معارف ومسائل
وَلَقَد یَسَّرنَا … للذکر، ذکر کے معنی یاد کرنے اور حفظ کرنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کلام سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے بھی، یہ دونوں معنی یہاں مراد ہو سکتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم کو حفظ کرنے کے لئے آسان کردیا، یہ بات اس سے پہلے کسی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی کہ پوری کتاب تورات یا انجیل یا زبور لوگوں کو برزباں یاد ہو اور یہ حق تعالیٰ ہی کی تیسیر اور آسانی کا اثر ہے کہ مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے بچے پورے قرآن کو ایسا حفظ کرلیتے ہیں کہ ایک زیر زبر کا فرق نہیں آتا، چودہ سو برس سے ہر زمانہ ہر طبقے ہر خطے میں ہزاروں لاکھوں حافظوں کے سینوں میں یہ خدا کی کتاب محفوظ ہے۔
اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قرآن کریم نے اپنے مضامین عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کر کے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر ، فلسفی اور حکیم اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ، اسی طرح ہر عالم جاہل جس کو علوم سے کوئی مناسبت نہ ہو وہ بھی عبرت و نصیحت کے مضامین قرآنی کو سمجھ کر اس سے متاثر ہوتا ہے۔
حفظ کرنے اور نصیحت حاصل کرنے کیلئے قرآن کو آسان کیا گیا ہے نہ کہ اجتہاد اور استنباط احکام کیلئے۔ اس آیت میں یسرنا کے ساتھ للذکر کی قید لگا کر یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک اس کو آسان کردیا گیا ہے ، جس سے ہر عالم و جاہل ، چھوٹا اور بڑا یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے ، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن کریم سے مسائل اور احکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو، وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے، جس میں عمریں صرف کرنے والے علمائے راسخین کو ہی حصہ ملتا ہے ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔
اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جو قرآن کریم کے اس جملے کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم ، اس کے اصول و قواعد سے حاصل کئے بغیر مجتہد بننا اور اپنی رائے سے احکام و مسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭