سی پیک میں سعودی شراکت کوچین کی حمایت حاصل

وجیہ احمد صدیقی
سی پیک میں سعودی عرب کی شراکت کو چین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ’’امت‘‘ کو عسکری تجزیہ نگاروں نے بتایا ہے کہ چین کو اس حوالے سے نہ صرف اعتماد میں لیا گیا، بلکہ سی پیک کے منصوبوں پر نظر ثانی بھی اسی پس منظر میں کی جارہی ہے۔ حال ہی میں پاکستانی آرمی چیف چین کے دورے پر تھے جہاں ان کی ملاقات چینی صدر ژی جیانگ پنگ سے ہوئی صدر ژی جیانگ پنگ نے کہا کہ جو لوگ سی پیک ( پاک چین اقتصادی راہداری) کی مخالفت کررہے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہ منصوبہ امن اور ترقی کی ضمانت ہے۔ نہ صرف چین کیلئے بلکہ خطے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر دیگر ممالک کیلئے بھی مفید ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے اور پاکستان آرمی نے اس دوستی میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی آرمی چیف چینی صدر کی خصوصی دعوت پر چین گئے تھے ۔ اس حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کبھی ایسی غلطی نہیں کرسکتا کہ چین کو اعتماد میں لئے بغیر سعودی عرب کو سی پیک میں سرمایہ کاری کی دعوت دے اور نہ ہی سعودی عرب ایسا ملک ہے کہ وہ چین کی منشا اور مرضی جانے بغیر اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرے۔ اپریل 2017ء میں چین اور سعودی عرب کے سربراہان مملکت کے درمیان فوجی تعلقات کا معاہدہ ہوا تھا۔ چین کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چئیرمین جنرل ژی چی لیانگ اور سعودی عرب کے ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر دفاع محمد بن سلمان کی ریاض میں ملاقات ہوئی تھی۔ چین کی وزارت دفاع کے مطابق جنرل ژی چی لیانگ نے دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب مشرق وسطی اور اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور مشرق وسطیٰ میں چین کا سب سے اہم پارٹنر ہے۔ دونوں ممالک کے مابین عرصہ دراز سے دوستانہ روابط ہیں، چین ہمیشہ سعودی عرب کی ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کرتا آیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کی افواج کے مابین بھی دوستانہ تعلقات ہیں۔
سعودی عرب کا کردار پاک چین دوستی میں کلیدی رہا ہے۔ چین اور سعودی عرب نے قدیم تجارتی گذرگاہ شاہراہ ریشم کی تعمیر میں حصہ لیا ہے اور اس کو فعال بنایا ہے۔ اسی شاہراہ سے پاک چین اقتصادی راہداری کا تصور ابھرا ہے جس کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے درمیان تجارتی تعلقات کے فروغ اور تہذیبوں کے درمیان باہمی روابط اور تعلقات کو مربوط بنانے میں مدد ملے گی۔ اس لیے یہ تصور کہ چین سی پیک میں نئے پارٹنر کو قبول نہیں کرے گا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب گوادر میں پیٹرولیم مصنوعات کو ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ٹرمنل بنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اربوں ڈالر سالانہ کی تجارت چین اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ چین سعودی عرب کو بین براعظمی میزائل بھی فروخت کررہا ہے۔
کیا چین کو سعودی عرب کو سی پیک میں شراکت دار بنانے پر کوئی اعتراض ہے؟ اس بارے میں عسکری تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے علم کے مطابق چین کو اس حوالے سے آن بورڈ لیا گیا ہے۔ یہ معاملہ ایسا نہیں تھا کہ ملک کے سینیئر سیاسی رہنما اس معاملے کو ٹوئٹر پر ہونے والی بحث کا حصہ بناتے۔ چین اس قسم کے معاملات میں خاموش رہتا ہے اور معاملات کو خوش اسلوبی سے طے ہونے دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ’’سعودی عرب امریکہ کے اثر و رسوخ میں ہے، ممکن ہے کہ اس حوالے سے امریکہ سعودی عرب پر دبائو بڑھائے۔ اس لیے پاکستانی سیاست دانوں کا وقت سے پہلے واویلا پاکستان کیلئے ہی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ چین کی خواہش ہے کہ اس منصوبے میں زیادہ سے زیادہ ممالک شامل ہوں۔ ان میں روس کے علاوہ وسطی ایشائی ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں اور ایران اور افغانستان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ غرض یہ کہ جتنے ممالک بھی اس منصوبے میں شامل ہوں گے، پاکستان کو اتنا ہی زیادہ معاشی فائدہ ہوگا۔ پاکستان اور چین نے تو امریکہ کو بھی کہا تھا کہ وہ بھی اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرے۔ لیکن امریکہ اس منصوبے کا ہی دشمن بن گیا ہے۔ اس منصوبے کیلئے آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرضہ دینے سے منع کردیا ہے۔ لیکن پاکستان نے امریکہ پر انحصار ترک کرکے دوسرے ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ امریکہ کی شہ پر ہی بھارت نے سی پیک کے راستے کو متنازعہ علاقہ قرار دیا ہے۔ لیکن اس منصوبے میں جتنے شراکت دار بڑھیں گے اسی قدر بھارتی موقف کو عالمی سطح پر رد کیا جائے گا۔‘‘ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ ’’مجھے علم نہیں کہ چین کو سعودی عرب کی سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری پر کوئی تحفظات ہیں۔ چین اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ ایٹمی تعاون کا معاہدہ بھی موجود ہے۔ اس لیے ایسی کوئی صورت نہیں نظر آتی کہ چین کو سعودی عرب کے ساتھ تحفظات ہوں۔ اس شراکت کے بعد یہ یقینی ہو گیا ہے کہ سعودی تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ گوادر کی بندرگاہ پر آجائے گا اور سعودی عرب کی رسائی چین سمیت وسطی ایشیا کی منڈی تک ہوجائے گی۔ پاکستان کو بھی اس کا معاشی فائدہ ہوگا۔‘‘
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’یہ ناممکن ہے کہ پاکستان کسی تیسرے فریق کو سی پیک منصوبے میں شامل کرے اور پہلے فریق سے اس پر کوئی مشاورت ہی نہیں کرے۔ چین بڑا سرمایہ کار ہے اس کی مشاورت کے بغیر کوئی دوسرا سرمایہ کار اس منصوبے میں شامل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اور چین دونوں کی یہ کوشش تھی کہ اس منصوبے میں زیادہ سے زیادہ شراکت دار ہوں۔ صرف سرمایہ کاری ہی نہ ہو بلکہ شراکت داری بھی ہو۔ پاکستان کو اپنے قرض اتارنے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سی پیک منصوبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔ پاکستان آئی ایم ایف کے آپشن سے بھی نجات پانا چاہتا ہے، اس لئے کہ امریکہ نے آئی ایم ایف کو پابند کردیا ہے کہ اس کے دیئے ہوئے قرضے سے چین کا قرضہ نہ اتارا جائے اور یہ قرضہ سی پیک کی تعمیر میں بھی استعمال نہ ہو۔ اس لیے پاکستان کے پاس سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے تعاون کا آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے جنہوں نے ہمیشہ کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ سی پیک خطے کیلئے مقناطیس ہے۔ سعودی تیل کی منڈی تک تیزی سے رسائی ہوگی اوراس کیلئے سعودی عرب اور خلیجی ممالک خلیج عمان سے گوادر تک سمندری راستے پر ایک سڑک بنانے کا منصوبہ تیار کررہے ہیں، جس سے زمینی راستے کے ذریعے گوادر تک سامان پہنچایا جاسکے اور گوادر سے عرب دنیا تک چین کا سامان پہنچایا جاسکے۔ خلیج سے آبنائے ہرمز کے راستے گوادر بندر گاہ تک براہ راست بالکل آسان رسائی ہے اور اس بندر گاہ کے راستے مشرقِ اوسط اور افریقا سے چین تک تجارتی مال کو کم سے کم وقت میں جاسکتا ہے۔ ان ہر دو علاقوں کے درمیان پاکستان کی بندرگاہ سے فاصلہ محض قریباً 3400 میل رہ جاتا ہے۔ 2017ء میں چین اور سعودی عرب نے آپس میں 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا تھا۔ یہ معاہدہ سعودی عرب کے شاہ سلمان اور چینی وزیر اعظم لی کیانگ کے درمیان ہوا تھا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چین سی پیک میں سعودی سرمایہ کاری کی مخالفت کرے۔‘‘
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment