میدانِ کربلا میں جب عاشورہ کی صبح حضرت سیدنا حسینؓ نے اپنی مختصر سی جماعت کو لشکرکے عنوان سے ترتیب دیا تو عَلم برداری کا شرف اپنے چھوٹے بھائی ابوالفضل حضرت عباسؒ کو عطا ہوا۔ حضرت ابو الفضل عباسؒ بن علیؓ کی والدہ عرب کے ایک معزز خاندان کلاب سے تھیں۔ حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے چھ ماہ بعد حضرت علی المرتضیٰؓ نے بی بی ام البنینؓ سے نکاح فرمایا، جن کے بطن سے حضرت عباسؒ پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت 26 ہجری میں ہوئی۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد آپؒ حضرت حسنؓ کی زیر تربیت رہے۔ 50 ہجری میں حضرت حسنؓ شہید ہوئے تو عاشورہ محرم 61 ہجری تک کا زمانہ اپنے دوسرے بھائی حضرت حسینؓ کی رفاقت میں بسر کیا۔ واقعہ کربلا کے وقت آپ کی عمر 34 سال تھی۔ حسن و جمال اور قوت و شجاعت میں ممتاز درجہ رکھتے تھے، حسن و جمال کی وجہ سے عام طور پر ’’قمر بنی ہاشم‘‘ (بنی ہاشم کے چاند) کے لقب سے مشہور تھے۔
حضرت جعفر صادقؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ہمارے چچا عباسؒ بن علیؓ بڑے دین دار اور کامل الایمان تھے۔ عاشورہ کے دن جب بچوں اور خواتین سمیت قافلہ حسینؓ کے تمام افراد پیاس کی شدت سے نڈھال تھے تو حضرت ابو الفضل عباسؒ بن علیؓ نے حضرت حسینؓ سے نہر فرات سے پانی بھرنے کی اجازت لی۔
حضرت حسینؓ نے انہیں روکنا چاہا تو انہوں نے بچوں اور خواتین کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ان کی پیاس اب مجھ سے دیکھی نہیں جاتی اور مشکیزہ لے کر نہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ دشمن نے مزاحمت کی تو آپؒ نے نہر کا راستہ صاف کرنے کے لئے حملہ کیا اور اس میں کامیاب ہوئے۔ نہر پر پہنچ کر مشکیزہ پانی سے بھر لیا، خود بھی پیاسے تھے، لہٰذا ایک چلو بھر کر منہ کی طرف لے گئے، لیکن پھر سیدنا حسینؓ اور بچوں کی پیاس دیکھ کر چلو والا پانی پھینک دیا۔
جب پانی سے بھرا مشکیزہ سنبھالے خیموں کی طرف لوٹے تو دشمن نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اب صورت یہ تھی کہ دشمن آپ کو گھیرے ہوئے تھے۔ آپؒ کے دوش پر پانی کا مشکیزہ تھا اور ہاتھ میں حسینی عَلم۔ دشمن کسی بھی طرح پانی خیموں تک نہ لے جانے دیتے تھے۔ حضرت عباسؒ نے اسی عالم میں جوش و خروش کے ساتھ حملے شروع کر دیئے۔
حکیم بن طفیل سنبی نے آپؒ کے داہنے ہاتھ پر تلوار ماری۔ حضرت عباسؒ کو ہاتھ سے زیادہ عَلم کا خیال تھا۔ اس لئے عَلم کو گرنے نہ دیا اور بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ زید بن ورقہ جنمی ملعون نے موقع پا کر بائیں بازو پر تلوار ماری اور وہ بھی کٹ گیا۔
حضرت عباسؒ نے گھوڑے کی پشت پر جھک کر عَلم کو سینے سے روکنا چاہا تو ایک شخص نے گرز کا وار کیا، جس سے آپؒ زمین پر گر گئے اور حضرت حسینؓ کو پکارا۔ حضرت حسینؓ کے کانوں میں ان کی آواز پڑی تو جھپٹ کر ان تک پہنچے۔ حضرت ابو الفضل عباسؒ بن علیؓ کے دونوں بازو کٹے ہوئے تھے۔ پیشانی شکستہ ایک آنکھ میں تیر پیوست تھا… حضرت حسینؓ اپنے بھائی کے سرہانے بیٹھ گئے، حتیٰ کہ حضرت عباسؒ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔
حضرت عباسؒ کی شہادت ہر عہد کی انسانیت کیلئے ایمان اور جرأت کی ایک قابل قدر مثال ہے۔
٭٭٭٭٭