امت رپورٹ
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی کا تختہ الٹنے کا ٹاسک سی آئی اے کو دے رکھا ہے۔ انٹیلی جنس اداروں سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس تہران میں ہونے والا داعش کا حملہ ہو یا اھواز میں دہشت گردی کی تازہ کارروائی۔ ان سب کے پیچھے امریکہ ہے، جس کے لئے وہ اپنی ایران مخالف پراکسی تنظیمیں استعمال کر رہا ہے۔
ایران کے جنوبی شہر اھواز میں ہفتے کے روز ایک فوجی پریڈ کے دوران مسلح دہشت گردوں کی فائرنگ سے 24 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے۔ جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ حملہ آوروں نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بجے اس وقت شروع ہوا، جب عراق کے ساتھ جنگ کی 38 ویں سالگرہ کے سلسلہ میں تقریب جاری تھی۔ حملے کی ذمہ داری حکومت مخالف عرب گروپ ’’اھواز نیشنل ریسسٹنٹ‘‘ نے قبول کی ہے۔ جبکہ ایرانی وزیر جواد ظریف نے کہا ہے کہ حملہ آوروں کو غیر ملکی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ دہشت گردوں کو تربیت، اخراجات اور اسلحہ بھی اسی بیرونی ملک نے فراہم کیا۔
اھواز، عراقی سرحد کے ساتھ لگنے والے ایرانی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے۔ خوزستان کے مغربی حصے میں پچھلی کئی دہائیوں سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ اس میں کئی مقامی عرب شدت پسند گروپ شامل ہیں۔ جو اپنی الگ عرب ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اھواز میں حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ تین برس سے اھواز اور اس کے گرد و نواح میں مظاہروں اور حملوں کا سلسلہ بڑھا ہے۔ 2015ء میں تین ایرانی افسروں کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 2016ء کے وسط میں ’’صقور الااھواز‘‘ نامی ایک سنی گروپ نے بوعلی سینا کمپلیکس دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اسی برس اھواز نیشنل مزاحمتی گروپ کے الفاروق گروپ نے گیس پائپ لائن کو اڑایا۔
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اس وقت امریکی سی آئی اے ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ یہ ٹاسک گزشتہ برس اسے ٹرمپ انتظامیہ نے دیا تھا۔ اس سارے معاملے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد کٹر امریکہ اور اسرائیل مخالف تھے۔ امام خمینی کے بعد امریکہ و اسرائیل کے خلاف سب سے سخت موقف احمدی نژاد کا ہی رہا۔ حتیٰ کہ انہوں نے ہولوکاسٹ کو بھی ڈھکوسلہ قرار دیا اور اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کیں۔ دوسری جانب انہوں نے تمام تر دبائو اور پابندیوں کے باوجود ایرانی نیو کلیئر اور میزائل پروگرام جاری رکھا۔ انٹیلی جنس ذرائع کے بقول اسرائیل اپنے لئے احمدی نژاد کو حقیقی خطرہ محسوس کرنے لگا تھا۔ لہٰذا اس کی خواہش پر احمدی نژاد کا تختہ الٹنے کے لئے سی آئی اے کو میدان میں لایا گیا۔ اس خفیہ آپریشن کے لئے کروڑوں ڈالر کے فنڈز مختص کئے گئے۔ ابتدائی طور پر سی آئی اے ناکام رہی تاہم 2013ء میں جا کر اسے بالآخر کامیابی مل گئی۔ الیکشن میں موجودہ اصلاح پسند ایرانی صدر حسن روحانی کی درپردہ سپورٹ کی گئی۔ حسن روحانی کے اقتدار سنبھالنے کے تقریباً دو برس بعد امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ ایران کی ڈیل ہو گئی، اور اس کے ساتھ ہی ایران پر لگی پابندیوں کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ یہ ڈیل اوبامہ انتظامیہ نے کی تھی۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی ڈیل میں شامل تھے۔ جبکہ چین اور روس نے آبزرور کے طور پر دستخط کئے۔ ذرائع کے مطابق اس ڈیل کے بعد خطے میں سارا نقشہ بدل گیا۔ بالخصوص اسرائیل اس ڈیل کا سب سے بڑا مخالف تھا۔ جب یہ ڈیل ہو رہی تھی تو اس سلسلے میں واشنگٹن میں ہونے والے جوائنٹ سیشن میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اوباما کی موجودگی میں ڈیل پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے موجودہ صدی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ نیتن یاہو کا دعویٰ تھا کہ ایران کبھی بھی اپنا نیو کلیئر پروگرام رول بیک نہیں کرے گا۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ڈیل ختم کر دی جائے۔ تاہم اسرائیل کے تحفظات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اوباما انتظامیہ ڈیل پر قائم رہی اور اس حوالے سے جان کیری نے اہم کردار ادا کیا۔ اس ڈیل سے ایران کو بڑا فائدہ ہوا۔ چار نوعیت کی پابندیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اگر چہ ایران سے چین اور روس تیل خرید رہے تھے تاہم پابندیوں نے ایران کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ افراط زر میں حد درجہ اضافہ ہو چکا تھا۔ پابندیوں کے خاتمے سے بیرون ممالک میں ایران کا منجمد پیسہ بحال ہو گیا۔ یورپی یونین نے ایران کے لئے اپنی مارکیٹ کھول دی۔ تاہم ذرائع کے مطابق چونکہ اسرائیل اس ڈیل پر خوش نہیں تھا لہٰذا ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی صورتحال تبدیل ہو گئی، جنہیں لانے کے لئے یہودی لابی نے اپنے وسائل استعمال کئے۔ اسرائیلی خواہشات پر ٹرمپ انتظامیہ نے یکطرفہ طور پر ایران سے ڈیل ختم کی جبکہ ڈیل کے دیگر فریقین برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ تکنیکی طور پر ٹرمپ انتظامیہ اس ڈیل کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتی کہ اس میں دوسرے یورپی ممالک بھی اس کے ساتھ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے ٹرمپ انتظامیہ کا موقف مسترد کر کے اب بھی ایران کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ایران نے کہا ہے کہ جس روز یورپی ممالک بھی امریکہ کے ساتھ مل گئے تو پھر وہ اپنا نیوکلیئر پروگرام دوبارہ شروع کر دے گا۔ ذرائع کے مطابق یہودی لابی کی طرف سے ٹرمپ کو اقتدار میں لانے کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑا مقصد اس ڈیل کو ختم کرانا بھی تھا۔ اسرائیل نے اس کے لئے جواز یہ بنایا کہ نیوکلیئر پروگرام کے ساتھ ایران کے میزائل پروگرام پر بھی پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اسرائیل کو ایران کے میزائل پروگرام سے بھی بہت زیادہ خوف ہے، جو ایران نے روس کی مدد سے مضبوط بنا لیا ہے۔ بعد ازاں ٹرمپ انتظامیہ نے اسی اسرائیلی موقف کو اپنایا۔ لیکن ایران کی موجودہ حکومت نے میزائل پروگرام رول بیک کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کو امید نہیں تھی کہ ماڈریٹ تصور کئے جانے والے حسن روحانی بھی احمدی نژاد کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے، جنہیں اوباما انتظامیہ ’’اپنا آدمی‘‘ قرار دیتی تھی۔ ذرائع کے مطابق اس وقت ٹرمپ انتظامیہ نے حسن روحانی کی حکومت تبدیل کرانے کے لئے بھی وہی طریقہ اختیار کیا ہے، جو احمدی نژاد کو اقتدار سے باہر کرنے کی خاطر اپنایا گیا تھا۔ سی آئی اے کو حسن روحانی کی حکومت تبدیل کرانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس کے لئے بھی کروڑوں ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ یہ فنڈز ایران میں حکومت مخالف عناصر میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ایران کے مختلف علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ’’پراکسی وار‘‘ بھی شروع کی گئی ہے۔ اس کے لئے پچھلی بار احمدی نژاد کی حکومت کے خلاف جند اللہ کو استعمال کیا گیا تھا۔ اس بار داعش اور علیحدگی پسند اھواز مزاحمتی گروپوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور یہ کہ مستقبل میں یہ سلسلہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ گزشتہ برس جون میں ایرانی پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ جس میں 12 افراد جاں بحق اور 42 زخمی ہو گئے تھے۔ داعش کا ایران میں یہ پہلا حملہ تھا۔ جبکہ ایران کے طاقتور عسکری دستے پاسداران انقلاب نے ان حملوں کی ذمہ داری سعودی عرب اور امریکہ پر عائد کی تھی۔
٭٭٭٭٭