بلوچستان علیحدگی کی تحریک نہیں بزنس ہے

سجاد عباسی
بلوچ قوم پرست رہنما اور دانشور ڈاکٹر جمعہ خان مری گزشتہ تین دہائیوں سے روس کے دارالحکومت ماسکو میں مقیم ہیں۔ وہ سابق گوریلا کمانڈر اور مری بجارانی قبیلے کے چیف میر ہزار خان مری کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے والد 73ء کی بلوچ مزاحمتی تحریک میں نواب خیر بخش مری کے شانہ بشانہ گوریلا کمانڈر کے طور پر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ جبکہ ان کا خاندان اس دوران دربدر ہوکر پہلے پاکستان کے مختلف حصوں میں روپوشی گزارنے کے بعد 1978ء میں کابل جا پہنچا۔ جو اس وقت پاکستان مخالف عناصر کی پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔ تب جمعہ خان کی عمر کوئی پانچ برس تھی۔ انہیں پہلے امریکن اور پھر اطالوی اسکول میں داخل کرایا گیا۔ کابل جنگ و جدل کی لپیٹ میں آیا تو بہت سارے غیر ملکی اسکول بند ہو گئے۔ جس پر انہیں بھارتی سفارت خانے کے اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہاں بھارت نے ننھے جمعہ خان کو عملاً گود لے لیا۔ کابل سے ایف ایس سی کرنے کے بعد بھارت ہی کی اسپانسر شپ پر وہ اعلیٰ تعلیم کیلئے ماسکو گئے۔ اس کے بعد جمعہ خان اپنے ہی وطن کے خلاف باغیانہ کردار اور نام نہاد بلوچ آزادی تحریک کیلئے سرگرم ہوگئے۔ یہ دو دہائیوں پر مشتمل طویل داستان ہے۔ یہاں تک کہ بلوچ آزادی تحریک کا جھنڈا بھی انہوں نے ہی ڈیزائن کیا۔ یوں وہ علیحدگی پسند تحریک کے سینئر ترین کردار بھی ہیں اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے چشم دید گواہ بھی۔ مگر با لآخر انہیں اس بات کا ادراک ہو گیا کہ بھارت بلوچستان کو آزادی دلانا نہیں چاہتا۔ بلکہ دہشت گردی اور بد امنی کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔ جمعہ خان کے بقول ان کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ تب آیا جب براہمداغ بگٹی، حیر بیار مری اور مہران مری نے بھارتی شہریت کیلئے درخواست دی ، گاندھی کے مجسمے پر پھول نچھاور کئے اور بلوچ قوم کی عزت اور غیرت کو چیلنج کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت اور بعض دیگر غیر ملکی قوتیں بلوچستان کو شام بنانے پر تلی تھیں۔ مگر اب بلوچوں میں تیزی سے شعور بیدار ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس فروری میں وہ اپنے کئی ساتھیوں کے ہمراہ نام نہاد بلوچ علیحدگی تحریک سے الگ ہوکر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ گزشتہ سات ماہ سے وہ بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے کئی دیگر لوگوں کو قومی دھارے میں واپس لانے یا پھر غیر موثر بنانے کی مہم پر ہیں۔ یوں انہوں نے مغرب اور امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان دشمن مہم چلانے والوں کے خلاف ماسکو میں مورچہ لگا لیا ہے۔ ڈاکٹر جمعہ خان نے الرجی اینڈ امیونولوجی (and Immunology Allergy) میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور اب ماسکو میں ذاتی کاروبار کر رہے ہیں۔ دریائے ماسکو کے کنارے ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
٭٭٭
س: ڈاکٹر صاحب! اس سال کے آغاز میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک سے دستبرداری کے موقع پر آپ نے اعلان کیا تھا کہ ہم ’’اوورسیز پاکستانی بلوچ کمیونٹی‘‘ کی ایک تنظیم یا کمیٹی بنائیں گے۔ کیا وہ تنظیم قائم ہوچکی ہے۔ اس کے کتنے ارکان ہیں؟
ج: بالکل قائم ہوچکی ہے۔ یہ پارٹی کی شکل میں نہیں ہے، بلکہ میں انٹرویو کے بعد ارکان مقرر کرتا ہوں، جو ہمارے کاز کیلئے کام کرتے ہیں۔ حال ہی میں یورپ گیا تو وہاں پانچ ملکوں میں اپنے نمائندے مقرر کئے۔ اس طرح امریکہ میں بھی کوشش جاری ہے۔ انشاء اللہ اس تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مگر یہ بتاتا چلوں کہ ہماری اس تنظیم کے ذریعے کوئی 120 بلوچ واپس آچکے ہیں۔
س: آپ کی مراد علیحدگی پسندوں کے حامی بلوچوں سے ہے، جو اب ریاست دشمنی سے تائب ہوگئے؟
ج: جی بالکل۔ ابھی بہت سے لوگوں سے رابطے ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگوں سے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ ان میں کچھ ہائی پروفائل بلوچ لیڈر بھی شامل ہیں۔
س: آپ کے پاس اعداد و شمار تو ہوں گے کہ کل کتنے لوگ ہیں، جنہیں راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے اور وہ کہاں کہاں مقیم ہیں؟
ج: جی۔ افغانستان میں کافی لوگ موجود ہیں۔ یورپ میں کوئی تین ہزار کے قریب بلوچ ہوں گے۔ مگر عملاً علیحدگی پسند وںکے فعال حامیوں کی تعداد 3 سو کے قریب ہوگی۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ ان تین سو ایکٹو لوگوں میں سے 80 فیصد کو ہم نے Passive (غیر فعال) بنا دیا۔ باقی بیس فیصد پر بھی کام جاری ہے۔ ظاہر ہے پانچ دس فیصد ایسے ہارڈ کور بھی ہوں گے، جنہیں قائل کرنا مشکل ہے۔
س: اس دوران آپ کو رکاوٹوں اور دھمکیوں کا سامنا تو رہتا ہوگا؟
ج: رکاوٹیں تو پیش آتی ہی رہتی ہیں۔ لیکن روس میں بظاہر ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں کسی کو نقصان پہنچانا آسان نہیں ہے۔ البتہ پاکستان جانے کی صورت میں یہ خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ بعض ایسی ہائی پروفائل شخصیات سے بھی پس پردہ بات چیت جاری ہے، جن کا ریاست کے سامنے سرنڈر کرنا بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ میں فی الحال ان کے نام افشا کرنا نہیں چاہتا۔ مگر بریک تھرو کیلئے پُر امید ہوں۔
س: آپ کی مراد براہمداغ بگٹی سے ہے؟
ج: میں فی الحال کسی کا نام نہیں لے رہا۔ مگر آپ نے جن کی بات کی ان کا گزشتہ 6 ماہ سے کوئی ریاست مخالفت بیان یا ویڈیو پیغام نہیں آیا ہے۔ جسے مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔آپ کو بتاتا چلوں کہ بھارت نے وعدہ کر کے براہمداغ کو شہریت نہیں دی جس پر وہ بھارت سے ناراض ہے، اسی طرح ماما قدیر سمیت کئی دیگر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پہلے بھارت میں پناہ لینے کی کوشش کی، اور ناکامی پر کینیڈا وغیرہ میں سیاسی پناہ لی۔ بھارت دراصل پس پردہ رہ کر سارا کھیل کھیلنا چاہتا ہے، اگر وہ کسی بلوچ کو کھل کر پناہ دے گا تو پاکستان کسی بھی عالمی فورم پر معاملہ اٹھا سکتا ہے، اس لئے وہ (بھارت) کہتے ہیں پیسے لے لو، باہر بیٹھ کر جو کرنا ہے کرو، یہی کام انڈیا ماضی میں افغانستان میں کرتا رہا ہے۔
س: ہارڈ کور عناصر کون ہیں، جن سے بات چیت میں کامیابی آپ کو ممکن نظر نہیں آتی؟ ج: دیکھیں ناممکن تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر تین افراد ایسے ہیں جو اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ ان میں حیربیار مری، ان کا چھوٹا بھائی مہران مری اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ شامل ہیں۔ باقی سب کے Nurves ہم نے ٹیسٹ کرلئے ہیں اور ان سے بات چیت کیلئے پُر امید ہیں۔
س: گزشتہ دنوں فری بلوچستان کے نام سے جو مہم شروع کی گئی تھی، یورپ میں اس کا سرغنہ کون ہے؟
ج: اس کو زیادہ تر مہران مری اور جاوید مینگل لیڈ کر رہے ہیں۔ لندن میں حیربیار مری یہ مہم چلارہا ہے۔ اپنے حالیہ دورہ یورپ کے دوران میں نے پاکستان کمیونٹی کے سرکردہ افراد سے مل کر ایک حکمت عملی تیار کی ہے اور طے کیا ہے کہ اگر آئندہ یہ لوگ ریاست کیخلاف 10 بندے سڑکوں پر نکالیں گے تو ہم 100 بندے لے کر آئیں گے۔ یعنی 10 گنا طاقت سے جواب دیں گے۔
س: آپ نے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے فروری میں کوششیں شروع کی تھیں۔ آپ کے بقول 120 لوگ واپس آئے ہیں۔ ان میں سے پاکستان میں کتنے ہیں اور بیرون ملک کتنے لوگ ہیں؟
ج: کچھ ایسے لوگ ہیں جو افغانستان سے واپس پاکستان گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اعلان نہ کرو، کیونکہ قبائلی معاملہ ہے۔ ہمارے خاندانوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں فراری متحرک ہیں۔ کچھ ایسے لوگ ہیں، جن کی فہرست ہم Verify کر رہے ہیں۔ بہر حال آہستہ آہستہ لوگ قائل ہو رہے ہیں۔ شعور آرہا ہے۔ اتنے برسوں کے پروپیگنڈے کا اثر ظاہر ہے فوری طور پر زائل نہیں ہوگا۔ لیکن علیحدگی پسند کوئی بہت بڑی تعداد میں ملک سے باہر موجود نہیں ہیں۔ جو افغانستان میں ہیں، ان کی اکثریت فوجی آپریشن کے دوران اپنی فیملیز کو بچانے کیلئے گئی۔ ان میں بہت سارے واپس آگئے ہیں۔ اور یہ عمل جاری ہے۔
س: ڈاکٹر صاحب! آپ گزشتہ تین عشروں سے روس میں مقیم ہیں۔ پاکستان اور روس کی تاریخ تلخ یادوں پر مبنی ہے، مگر اب تعلقات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ آپ کے خیال میں تعلقات میں یہ بہتری بلوچستان کے ایشو بالخصوص بھارت کی مداخلت کو کاؤنٹر کرنے اور یورپ میں علیحدگی پسندوں کے گٹھ جوڑ کو توڑنے میں کس قدر معاون ہوگی؟ اور یہ بھی کہ خود روس ہماری مدد کو تیار ہے اس حوالے سے؟
ج: روس تو سمجھیں کہ اب بالکل بدل چکا ہے۔ میں روسیوں کو بہت قریب سے، افغانستان کے زمانے سے جانتا ہوں۔ اس زمانے میں ان کی پاکستان سے ناراضگیاں بہت تھیں۔ مگر اب یہ ناراضگیاں آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں۔ اور پھر ملکوں کے تو مفادات ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جو باہر (علیحدگی پسند) بیٹھے ہیں، ان کا گھیر ا تنگ ہورہا ہے۔ اس میں ہماری بھی محنت ہے۔ کچھ پاکستانی حکومت کی بھی محنت ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کسی نہ کسی حد تک خود روس کی مرضی یا معاونت بھی شامل ہے۔ اور پھر دنیا بھی ہمارا موقف سمجھنے لگی ہے۔ میں نے یورپی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور وہاں کھل کر کہا کہ آپ لوگ جو ہمارے یہاں کے دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں، وہ اپنے ملک میں دھماکے کر رہے ہیں اور آپ اس پر خاموش ہیں۔ کیا پاکستان بھی ایسا کرے؟ آپ کے ملک میں دھماکے کرنے والے مجرم اسلام آباد میں بیٹھے ہوں تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا۔ تو اس پر کافی مثبت ردعمل سامنے آیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ دہشت گردی ہر جگہ دہشت گردی ہی ہے۔ میں کوئی 15 یورپی ارکان پارلیمنٹ سے ملا ہوں۔ ان میں سے دو وائس اسپیکر تھے۔ اٹلی اور جرمنی کے وائس پریذیڈنٹ تھے۔ یورپ میں میرا لائیو ٹی وی ٹاک شو بھی چلا۔ بلجیم میں بھی وائس پریذیڈنٹ سے ملا۔ یعنی وہاں کی پارلیمنٹ کے وائس پریذیڈنٹ۔ ان کو قائل کیا۔ پاکستان آنے کی دعوت بھی دی۔ تو حالات بدلتے ہیں وقت کے ساتھ ۔ اب علیحدگی پسندوں کو آسانی سے سیاسی پناہ نہیں ملے گی۔ جیسے ماضی میں ملا کرتی تھی۔ اب وہ ہم سے بھی تصدیقی لیٹر مانگیں گے۔ ہم بھی دلیل کے ساتھ بتائیں گے کہ یہ شخص پناہ کیوں مانگ رہا ہے؟ تو اب پہلے جیسے حالات نہیں ہیں۔ اب تین بندے رہ گئے ہیں، جن کے گرد ہم گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ (مہران۔ حیربیار اور براہمداغ) یا تو ان کو خاموش (غیر فعال ) کرائیں گے یا پھر قومی دھارے میں لائیں گے۔
س: تو گویا بلوچستان کے نام پر پاکستان کے خلاف مہم چلانے والوں اور ان کے سرپرست بھارت کو کاؤنٹر کرنے کیلئے روس میں آپ کو ایک پلیٹ فارم مل گیا ہے؟
ج: جی، یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔ اس پر بھارتیوں کو اس قدر تکلیف ہے کہ علیحدگی پسندوں سے میری علیحدگی اور پاکستان کی حمایت کے اعلان کے چار دن بعد ایک بھارتی تھنک ٹینک نے بہت بڑا آرٹیکل لکھا۔ جس میں میری واپسی کا ذمہ دارصدر پیوٹن کو قرار دیا گیا۔ میرے پاس وہ آرٹیکل موجود ہے۔ اس کا عنوان تھا Losing Patience ? Is Russia۔ یعنی کیا روس کا صبر جواب دے گیا؟
س: اچھا ڈاکٹر صاحب! علیحدگی پسند تنظیموں کی وجہ سے جو عام معصوم بلوچ دربدر ہوگئے ہیں اور مختلف ملکوں میں مقیم ہیں، ان کی تعداد کیا ہے۔ وہ کس حال میں ہیں۔ کوئی اعداد و شمار ہیں آپ کے پاس؟
ج: جی بالکل ڈیٹا موجود ہے۔ ابتدا میں جب یہ تحریک شروع ہوئی تو 7 سے 8 ہزار بگٹی افغانستان چلے گئے تھے۔ جبکہ 3 ہزار مری بھی نقل مکانی کرگئے تھے۔ مگر ان کی اکثریت کسی نہ کسی طریقے سے واپس آگئی۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں نہ تو افغانستان نے اور نہ ہی اقوام متحدہ نے بطور پنا ہ گزین قبول کیا۔ لہٰذا ان کی حالت بہت خراب ہے۔ وہ بھی واپس آنا چاہتے ہیں، مگر ان کی واپسی کا مناسب انتظام نہیں ہے اور پھر یہ لوگ خوف کا بھی شکار ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو سندھ یا پنجاب چلے گئے۔ وہ بھی واپس جانا چاہتے ہیں۔ مگر ان کے گھر یا تو جلادئیے گئے ہیں یا ان پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ یہ ایشوز اگر حکومت اپنے ذمے لے تو تمام متاثرہ لوگ واپس آکر آباد ہو سکتے ہیں۔
س: آپ نے حکومت کو اس حوالے سے کوئی تجاویز دی ہیں؟یہ بھی بتائیے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے میں حقیقت اور افسانے کا تناسب کیا ہے؟
ج: حکومت سے میرا رابطہ ہے اور میں نے لوگوں کی واپسی کیلئے تجاویز بھی دی ہیں۔ ان کو لاحق خطرات اور مالی مشکلات کی بابت بھی آگاہ کیا ہے۔ اگر منظم حکمت عملی کے تحت کام کیا جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک لاپتہ افراد کا معاملہ ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر ہر کوئی اپنے اعداد و شمار لئے پھر رہا ہے، ماما قدیر بیس ہزار بتا رہا ہے، کوئی دس ہزار کہتا ہے۔ اختر مینگل نے ایک رپورٹ میں پانچ ہزار بتائے ہیں، مگر یہ سب مبالغہ آرائی اور غلط اندازوں پر مشتمل ہیں، اس کا سراسر نقصان لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو ہوتا ہے۔ جبکہ بھارت سمیت دیگر دشمن ان اعداد و شمار کی بنیاد پر بے بنیاد پراپیگنڈا کرتے ہیں اور اصل ایشو بھی مذموم سیاست کی نذر ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں زیادہ سے زیادہ بارہ سو افراد ہوں گے جن کے اہل خانہ واقعی ان کو تلاش کر رہے ہیں، ان کا پتہ چلانے کیلئے ضرور کام کیا جانا چاہیئے۔
س: آپ کے نزدیک بلوچستان کے بڑے مسائل کیا ہیں اور انہیں کس ترتیب سے حل کیا جائے کہ حالات میں نمایاں بہتری لائی جاسکے؟
ج: فوری اور اہم ترین اقدام تو احساس محرومی کو دور کرنا ہے۔ اس کیلئے صرف فنڈز کی فراہمی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگوں کو ہمدردی اور اپنائیت کا احساس دلایا جائے۔ ایف سی کی غیر ضروری چیک پوسٹس ہٹادی جائیں۔کچھ لوگ جو لاپتہ ہیں، انہیں رہا کیا جائے یا عدالت میں پیش کیا جائے۔ یہ فوری اقدامات ہیں۔ بعد میں ترقیاتی اقدامات آتے ہیں۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے یہ ساری چیزیں بتدریج کی جا سکتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان اقدامات سے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
س: آپ تین عشروں سے روس میں مقیم ہیں، جہاں آپ ریاست مخالف پراپیگنڈا بھی کرتے رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں بھی آپ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ اب آپ لکیر کی دوسری جانب کھڑے ہیں۔ جو بہت خوش آئند بات ہے۔ تو تبدیلی کے اس سفر کیلئے ٹرننگ پوائنٹ کیا بنا؟ کب آپ کو احساس ہوا کہ جس راستے پر آپ چل رہے ہیں، وہ تباہی کا ہے؟
ج: میں گزشتہ تین برسوں سے اس جستجو میں تھا۔ میں نے کافی کوشش کی کہ مختلف گروپوں کو متحرک کیا جائے۔ میں نے ایک کانفرنس بلاکر یہ تجویز دی کہ سب بلوچ ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ پھر پاکستان بھی آپ کی بات سنے گا اور دنیا بھی سنے گی۔ لیکن ہر کسی کا اپنا ایجنڈا تھا۔ حیربیار مری براہمداغ کی نہیں سنتا۔ براہمداغ اس کی نہیں سنتا۔ جاوید مینگل ان دونوں کی نہیں سنتا۔ دراصل ان کا طریقہ واردات ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو ایکسپلائٹ کرو۔ یہ چار گروپ بھارت سے پیسے لیتے ہیں اور باقیوں کو بھڑکاتے ہیں۔ ان کو دیتے کچھ نہیں۔ چاروں آپس میں بھی متحد ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ دوسری بات یہ کہ یہ لوگ بھارت کے ہاتھوں میں ایسے بک گئے کہ ہم میں سے کسی کی نہیں سنتے تھے۔ بھارتی حکام انہیں باقاعدہ ڈکٹیٹ کراتے ہیں کہ آپ کی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ کس طرح یہ آرٹیکل لکھنے چاہئیں۔ پاکستان مخالف پراپیگنڈا کس طرح کرنا چاہیے۔ میڈیا کے سامنے کیا بولنا ہے۔ یعنی وہ باقاعدہ لکھ کر دیتے تھے اور یہ طوطے کی طرح پڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کرو، بم دھماکے کرو، ویڈیو ثبوت لائو اور رقم لو۔یہ جو سوشل میڈیا پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا سلسہ ہے، یہ اسی کا حصہ ہے ۔ بھارت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بلوچستان کے ایشو کو اتنا بھڑکایا جائے کہ کشمیر کا مسئلہ دب جائے اور پھر پاکستان کو مجبور کر کے اس نکتے پر لایا جائے کہ ہم بلوچستان کو چھوڑ دیتے ہیں، آپ کشمیر کو چھوڑ دو۔ مگر بھارت کا یہ خواب انشاء اللہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ میری بھارتیوں سے کئی بار بات ہوئی۔ وہ بلوچستان کو آزاد کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کا مقصد اپنے کارندوں کے ذریعے اس ایشو کو ایکسپلائٹ کرنا ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ جو علیحدگی پسند بلوچ بھارت کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں، ان کو بھی بلوچوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ پھر میں نے یہ طے کیا کہ ریاست کے ساتھ مل کر بلوچوں کے مسائل حل کئے جائیں۔ انہیں آباد کیا جائے۔ تعلیم دی جائے۔ بات چیت کے ذریعے ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ باقی پاکستانی بھی ہمارے جیسے ہی ہیں۔ اپنے گھر کو توڑنے سے کیا فائدہ۔ یہ جو آزادی کے نعرے ہیں، یہ محض ہوائی باتیں ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے میں نے یہ راستہ اختیار کیا۔
س: بھارت کی بلوچستان میں مداخلت اب ایک کھلا راز ہے۔ وہ علیحدگی پسندوں کو مسلح کرنے کیلئے فنڈنگ بھی کرتا ہے۔ فری بلوچستان موومنٹ کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ کیا ہمارے پاس بھارت کے خلاف اس قدر ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ہم اس معاملے کو عالمی عدالت میں لے جاسکیں؟
ج: جی، بھارت نے پاکستان مخالف تحریک کیلئے 10 ملین ڈالر کی خطیر رقم دی ہے۔بڑی رقوم تو لیڈر کھا جاتے ہیں، ریاست کے خلاف لڑنے والے فٹ سولجرز کو پانچ دس،بیس ہزار پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ رقوم حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے منتقل کی جاتی ہیں۔ پاکستان کے پاس ثبوت بہت ہیں۔ ہمیں ہر موقع پر بھارت کو کاؤنٹر کرنا چاہیے۔ معاملہ عالمی عدالت میں لے جایا جاسکتا ہے۔ کل بھوشن نے بھی پاکستانی اداروں کو کافی ثبوت فراہم کر دیئے ہیں۔ علیحدگی پسند بلوچوں کے خلاف بھی بہت سارے شواہد موجود ہیں۔ پاکستان کا یہ حق ہے کہ وہ عالمی عدالت جائے، جہاں ہم اپنا مقدمہ جیت سکتے ہیں۔
س: ڈاکٹر صاحب! آپ نے بچپن تو بلوچستان میں ہی گزارا۔ تعلیم کن حالات میں حاصل کی۔ میڈیکل کی ڈگری کیسے لی۔ کچھ تفصیل بتائیے۔
ج: میں تین برس کا تھا، جب بلوچستان میں پہلی مزاحمت (insurgency) شروع ہوئی۔ جس کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا۔ 73ء والی مزاحمت کو میرے والد ہزار خان مری نے لیڈ کیا۔ ہم کراچی اور حیدرآباد میں روپوش رہے۔ اس روپوشی کے دوران ہی میں نے اسکول کی تعلیم شروع کی۔ 78ء میں ہم کابل چلے گئے۔ وہاں پہلے امریکی اسکول میں پڑھتا رہا۔ وہ بند ہوگیا تو اطالوی اسکول میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد بھارتی سفارتخانے کا اسکول رہ گیا، جو بہت بڑا اسکول تھا۔ اس میں داخلہ لیا۔ وہیں سے میں نے ایف ایس سی کیا۔ اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 86ء میں ماسکو آگیا۔ تب سے میں یہاں مقیم ہوں۔ پہلے میں نے ایم ڈی کی، پھر پی ایچ ڈی کیا۔ پھر روسی اسپتالوں میں میڈیکل پریکٹس کی۔ اس کے بعد میں پاکستان گیا، جہاں پی ایم ڈی سی کا امتحان دیا۔ سوچا کہ اپنے وطن میں کام کریں گے۔ تب نواز شریف کی حکومت تھی۔ بتایا گیا کہ ایک سال کیلئے ملازمتوں پر پابندی ہے۔ حالانکہ پمز اور جناح اسپتال دونوں نے مجھے آفر کی کہ ان کے ہاں ڈپارٹمنٹ کھول لوں، کیونکہ میں پاکستان میں واحد شخص ہوں، جس نے الرجی اینڈ امیونولوجی (allergy and immunulogy) میں پی ایچ ڈی کی ہے، جس کی پاکستان میں اشد ضرورت بھی ہے۔ عام پریکٹس والے ڈاکٹر موجود ہیں، مگر پی ایچ ڈی اور اسپیشلسٹ اس لیول کا نہیں تھا۔ مگر ملازمتوں پر پابندی آڑے آگئی۔ پھر میں واپس آگیا۔ مشرف کے آنے کے بعد بلوچستان کے حالات پھر خراب ہونے لگے۔ ہم سیاسی طور پر پہلے ہی چارجڈ تھے۔ لہٰذا ہم بلوچ تحریک میں فعال ہوگئے۔ بھارتی بھی ہم سے ملتے رہے۔ انہوں نے مزید ایکٹویٹ کیا۔ پھر آخرکار ہماری آنکھیں کھل گئیں کہ یہ تحریک نہیں بلکہ بزنس ہے۔ بھارت سیاسی ایشوز کو ہائی لائٹ کرتا ہے اور ہمارے کچھ بلوچ لیڈر پیسے کی خاطر کھلونا بنے ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ پیسہ لے کر کتنا عرصہ چلاؤ گے۔ کسی بے گناہ کی جان لینا، بم دھماکے کرنا، کل اللہ کو بھی جواب دینا ہے۔ بس اللہ نے ہمت دی اور میں نے راستہ بدل لیا۔ آج آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔
س: آپ کے خلاف باقاعدہ مقدمات وغیرہ تھے؟
ج: مقدمات تھے۔ غداری کا مقدمہ بھی تھا۔ مشرف یہاں آئے تو مجھے بلایا۔ میں نہیں گیا۔ وہ برہم ہوگئے۔ واپس جا کر روسی حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجھے ڈی پورٹ کیا جائے۔ روسی حکومت نے مجھے بیک ڈیٹ میں سیاسی پناہ دے دی اور ڈی پورٹ کرنے سے معذر ت کرلی۔
س: تو نواز شریف کے دور میں جب آپ پاکستان گئے تھے ملازمت کیلئے، اس وقت آپ کلیئر تھے؟
ج: جی، اس وقت کلیئر تھا۔ ہمارے لوگ 90ء کی دہائی میں جب واپس گئے تو اس بنیاد پر گئے تھے کہ اس سے پہلے جو کچھ ہوا، اسے بھلا کر آگے بڑھا جائے۔ اس دوران مری قبائل کو کوئی 9 کروڑ روپے ملے تھے۔ وہ خیر بخش مری لے گئے۔ میرے والد نے اس وقت بے نظیر حکومت سے مری قبائل کیلئے لیویز میں 3 ہزار ملازمتیں لیں۔ میرے والد 73ء کی مزاحمت کے لیڈر تھے۔ خیر بخش مری سیاسی محاذ پر تھے۔ پہاڑوں پر مزاحمت میرے والد نے کی۔ تکالیف ہمارے خاندان نے جھیلیں۔ وہ (خیر بخش مری) جیل گیا۔ اس کی فیملی کوئٹہ میں رہتی تھی۔
س: برسبیل تذکرہ۔ یہ نجم سیٹھی جو کہتے ہیں کہ میں بلوچستان میں لڑا ہوں؟
ج: جی ٹھیک کہتے ہیں۔ دراصل اس زمانے میں ہماری مزاحمت کو لیڈ کرنے والے اور آئیڈیا دینے والے پنجابی تھے۔ ان میں نجم سیٹھی، احمد رشید، راشد رشید (صحافی) اور دیگر شامل ہیں۔ اس وقت نظریاتی طور پر یہ لوگ لیڈ کر رہے تھے۔ اب نظریاتی طور پر ہندوستان لیڈ کر رہا ہے۔
س: سنا ہے آپ اپنی سوانح حیات بھی لکھ رہے ہیں؟
ج: میری کوشش ہے کہ جو بھی مجھ پر گزری اسے کتاب کی شکل دی جائے۔ تاکہ نئی نسل کو آگاہی مل سکے۔ بھارت کا کردار بھی اس میں بیان کروں گا۔
س: عام بلوچوں اور نوجوانوں کیلئے پیغام؟
ج: بس یہی کہ اپنے ملک کو آباد کرو۔ اپنی تعلیم پر توجہ دو۔ جب آپ خود کو develop کروگے تو صوبہ بھی ترقی کرے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment