سدھارتھ شری واستو
بھارتی ریاست مہاراشٹر میں 13 انسانوں کو مار کر کھا جانے والی T-1 نامی شیرنی کو پکڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے حیدر آباد دکن کے معروف شکاری نواب شفاعت علی خان کو طلب کرلیا ہے۔ جبکہ شکاری خاندان کے اس اہم رکن کی معاونت کیلئے اتر پردیش سے شکاریوں کی ایک اہم ٹیم بھی مقرر کی جاچکی ہے، لیکن جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے بھارتی عدالت سے کہا ہے کہ وہ نواب شفاعت علی خان کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آدم خور شیرنی T-1 کو قتل کریں، لیکن بھارتی عدالت نے مسلسل انسانی جانوں کے ضائع پر اس شیرنی کو ہر قیمت پر ہلاک کرنے کیلئے احکامات دیئے ہیں اور یوں نواب شفاعت علی خاں اپنی جدید بندوق اور آلات لے کر مہاراشٹر پہنچ چکے ہیں جس کی مخالفت میں مقامی تنظیم کے رہنمائوں او ر کارکنوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ودربھا سے تعلق رکھنے والے وائلڈ لائف کارکنان نے مہاراج باغ سے سمیدھان اسکوائر تک ایک احتجاجی ریلی نکالی اور خوانخور شیرنی کو زندہ رکھنے کے حق میں نعرے بازی کی۔ پچاس کارکنان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نواب شفاعت علی خان کو شیرنی کے شکار سے باز رکھنے کے احکامات دے، لیکن حکومت نے واضح کیا ہے کہ 13 قیمتی جانیں لینے والی شیرنی کو ہلاک کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ ادھر نوابی شان اور بندوقوں کے ساتھ ایک سفید ہاتھی پر سوار نواب شفاعت علی خان نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ خونخوار شیرنی کو جلد تلاش کرکے چھلنی کردیں گے اور اپنی شکاری ٹرافیوں میں ایک اور شاندار ٹرافی کا اضافہ کریں گے۔ واضح رہے کہ نواب شفاعت علی خان اب تک 200 سے زائد خونخوار شیروں اور جانوروں کا شکار کر چکے ہیں اور انہوں نے پچھلے سال ہی ایک آدم خور شیرنی کو ٹھکانے لگا کر حیدر آباد کے مضافاتی علاقوں کے عوام کو اس عفریت سے نجات دلوائی تھی، جو 12 انسانوں اور 500 پالتو مویشیوں کو ہلاک کرکے کھا چکی تھی۔ ادھر حقوق حیوانات کے تحفظ کی مقامی تنظیم کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی ایک مختصر سماعت کے بعد مہاراشٹر کی ریاستی حکومت اور عدلیہ نے نواب شفاعت علی خان کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ اب تک 130 انسانوں پر حملوں کا عالمی ریکارڈ بنانے والی اس آدم خورشیرنی T-1 کو اپنی بندوق سے ٹھکانے لگا دیں۔ دوسری جانب بھارتی وزیر برائے بہبود اطفال مانیکا گاندھی نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس شیرنی کو ہلاک نہ کریں اور اس کو پکڑ کر محفوظ قید میں رکھیں لیکن عدالتی احکامات کے بعد حکومت نے بھارت کے آزمودہ شکاری نواب شفاعت علی خان کو طلب کیا ہے۔ اس سے قبل نواب شفاعت علی خان پیلی بھیت کے ایک خونخوار اور آدم خور شیر کو دلچسپ شکاری مہم کے نتیجہ میں گزشتہ سال ہی ٹھکانے لگا چکے ہیں۔ یہ آدم خور شیر 19 دیہاتیوں کو شکار کرکے کھا چکا تھا۔ بھارتی مقامی لکھاری جے ایس ملہوترا نے بتایا ہے کہ مہاراشترا کے ضلع ایوت محل میں وائلڈ لائف حکام خونخوار شیرنی کے آگے بے بس ہیں۔ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی تین ٹیموں کے شوٹرز کی جانب سے اس شیرنی کو پکڑنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن تمام ناکام ثابت ہوئیں۔ شیرنی کے خوف سے ایوت محل کا مضافاتی اور جنگل سے متصل علاقہ سر شام ہی سنسان ہوجاتا ہے اور بغیر دھاڑے انسانوں کو پیچھے سے حملہ کرکے دبوچ لیتی ہے اورگردن کو تھپڑ مار کر یا جھٹکا دے کر توڑ دیتی ہے۔ اس آدم خور شیرنی کی عمر چار سال بتائی جاتی ہے اور تین بچوں کی ماں بننے والی یہ ایک طویل اور قوی الجثہ دھاری دار شیرنی ہے، جس کے بچوں کو گرفتار یا ہلاک کرنے کے احکامات اس لئے دیئے گئے ہیں کہ نا صرف T-1 شیرنی انسانوں کا شکار کرکے ان کا گوشت کھانے کی عادی ہوچکی ہے بلکہ اس کے بچے بھی انسانوں کے گوشت سے لذت اٹھاتے ہیں اور مستقبل میں یہ انسانی گوشت کے عادی ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایوت محل کے ضلعی کلکٹر نے بتایا ہے کہ اس آدم خور شیرنی کو پکڑنے کیلئے 200 مقامات پر جال بچھائے گئے تھے لیکن وہ ان میں سے ایک بھی جال میں نہیں پھنسی اور چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر بار جال کو پار کرجاتی تھی جب کہ اس کی نقل و حرکت کو محسوس کرنے کیلئے حکام نے 100 سے زائد کیمرے بھی نصب کئے گئے، لیکن شیرنی ان کیمروں میں دکھائی تو دی لیکن اس کے بعد کہاں نکل بھاگی اس بارے میں حکام کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ شیرنی کا طریقہ واردات بڑا سفاکانہ اورمنفرد ہے کیونکہ اس شیرنی نے جتنے بھی انسانوں کو ہلاک کیا ہے، ان کی لاشیں گھسیٹ کر جھاڑیوں میں لے جاکر چھپانے کے بجائے ان کو تیز دھاردانتوں اورطاقتور جبڑوں سے ٹکڑے کرکے مختلف مقامات پر لے جاتی ہے اورلاش کے ٹکڑوں کو الگ الگ چھپاتی ہے، جس سے اسے زیادہ تر گوشت میسر ہوجاتا ہے۔ خطرناک طریقہ واردات سے اس شیرنی کے بارے میں مقامی توہم پرست ہندوئوں میں شدید خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اس دھاری دارشیرنی کو آسیبی یا ماورائی طاقتوں والی شیرنی پکارتے ہیں۔ جبکہ اس شیرنی کے خونخوار جبڑوں اور تیز دھار پنجوں کا نشانہ بننے سے بچائو کیلئے خصوصی پوجا پاٹھ بھی کی جاتی ہے۔ بھارتی جریدے کرونیکل نے بتایا ہے کہ گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر میں 2010ء سے 2018ء کے دوران 17 آدم خور شیروں، دو شیرنیوں اور ایک تیندوے کو عدالتی احکامات اور ہدایات کے تحت ہلاک کیا جاچکا ہے۔ جبکہ مئی 2015ء میں راجستھان رنتھم بور نیشنل پارک سے انسانوں کو کھانے والے ایک ایسے شیر کو ابھی تک گرفتار کرکے قید میں رکھا گیا ہے، جس نے خلاف عادت حملہ کرکے ایک پارک رینجر اور دو ساتھیوں کو ہلاک کردیا تھا اور ان کی لاشیں کھا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں راجستھان کی ایک جانوروں کے تحفظ کی تنظیم نے مقامی عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ’’گرفتار شیر‘‘کو رہائی دے کر جنگل میں آزاد کرنے کے احکامات دیں لیکن وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے اس اپیل کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ماسٹر‘‘ نامی اس نو سالہ آدم خور شیر کو چڑیا گھر میں رکھا گیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں مہاراشٹر کے وزیر جنگلات سدھیر منگنتی واڑ نے بتایا ہے کہ مانیکا گاندھی نے ان سے ایوت محل کی اس آدم خور شیرنی کے بارے میںگفتگو کی ہے اور میں نے ان کو بتایا ہے کہ شیرنی کو پکڑنے کی مہم یکسر ناکام ہے اور وائلڈ لائف سمیت فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کا عملہ اور شوٹرز ٹیمیں بھی اس شیرنی کو ٹریس کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کی وجہ سے انسانوں پر مسلسل حملے ہورہے ہیں اور 13افراد کی قیمتی جانیں جاچکی ہیں جب کہ 23 افراد شدید زخمی ہوئے ہیں، اس لئے اس کو ہلاک کردینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ادھر بھارتی ریاست گجرات کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 12 سے 17 ستمبر کے دوران گجرات گار فاریسٹ ایریا میں 13 شیروں اور شیرنیوں کی لاشیں ایک عظیم خونریزی یا جھنڈ کی بادشاہت کیلئے باہمی جنگ کے نتیجہ میں ملی تھیں۔ گجرات فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ شیروں اور شیرنیوں کی لاشوں کے پوسٹ مارٹم سے اس بات کا یقین کیا گیا ہے کہ یہ تمام شیر اور شیرنیاں آپسی لڑائی میں ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ اس خونریزی میں ہلاکتیں مزید بڑھ سکتی ہیں کیونکہ کئی زخمی شیر اور شیرنیاں جان بچانے کیلئے گھنے جنگل میں جا چھپے ہیں، لیکن چونکہ زخمی ہیں اور ان کو کوئی معالجہ دستیاب نہیں ہے اس لئے انفیکشن سے ان کی ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔ ایسے زخمی شیروں اور شیرنیوں کی تعداد 12 بتائی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭