب میں نجد کا خطہ کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ نہیں رہا۔ نہ ہی متحدہ عرب امارات میں شامل ریاستیں کبھی عثمانی راج میں آئیں۔ سعودی عرب میں شامل حجاز البتہ عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر شہروں پر مشتمل حجاز ہی وہ مقدس سرزمین ہے، جس کی بدولت سعودی عرب اسلامی دنیا کا رہنما ہے۔ امریکی برینڈائس یونیورسٹی کے کرائون سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹیڈیز نے 2009ء میں ایک ریسرچ شائع کی۔ ڈاکٹر اوندرج بیرانک نے اپنے اس مقالے میں سعودی عرب کے سیاسی ڈھانچے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ سعودی عرب میں سب سے زیادہ علاقائی تنائو نجد اور حجاز کے لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ مکہ اور مدینہ سے تعلق کی بنیاد پر حجاز کے لوگ خود کو برتر سمجھتے ہیں۔ حجازیوں کی کئی مذہبی رسومات کو نجد سے تعلق رکھنے والے علما غلط اور غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اوندرج کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں اقسام کے گروپوں کے درمیان کوئی مضبوط تعاون نہ ہونے اور تیل سے حاصل ہونے والی آمدن کی وجہ سے نجد سے تعلق رکھنے والی سعودی حکومت انہیں بآسانی کنٹرول کر لیتی ہے۔ اور اس بنا پر مستقبل بعید میں بھی سعودی حکومت کے استحکام کو کوئی خطرہ نہیں۔ مختلف عرب قبائل کی آمدن کا انحصار سعودی وزارت داخلہ پر ہے۔ اردگان کے ترکی کیلئے ان حالات میں مشکل ہوگا کہ وہ حجاز کو نجد سے الگ کرنے کا کوئی منصوبہ بناکر اس پر کامیابی سے عمل بھی کر لے۔ لیکن نجد اور حجاز میں دراڑ بہرحال موجود ہے۔ نہ صرف یہ کہ حجازی خود کو نجدی عوام کے مقابلے میں برتر سمجھتے ہیں۔ بلکہ سعودی حکومت کی طرف سے حرمین کی توسیع اور دیگر منصوبوں کیلئے حجازی قبائل کی یادگاروں کو مسمار کیے جانے پر بھی تنائو پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے اختلافات کو بڑھاوا ملا تو ترکی کو ہی فائدہ ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ 2023ء تک سلطنت عثمانیہ کا احیا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اردگان کی بھرپور کوششوں کے باوجود عرب ممالک کے علاوہ امریکہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ فلسطین، شام، عراق اور سعودی عرب پر ترکی کی پالیسیاں براہ راست امریکہ سے متصادم ہیں۔ نو عثمانیت کو محور بنا کر چلائی جانے والی ترک خارجہ پالیسی مشرق وسطیٰ کو ایک نئے میدان جنگ میں تبدیل کر سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment