احمد نجیب زادے
ہزاروں برطانوی لڑکیاں اور لڑکے اپنی جنس تبدیل کرنے کے خواہشمند نکلنے۔ برطانوی معاشرے میں موجود نابالغ لڑکیوں کو شکوہ ہے کہ قدرت نے ان کو لڑکا کیوں نہیں بنایا اور لڑکوں کو اس بات کا غم کھائے جارہا ہے کہ ان کو تو لڑکی بننا تھا، لیکن قدرت نے ان کو لڑکا بنا ڈالا ہے۔ ان کے علاوہ ایسے اطفال بھی ہیں، جو نا تو لڑکی بننا چاہتے ہیں اور نا ہی لڑکا بلکہ وہ مخنث بن کر باقی ماندہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسے اطفال کی عمریں محض چار برس سے پندرہ برس تک ریکارڈ کی گئی ہیں جو لڑکی یا لڑکا سے لڑکی یا لڑکا یا مخنث بننا چاہتے ہیں۔ برطانوی اور عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق جنس کی تبدیلی کے خواہشمند برطانوی اطفال نفسیاتی بیماریوں اور تنہائی کے اثرات کے تحت جنس تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔ اپنی رپورٹ میں معروف برطانوی آن لائن جریدے لائف سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی معاشرے میں موجود ہزاروں نابالغ اطفال کی خواہش ہے کہ ان کو آپریشن کرکے اور ادویات کی مدد سے لڑکا یا لڑکی بنا دیا جائے، جبکہ انتہائی حیران کن انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ 50 فیصد ایسے بچے بھی ان ہزاروں اطفال میں شامل ہیں جو نا تو لڑکا بننا چاہتے ہیں اور نا ہی لڑکی بلکہ وہ خود کو آپریشن کے ذریعہ خواجہ سرا میں تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔ محکمہ صحت سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ برطانوی افسر نے اعتراف کیا ہے کہ یہ ایک تباہ کن صورت حال ہے جس سے نمٹنے کیلئے بڑی پلاننگ کی ضرورت ہے۔ اس افسر کا کہنا تھا کہ ہر ہفتے صرف لندن میں واقع ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے تحت کارگزار ’’جینڈر آئی ڈنٹیٹی ڈویلپمنٹ سروس‘‘ میں چالیس بچوں کو جنس کی تبدیلی کی خواہش کے تحت معائنہ کیلئے بھیجا جارہا ہے، جو برطانوی معاشرے کیلئے بہت زیادہ انتباہی کیفیت ہے۔ اس سلسلہ میں مذکورہ برطانوی ادارے کی آفیشل ویب سائٹ پر تبدیلی جنس کے خواہشمند اطفال کی سچی کہانیاں بھی شائع کی گئی ہیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے انکشاف کیا ہے کہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے اس منظر نامہ کو دھماکا خیز قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، لیکن کئی سماجی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی معاشرے میں بے راہ روی، بن بیاہی لڑکیوں اور نوجوان مائوں میں تسلسل سے منشیات کے استعمال سمیت شراب نوشی کے تحت ایسی نسل پیدا ہو رہی ہے، جس کے ڈی این اے میں مسائل ہیں۔ اسی لئے ایسے بچے ہوش سنبھالتے ہی محض دس یا گیارہ سال کی عمر میں جنس کی تمام ضروریات اور معاملات سے روشناس ہوجاتے ہیں اور وہ اگرچہ ایک پرفیکٹ لڑکی یا لڑکا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی موجودہ صنف سے صد فیصد مطمئن ہونے کے بجائے مخالف جنس میں خود کو تبدیل کرنے کا افسوس ناک رجحان رکھتے ہیں۔ جبکہ ایک افسوس ناک امر یہ بھی محسوس کیا گیا ہے کہ بیشتر اطفال چاہتے ہیں کہ انہیں آپریشن میں لڑکا یا لڑکی کے بجائے ’’مخنث‘‘ بنادیا جائے تاکہ وہ دونوں بنیادی اصناف مرد و عورت میں شمار کئے جاسکیں اور دونوں قبیلوں کے ساتھ ان کی بیٹھک رہے۔ برطانوی معاشرے میں ہزاروں اطفال کی جانب سے جنس کی تبدیلی کے کیسوں کے بارے میں کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں امریکی اسپیشلائزڈ ڈاکٹر سرجن اور ’’امریکن کالج فار پیڈیاٹریشن‘‘ کی صدر ڈاکٹر مشیل کریٹیلا نے کہا ہے کہ خود کو مخنث سمجھنا یا اپنی جنس لڑکی یا لڑکے ہونے پر بے اطمینانی کی کیفیت ایک نفسیاتی مرض ہیَ ایسی کیفیت میں جنس کی تبدیلی کیلئے خواہشمند برطانوی اطفال کو سمجھا بجھا کر ان کو اصل فطری کیفیت پر رکھنا چاہئے کیونکہ ان کی نگاہ میں ایسے بچوں کا آپریشن کرنا اور ان کی جنس تبدیل کرنا بالاصل ’’بچوں کا استیصال‘‘ کے مترادف ہے، جس کو فوری طور پر روکنا ہوگا۔ ادھر لندن اور مانچسٹر سمیت اسکاٹ لینڈ کے کئی طبی معالجوں نے تسلیم کیا ہے کہ صنف کی تبدیلی کے ہزاروں کیس اسپتالوں اور کلینکس میں ٹریٹمنٹ کے مراحل سے گزار رہے ہیں اورمیڈیا میں شیئر کئے جانے والے حکومتی اعداد و شمار تبدیلی صنف کے خواہشمندوں کی اصل تعداد سے کہیں کم بیان کئے گئے ہیں، لیکن ڈیلی ایکسپریس کے مطابق یو کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کی جانے والی تازہ اسٹڈی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کی مدت میں جن اطفال نے تبدیلی جنس کیلئے درخواست کی تھی ان کا جب میڈیکل بورڈ نے نفسیاتی اور دماغی معائنہ کیا تو ان میں سنگین دماغی اور نفسیاتی خلل پایا گیا تھا، جس کا بنیادی سبب منشیات اور شراب خوری سمیت سگریٹ نوشی اور معاشرے میں والدین اور سوسائٹی کی جانب سے نظرانداز کیا جانا تھا۔ ڈاکٹرز نے تسلیم کیا ہے کہ ایسے اطفال کو سمجھانے اور تبدیلی جنس کے آپریشن یا ٹریٹمنٹ سے روکنے کی صلاح ناکام ہوچکی ہیں، لیکن ہم نے ان کو اور ان کے والدین کو اس بارے میں بتا دیا ہے کہ ہم جو ہارمونک ٹریٹمنٹ ان کو دے رہے ہیں اس سے مستقبل میں وہ لڑکی سے لڑکا بن کر باپ نہیں بن سکتے یا خود کو لڑکا سے لڑکی میں تبدیل کروانے والے بعد میں مائیں نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کو جو ہارمونز دئے جاتے ہیں، اس سے ان کی تولدی زر خیزی میں کمی آجائے گی اور وہ تبدیلی جنس کے بعد بھی نارمل نہیں رہیں گے، جب کہ ان کو مستقبل میں ہڈیوں کے بھربھرے پن (osteoporosis) سمیت بانجھ پن اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس سبھی قسم کے انتباہی بیانات اور کونسلنگ کے باوجود بچوں کا یہ اٹل فیصلہ تھا کہ وہ اپنی جنس کی تبدیلی ضرور کروانا چاہتے ہیں۔ ڈیلی ایکسپریس نے سات برس کے دوران برطانوی اطفال میں تبدیلی جنس کے رحجان میں اضافہ کی شرح چار ہزار فیصد اونچی بتائی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس تشویش ناک اور حیران کن رجحان پر خود برطانوی حکومت کے بھی ہاتھ پیر پھول چکے ہیں کہ ملکی سطح پر ہزاروں اطفال آخر اپنی صنف سے ٹھوس وجوہات کے بغیر کیوں نالاں ہیں۔ برطانوی وزیر پینی مارڈوئنٹ نے ایک اعلیٰ سطح کے تحقیقاتی کمیشن کے توسط سے ان وجوہات کا پتا چلانے کا حکم دیا ہے، جس کے تحت ہزاروں برطانوی بچوں کی جانب سے اپنی جنس کی تبدیلی کی خواہش اور کوششوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔ برطانوی حکومتی کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ ایسی اطلاعات کی تصدیق ہوئی ہے کہ کئی نجی کلینک اور شفا خانوں میں تبدیلی جنس کے خواہشمند بچوں کو ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کی جانب سے خاص قسم کے ہارمونز پر مشتمل ٹریٹمنٹ دی جارہی ہے، جس کے بعد ان کا مائنر آپریشن کرکے ان کو صنف کی تبدیلی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ برطانوی جریدے ٹیلیگراف نے حکومتی اعداد و شمار کے حوالہ سے انکشاف کیا ہے کہ 2009 میں صنف کی تبدیلی کیلئے 40 لڑکیوں نے درخواستیں دی تھی جن کو ہیتلھ ڈیپارٹمنٹ نے جنس کی تبدیلی کیلئے کلیئر کیا تھا، لیکن 2017 میں یہی تعداد 1,806 تھی جس میں اگلے سال مزید اضافہ ہوکر یہ تعداد4 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ برطانوی لکھاری ڈیوڈ میڈوکس کا دعویٰ ہے کہ جنس کی تبدیلی کے زیادہ خواہشمند اطفال میں اغلب تعداد لڑکیوں کی ہے جو لڑکا بننا چاہتی ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک اعلی سطح کے ادارے ’’گورنمنٹ ایکیولے ٹیز آفس‘‘ نے بتایا ہے کہ ایک سنگین معاشرتی عفریت کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کے بعد اس مسئلہ کے سد باب کی تجاویز اور سفارشات دے گی۔
٭٭٭٭٭