حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کا سلسلہ جیلانی، رزاقی، قادری، چشتی، نظامی و صابری اور حنفی تھا، جبکہ حضرت صاحبؒ کا سلسلہ 25 واسطوں سے حضرت غوث الاعظمؒ اور 36 واسطوں سے حضرت امام حسنؓ سے جاملتا ہے۔ آپؒ کی والدہ صاحبہ بھی گیلانیہ رزاقیہ تھیں۔ حضرت صاحب کی شادی اپنی والدہ صاحبہ کے عم زاد بھائی سید چراغ علی شاہ کی بیٹی سے ہوئی۔
اپنے حسب نسب کے بارے میں جناب پیر سید مہر علی شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’سب تعریفیں خدا کیلئے ہیں، جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے اور صلوۃ و السلام جناب خاتم النبیینؐ پر اور آپؐ کی جملہ آل اور اصحاب پر۔ اس کے بعد حق تعالیٰ کے سلسلہ کو پکڑنے والا بندہ المعروف بہ مہر علی شاہ حق تعالیٰ اسے معاف فرمائے، عرض گزار ہے کہ نوع انسانی میں رب تعالیٰ کے نزدیک جو چیز شرف کا باعث اور عروہ وثقی ہوسکتی ہے، وہ کلمۃ التقویٰ ہے۔ یعنی پرہیز گاری ہے۔ اس کی شہادت خدا کا فرمان ’’جو شخص اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہی سے ڈرا اور اپنے نفس کو حرص و ہوا سے بچاتا رہا اس کا ٹھکانا جنت ہے‘‘ دے رہا ہے اور اس پر رب تعالیٰ کا ارشاد ’’بے شک تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو پرہیزگار ہے‘‘ دلالت کر رہا ہے اور بلاشبہ اس مقصد عظیم کا دارومدار اس ذات کے ساتھ نسبت اور تعلق کا حصول ہے، جو مقام قاب قوسین کا صاحب ہے۔ ان پر اور ان کی آل پاک پر خدا تعالیٰ کا درود و سلام ہو۔ یہ نسبت اور تعلق خواہ کامل ہو یعنی حسب و نسب دونوں لحاظ سے ہو یا فقط حسب کے لحاظ سے۔ جیسا کہ آیتہ الطہر میں ہے۔
ترجمہ: ’’اے اہل بیت نبی! خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور فرما دے اور جیسا کہ پاکیزگی کا حق ہے تمہیں پاکیزہ بنا دے۔‘‘
اور فرمان الٰہی:
ترجمہ: ’’اے نبی کی بیبیو! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو۔‘‘
(الاحزاب32:)
اور احادیث پاک
ترجمہ: ’’جس نے ان کے ساتھ یعنی میرے اہل بیت کے ساتھ محبت رکھی۔ میری ہی محبت کے باعث رکھی اور جس نے ان کے ساتھ بغض رکھا، میرے ہی ساتھ بغض کی وجہ سے رکھا۔‘‘
ترجمہ: ’’میرے اہل بیت کشتی نوح کی مانند ہیں۔ جو اس میں سوار ہوا، نجات پا گیا۔‘‘
یہ سب اس بات کو ثابت کر رہے ہیں۔
میں اس ملک یعنی ہندوستان کے سادات کی سیادت کے معاملے میں ہمیشہ مسرور رہتا تھا، حتیٰ کہ مجھے اپنے حسب یعنی کمالات کسبیہ کے پیش نظر اپنے متعلق ایسے ہی خیالات آتے رہتے تھے۔ حالانکہ علم نسب کی وہ تمام کتب جو اس خطے میں معتبر شمار کی جاتی ہیں، میرے جد بزرگوار اور مرشد طریقہ قادریہ سید السادات پیر فضل دین قدس سرہ کے پاس بطور سند موجود تھیں اور آنجناب اپنی شفقت عمیمہ، فطری جیلانی کے باعث مجھے اس ضمن میں مطمئن کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے سیدی و شیخی، پابند شریعت مصطفوی حضرت مسکین شاہ سے یہ روایت فرما کر مجھے ظن غالب اور حد یقین تک پہنچادیا تھا کہ آنجناب کے عم بزرگوار شیخ الشیوخ حضرت پیر سید روشن حسین اور آنجناب کے والد بزرگوار سید السادات حضرت پیر سید رسول شاہ کو بغداد شریف میں حضرت سید حبیب مصطفیٰ ابن سید قاسم قادری سجادہ نشین بارگاہ غوثیہ نے اس امر کی سند عطا فرمائی تھی کہ ان کا نسبی تعلق حضرت سیدنا غوث الاعظم قدس سرہ کی ذات گرامی سے صحیح اور درست ہے۔
یہ سند گولڑہ شریف میں حضرت صاحب کے اصل شجرہ نسب کے ساتھ محفوظ ہے۔ یہ سند 1211ھ میں عطا ہوئی۔ اس کا ترجمہ حاضر خدمت ہے۔
ترجمہ: ’’یہ دونوں حضرات پیرسید روشن دین صاحب اور پیر سید رسول شاہ صاحب حسب و نسب کے لحاظ سے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد ہیں اور فیض و برکت میں آنجنابؒ کے صحیح وارث ہیں اور میرے لئے بمنزلہ اپنی اولاد کے ہیں۔ سلسلہ عالیہ قادریہ کے متوسلین کو چاہئے کہ ان کے ہاتھ کو میرا ہاتھ اور ان کی زبان کو میری زبان سمجھیں۔‘‘
حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب کی تحریر آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ آپ کے خیال میں انسان کے شرف بزرگی اور عزت کا دارو مدار تقویٰ اور رب تعالیٰ کے ساتھ صحیح اور مضبوط تعلق پر ہے اور پھر یہ بھی کہ تقویٰ اور خدا سے تعلق کا حصول جناب سرور کائناتؐ کی ذات والا صفات کے ساتھ وابستگی اور آنجناب کی پیروی پر ہے۔ یہ بھی کہ جناب آقائے دو جہاںؐ کے ساتھ نسب اور تعلق شرعی لحاظ سے صرف 2 صورتوں میں تعبیر شمار کیا جاتا ہے۔ پہلی صورت کامل ترین تعلق کی صورت ہے۔ جو حسب نسب ہر دو لحاظ سے ہو۔ جبکہ دوسری صورت فقط حسب یعنی کمالات کسبیہ کے لحاظ کی ہے۔ حسبی و نسبی دونوں لحاظ سے اہل بیت اطہار ہی سے آپ کا تعلق ثابت ہے اور فقط حسبی لحاظ سے کامل طور پر حضرات صحابہ کرامؓ کو حاصل ہے۔ جس کے اعلیٰ ترین مظہر حضرات خلفائے ثلاثہ علیہم الرضوان ہیں۔ حسب و نسب کے لحاظ سے اولین مصداق سیدنا علیؓ، حسنؓ، حسین اور جناب بی بی فاطمہؓ ہیں۔ ان کی اولاد سے ہر دور میں اس قدر علماء و عرفا پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
صرف حسب کے لحاظ سے خصوصاً خلفائے ثلاثہ علیہم الرضوان کے متعلق کتب سیر، اسماء الرجال و الانساب کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اہل بیت اطہار کے بعد جس قدر ارباب کمال ان کی اولاد سے ہوئی اس قدر کسی اور خاندان میں اس کا وجود کم ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment