لاہور میں قدیم ماتمی جلوس کےلئے 10 ہزار سیکورٹی اہلکار تعینات

نجم الحسن عارف
لاہور میں عاشورہ کا سب سے قدیم اور بڑا جلوس رات گئے نثار حویلی سے برآمد ہوکر اپنے روایتی راستوں پر رواں دواں ہے۔ نثار حویلی میں ایک مجلس عزا کے اختتام پر شروع ہونے والا یہ ماتمی جلوس صوبائی دارالحکومت کا مرکزی جلوس کہلاتا ہے۔ جس میں لاہور کے قرب و جوار سے ہزاروں عزادار شریک ہوتے ہیں۔ جلوس کی حفاظت کیلئے دس ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ جبکہ اہل تشیع رضا کاروں اور رینجرز اہلکاروں کی تعیناتی اس کے علاوہ ہے۔ جلوس کی سیکورٹی کے تحت سی سی ٹی کیمروں کا بھی استعمال حالیہ برسوں سے شروع کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے فضائی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ جلوس تاریخی اور قدیمی طور پر اندرون شہر کے اندر گھنٹوں جاری رہتا ہے، جبکہ اس کے راستے میں آنے والی امام بارگاہوں سے اس میں عزاداروں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ جبکہ نئے ماتمین بھی شامل ہوتے رہتے ہیں۔
تاریخی حوالوں کے مطابق نثار حویلی سے یہ جلوس 1925ء کے بعد شروع ہوا۔ اس سے پہلے یہ جلوس مبارک حویلی سے نکلتا تھا اور اس کا روٹ بھی الگ تھا۔ تاہم نواب خاندان میں تنازعات سے جلوس نثار حویلی سے منسوب کر دیا گیا۔ یوم عاشور کے اس مرکزی جلوس کا آغاز قدیمی شیعہ مرکز نثار حویلی سے ہوا ہے اور یہ مبارک حویلی، درگاہ بتول، اندرون شہر میں قائم مختلف شیعہ محلوں، موچی گیٹ میں اذان فجر تک اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اس دوران جگہ جگہ عزادار ماتمین کی ٹولیاں نوحہ گری اور زنجیر زنی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اذان فجر سے پہلے یہ جلوس چوک نواب صاحب پہنچتا ہے۔ جہاں علی اکبر کی روایت دہرانے کی علامت کے طور پر اذان دی جاتی ہے اور اس کے بعد یہ جلوس زنجیر زنی کرتے ہوئے پھر آگے بڑھنے لگتا ہے۔
قدیمی جلوس کی حفاظت کیلئے اندرون شہر کی تنگ گلیوں میں کیمروں سے مدد لینے کے علاوہ گلیوں میں موجود تقریباً تمام عمارتوں کی چھتوں پر بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں۔ جبکہ جلوس کے آگے پولیس کی بھاری نفری کے علاوہ اس کے ساتھ اور عقب میں بھی حفاظتی اہلکار بڑی تعداد میں تعینات کئے جاتے ہیں۔ بعد ازاں جلوس مسجد وزیر خان کی طرف بڑھتے ہوئے کشمیری بازار، چوک سنگ محل پہنچتا ہے۔ اس وقت ظہرین کا وقت ہو چکا ہوتا ہے۔ شہر کی تنگ گلیوں اور جگہ جگہ جلوس کے استقبال کے علاوہ زنجیر زنی کی وجہ سے جلوس کی رفتار انتہائی سست رہتی ہے، جو کہ ایک روایت بن چکی ہے۔ ظہرین کی ادائیگی کے بعد صرافہ بازار، گمٹی بازار، ڈبی بازار اور تحصیل بازار سے گزرتا ہوا یہ جلوس امام بارگاہ مبارک بیگم پہنچتا ہے۔ امام بارگاہ بیگم مبارک کے بعد مرکزی جلوسِ یوم عاشور بازار حکیماں، فقیر خانہ، اونچی مسجد وغیرہ کے قریب سے گزرتا ہوا بھاٹی گیٹ پہنچتا ہے۔ جہاں اب اس کا طے شدہ راستہ اندرون شہر کی گلیوں سے باہر سرکلر روڈ پر منتقل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد محض چند سو گز کا فاصلہ طے کرنے میں جلوس کو کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور یہ مغرب کی اذان کے قریب کربلائے گامے شاہ پہنچ کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روایتی راستوں پر بعض جگہوں پر ذوالجناح بھی تبدیل کیا جاتا ہے۔ کربلا گامے شاہ پر مرکزی جلوس کے خاتمے کے بعد روایتی علامت کے طور پر مجلس شام غریباں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
شام غریباں میں بھی ہزاروں عزادار شریک ہوتے ہیں، جس کے بعد رات گئے عاشورہ کی یہ روایت لاہور میں اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ صوبائی حکومت نے مرکزی جلوس عاشورہ کے تحفظ کیلئے دس ہزار سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو تعینات کر رکھا ہے، جبکہ رینجرز کی طلبی اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح رضا کاروں اور اسکائوٹس کی خدمات بھی جلوس منتظمین کو حاصل ہوتی ہے۔ صوبائی انتظامیہ نے جلوس کی حفاظت کے پیش نظر ایک جانب شہر میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا رکھی ہے، وہیں شہر میں دفعہ 144 بھی نافذ ہے۔ نیز جلوس کا اعلیٰ پولیس حکام نے خود معائنہ کیا۔ اس دوران مختلف سیکورٹی اداروں سے لمحہ بہ لمحہ اطلاعات فراہم کرنے کے نظام کو فعال بنایا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر لاہور کے دفتر میں ایک خصوصی کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا ہے، جو یوم عاشور کی سرگرمیوں کو مسلسل مانیٹر کرنے کا ذمہ دار ہے۔ جلوس شروع ہونے سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ نے راستوں کا بغور معائنہ کیا۔ نیز بم ڈسپوزل کی ٹیمیں، ریسکیو 1122، فائر بریگیڈ کو بھی جلوس کے ساتھ ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح جلوس میں شامل ہونے والے ایک ایک شخص کی تلاشی کے علاوہ واک تھرو گیٹس بھی جگہ جگہ نصب کئے گئے ہیں۔ صوبائی سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے دو روز قبل ڈی سی آفس میں قائم کئے گئے خصوصی کنٹرول روم میں انتظامی اور سیکورٹی معاملات کا خود بھی جائزہ لیا تھا۔ شہر میں مجموعی طور پر سیکورٹی کو عاشورہ کے موقع پر بہتر رکھنے کیلئے جگہ جگہ پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ اہم مقامات پر ناکے لگا دیئے گئے ہیں اور متبادل راستوں کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد اکبر اس سلسلے میں سیکورٹی انتظامات کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment