لارک جزیرے کےسفر میں نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا

دوسرے روز میں جلد بیدار ہوا، ضروریات سے فارغ ہو کر اپنے آپ کو فیلڈ کی ضروریات سے لیس کیا اور بذریعہ ٹیکسی ایسکلا پائیں پہنچا اور وہاں سے قشم جزیرے کا ٹکٹ خرید کر وہاں جانے والی موٹر بوٹ میں سوار ہوگیا، جو تیار ہی کھڑی تھی۔ میری بوٹ صبح سات بج کر چالیس منٹ پر روانہ ہوئی اور آٹھ بجے وہ قشم جزیرے کی بندرگاہ پر تھی۔ جزیرہ قشم ایران کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ بڑا ہونے کے علاوہ اس کی ایک اور خصوصیت بھی ہے اور وہ یہ ایران کے دو عدد خوب آباد اور ترقی یافتہ جزیروں میں سے ایک ہے۔ دوسرا آباد جزیرہ جو اس سے بہت چھوٹا ہے، وہ جزیرہ کیش ہے۔ باقی جزیروں پر کیونکہ نمک اور نمک کے گنبدوں کے ذریعے زمین کی گہرائیوں سے اوپر آئی ہوئی مختلف قسم کی بنجر چٹانوں کا قبضہ ہے، اس لیے وہ پوری طرح آباد نہیں ہو سکے ہیں۔ خلیج فارس میں نمک کے گنبدوں کے طفیل وجود میں آنے والے جزیروں کی کل تعداد نو ہے۔
قشم، بندر عباس اور بندر لنگہ کے درمیان شمال مشرق سے جنوب مغرب کی سمت میں پھیلا ہوا ایک لمبوترا جزیرہ ہے۔ اس کی لمبائی ایک سو بیس کلو میٹر اور اوسط چوڑائی تقریباً پندرہ کلو میٹر ہے۔ یہاں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور ایک بین الاقوامی بندرگاہ ہے۔ اس جزیرے کو اگر ایران کا میڈاغاسکر، کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ قشم کے شمال مشرقی سرے کے ساتھ ہی بجانب جنوب مشرق ’’لارک‘‘ جزیرہ واقعہ ہے۔ قشم کے متذکرہ اور شمالی مشرقی سرے اور لارک کا براہ راست فاصلہ تقریباً بارہ کلو میٹر ہے۔ بندر عباس کی صدر بندرگاہ اور قشم جزیرے لارک کا بالواسطہ یا موٹر بوٹ کا فاصلہ چھتیس کلو میٹر ہے۔
ایک مرتبہ پھر قشم کی بندرگاہ پر لارک جانے والی موٹر بوٹ کے بارے میں پتہ کیا۔ جواب ملا کہ لارک کیلئے کوئی باقاعدہ کشتی سروس نہیں ہے۔ بلکہ پوری کشتی ہی کرائے پر لی جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ جب مسافر پورے ہوجاتے ہیں یا وہ پوری کشتی کا کرایہ کو دینے کو تیار ہوتے ہیں تو وہ سب مل کر ایک کشتی بک کرا لیتے ہیں۔ خوشی قسمتی سے مجھے بتایا گیا کہ ساحل پر کچھ لوگوں نے مل کر ایک سالم کشتی بک کرائی ہے اور مجھے یہ خبر دینے والوں کو امید تھی کہ وہ لوگ بخوشی مجھے بھی مسافروں میں شامل کر لیں گے۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک خاصی گندی جگہ تھی، کچرا ادھر ادھر پھیلا ہوا تھا۔ میں نے سب لوگوں کو مشترکہ سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ وہ سب لارک ہی کے رہنے والے تھے۔ میں نے ایک صاحب سے کہ جن کے چہرے پر کچھ دوستانہ تاثرات نظر آئے اپنا تعارف کرایا اور باقی انتظار کا وقت انہی کے ساتھ گزارا۔ کشتی کی باقی سواریاں آتی گئیں اور نو بجے سے پہلے ہی سب آنے والے لوگ پہنچ چکے تھے۔ کیونکہ کشتی میں ابھی کئی سیٹیں خالی تھیں، اس لیے مجھ سے پانچ ہزار ریال لے کر بخوشی بٹھا لیا گیا۔ ہماری کشتی ٹھیک 9 بجے لارک جزیرے کے لیے روانہ ہوگئی اور تقریباً بیس منٹ بعد ہم لوگ لارک کے ایسکلا پر تھے۔ مگر آگے بڑھنے سے پہلے کشتی میں گزرے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔
ہوا یہ کہ قشم چھوڑنے کے تھوڑی دیر بعد جبکہ دور افق پر لارک جزیرے کا دھندلا سا ہیولا نظر آنا شروع ہوگیا تھا، میں نے اپنے کمرے کا کیس کھول کر اس کو چیک کیا اور اپنے دیرینہ طریقہ کار کے مطابق اپنے ہدف (لارک) کا دور کا فوٹو لے لیا۔ جب لارک ذرا نزدیک آیا تو میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک لڑکے نے مجھ سے کچھ زبان سے اور کچھ اشاروں سے کہا کہ میں اب ایک تصویر اور بناؤں۔ اب جزیرہ لارک بھی خاصا واضح ہوگیا تھا اور اس کے سامنے کھڑا بظاہر جنگی جہاز بھی صاف نظر آنے لگا تھا۔
کیونکہ مجھے اس عام سے جہاز سے کوئی دلچسپی نہ تھی، اس لیے میں نے اس کی خواہش کو نظر انداز کر دیا۔ مگر فوراً ذرا فاصلے پر بیٹھے ایک اور لڑکے نے بڑی لجاجت سے مجھ سے کہا کہ میں اس جہاز کی تصویر اتاروں۔ اس پر میں نے بے خیالی اور کچھ سوچے سمجھے بغیر کیمرہ نکالا اور لارک جزیرے معہ جہاز کی تصویر اتار کر کیمرہ پھر بند کر دیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی کشتی میں جیسے بھونچال آگیا۔ لوگوں کو اعتراض تھا کہ حکومت ایران کی طرف سے جہازوں اور ہر قسم کی فوجی تنصیبات کی تصاویر پر پابندی کے باوجود میں نے اس جہاز کی تصویر کیوں اتاری؟ پہلے تو میں خاصا پریشان ہوا کہ بیٹھے بٹھائے اپنے آپ کو کس مصیبت میں ڈال لیا۔ مگر پھر فوراً ہی بفضل تعالیٰ دماغ میں ایک واضح دفاعی حکمت عملی آگئی۔ میں نے پہلے تو مسافروں سے درخواست کی کہ برائے مہربانی ذرا صبر کریں اور مجھے اپنی صفائی کا موقع دیں۔ پھر مسافروں میں سے ایک صاحب سے مخاطب ہوا جو معمر تھے اور ایک سنجیدہ شخص نظر آتے تھے، اور جو لڑکوں کے مجھ سے فوٹو لینے کی درخواست کرتے اور میرے فوٹو لینے کی تمام صورت حال کو بغور دیکھتے رہے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا خالی سمندر کا ایک فوٹو لینے کے بعد میں نے اپنے کیمرے کو بند کر کے نہ رکھ دیا تھا؟ انہوں نے تصدیق کی۔ پھر عرض کیا کہ جب میں پر سکون بیٹھا سفر کر رہا تھا تو کیا مجھ سے فلاں لڑکے نے اس جانب اشارہ کر کے جہاز کی تصویر لینے کی درخواست نہ کی تھی۔ اور کیا میں نے اس کی درخواست سنی ان سنی نہیں کر دی تھی۔ انہوں نے اس کی بھی تصدیق کی۔ پھر عرض کیا کہ جب دوسرا لڑکا مجھ سے جہاز کی تصویر اتارنے کی درخواست کر رہا تھا تو کیا آپ لوگوں کا فرض نہیں بنتا تھا کہ اس کو ایسی درخواست کرنے سے منع کریں؟ اور اگر اس کو منع نہیں کر سکتے تھے تو کیا آپ لوگ مجھے نہیں بتا سکتے تھے کہ میں اس لڑکے کی بات نہ مانوں کہ یہ غیر قانونی فعل ہے؟ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے اس مرد نیک سے کہا کہ آپ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ میں ایک پاکستانی ہوں اور زندگی میں پہلی بار آپ کے جزیرے پر آرہا ہوں اور یہ کہ میں مقامی حالات اور قانون سے بھی واقف نہیں ہوں۔ ان تمام باتوں کے باوجود آپ لوگ مجھے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ بفضل تعالیٰ وہ مرد نیک اور ساتھ ہی دیگر لوگ میری باتوں کو سمجھ گئے۔ مرد نیک و بزرگ نے میرے حق میں اپنی مدلل تقریر کی اور یوں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ ورنہ میری اپنی نادانی اور لاپرواہی سے میرے سر پر مصیبت تو کھڑی ہو ہی گئی تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment