قسط نمبر10
سید ارتضی علی کرمانی
حضرت صدیق اکبرؓ کی اولاد سے تابعین میں حضرت قاسمؒ اپنے وقت کی ایک نہایت ہی ممتاز شخصیت تھے۔ ان کو امام بخاریؒ نے اپنے زمانے کے فاضل ترین حضرات میں شمار کیا ہے۔ مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ قرون وسطیٰ میں حضرت شیخ الشیویخ شہاب الدین سہروردیؒ اور مولانا جلال الدین رومیؒ اور متاخرین میں مجدد طریقت حضرت کلیم اللہ جہاں آبادیؒ، حضرت خواجہ نظام الدینؒ ان کی اولاد ہیں۔
حضرت فاروق اعظمؓ کی اولاد سے قرون اولیٰ میں حضرت ابراہیم ادہمؒ بلخی جو خود کئی سلسلوں کے پیشوا تھے اور قرون وسطیٰ اور متاخرین میں حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت صوفی حمید الدین ناگوریؒ، حضرت شیخ نجم الدین کبریؒ، حصرت خواجہ نصیر الدین محمودؒ چراغ دہلوی، حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہیؒ، امام ربانی حضرت احمد مجدد الف ثانیؒ، حضرت شیخ سلیم چشتیؒ اور ہندوستان کا مشہور خانوادہ جس میں آپ کے بعد دیگر عظیم الشان علمائے حق پیدا ہوئے، یعنی ولی اللہی اور علمائے خیر آبادی۔
سیدنا عثمان غنیؓ کی اولاد سے پانی پت میں مشہور زمانہ ولی حضرت شیخ جلال الدینؒ کبیر الاولیاء اور مشہور محقق جناب قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ گزرے ہیں۔
درج بالا سطور میں آپ ملاحظہ فرمائیے کہ اپنے اجداد پر فخر کرنا بڑے بڑے لوگوں کا حق رہا ہے۔ بعض لوگ فقط حسب یعنی اپنے ذاتی کمالات کو ہی شرف اور کمال گردانتے ہیں اور نسب یعنی خاندانی شرافت کی فضیلت کو اہم سمجھتے۔ مگر میرے خیال میں اور اکابرین کے نزدیک نسب کا شرف دیگر مذاہب میں بالعموم اور دین اسلام میں خاص طور پر قابل احترام ہے۔
اسلاف اور آبائو اجداد کی شرافت اولاد کیلئے دنیا اور آخرت میں مسلمہ طور پر باعث عزت ہے۔ جبکہ اقوام عالم میں بھی اسی کو افضل خیال کیا جاتا ہے۔ کلام الٰہی میں اس کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ جب حضرت موسیٰؑ نے حضرت خضرؑ سے دیوار بنانے کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ کو معلوم ہوا کہ اس بچے کا باپ ایک صالح شخص تھا۔ یہ واقعہ سورئہ کہف کی آیات 82 میں ملاحظہ فرمائیں۔
اب آئیے دیکھیں کہ اہل بیت اطہار سے محبت کیلئے کلام الٰہی میں کیا نازل ہوا ہے۔
ترجمہ: ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے، وہ جنت کے باغوں میں ہوں گے ان کیلئے ان کے پروردگار کے ہاں وہ سب کچھ ہے جس کی وہ خواہش کریں گے۔ یہ بڑے فضل و بزرگی کی بات ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی خدا تعالیٰ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے۔ جنہوں نے ایمان لاکر نیک کام کئے۔ کہہ دیجئے، میں تم سے اس چیز کا کوئی اجر نہیں مانگتا، بجز اہل قرابت کی دوستی کے۔‘‘ (سورۃ شوریٰ 23,22)
علامہ صاویؒ ابن جبیرؒ، سری سقطیؒ، عمر بن شعیبؒ جیسے اکابرین امت اور تابعین نے اس آیت مبارکہ کو یہی تغیر نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے اہل بیت رسول کریمؐ کی محبت واجب ہونا مراد ہے۔ علامہ سیوطیؒ نے بھی ’’درمنثور‘‘ میں کئی محدثین کے حوالوں سے حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر صحابہ کرامؓ نے آنحضرتؐ سے عرض کیا کہ آپ کے وہ کون ہیں جن کیلئے قرابت داری کا خواہش مند ہے۔
آنحضرتؐ نے ان چاروں کا نام لیا۔ حضرت علیؓ، فاطمۃ الزہراؓ، حسنین کریمینؓ کا ذکر فرمایا۔ ان چار ہستیوں کا اس لئے ذکر فرمایا، کیونکہ اس وقت حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ بچے تھے۔ ان کی اولاد کوئی نہ تھی۔ مفسرین اور اکابرین کے نزدیک اس آیت مبارک کی رو سے آنحضرتؐ کی تمام امت پر اہل بیت اطہار کی محبت لازمی ہوگئی۔ اس سلسلے میں مسلم، ترمذی، نسائی، طبرانی، حاکم، بیہقی اور ابن حبان و غیرہ نے تواتر کے ساتھ احادیث مبارکہ رقم فرمائی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک روایت بڑی معروف ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ نے سیدنا ابن عمرؓ سے کہا کہ تم ہمارے غلام کے بیٹے ہو۔ سیدنا ابن عمرؓ نے جاکر امیرالمومنین عمر بن خطابؓ سے شکایتاً کہا۔ سیدنا عمرؓ بن خطاب نے فرمایا جلدی جائو اور کسی چیز پر لکھوا لائو۔ بروز قیامت کام آئے گا۔
یہی طرز عمل خلفائے ثلاثہ کا اپنے تمام ادوار میں جاری رہا اور انہوں نے اہل بیت نبیؐ سے اپنی محبت کو سب پر عیاں کیا۔ آج کل صورتحال بہت زیادہ بگڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اہل بیت اطہار تو بہت بلند درجہ ہستیاں ہیں۔ حضرت سید مہر علی شاہ صاحب تو نبیؐ سے اپنی محبت کا اظہار یوں فرماتے ہیں کہ
ہوواں میں سگ، مدینے دی گلی دا
ایہو رتبہ ہے ہر کامل ولی دا
تو جناب آپ خیال فرمائیں کہ پھر اولیائے کرام اہل بیت سے کس قدرمحبت کرتے ہوں گے۔ جو خود کو مدینہ طیبہ کا سگ خیال کریں۔ ان کیلئے اہل بیت اطہار کی کس قدر عزت اور عظمت ہوگی۔ اس کا یہ مطلب تو ہر گز ہر گز نہیں کہ اولیائے عظام کا تعلق کسی خاص فرقے سے تھا۔
درج بالا سطور میں سادات کی عزت اس لئے بیان کردی گئی ہے کہ بعض افراد حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کے متعلق یہ مشہور کرتے رہتے تھے کہ آپ سید نہیں۔ اس سلسلہ میں آپؒ نے اپنی تحریر سے یہ ثابت فرمایا کہ آپ سید تھے، بلکہ نجیب الطرفین سید تھے اور یہ شرف کوئی معمولی شرف تو نہیں ہے۔ یہ شرف ہر کس و ناکس کو تو مل نہیں سکتا۔ اس مضمون کی ابتداء میں جو تحریر آپ نے ملاحظہ فرمائی ہے، اس سے ایک بات تو نہایت وضاحت سے سامنے آرہی ہے کہ آپ نے مکمل تحقیق کے بعد اپنے آپ کو اس نسل کے ساتھ منسوب فرمایا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے کمالات کسبیہ کو کسر نفسی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یعنی حضرت صاحبؒ کے نزدیک ان کے اپنے کمالات کی اس قدر حیثیت نہیں جس قدر اہل بیت اطہار سے نسبت کی ہے۔
ایک مرتبہ آپ کا قافلہ دوران سفر مدینہ طیبہ وادی حمرا میں رات گزارنے کیلئے ٹھہرا۔ بدئووں کے حملے اور قافلے والوں کے خوف وہراس اور اضطراب کی وجہ سے حضرت صاحب نماز عشاء کی ابتدائی سنتیں ادا نہ کرسکے تو خواب میں آنحضرتؐ کی زیارت پاک نصیب ہوئی۔ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ آل رسول کو سنت ترک نہیں کرنا چاہئے۔ یعنی اس قوی ثبوت سے بڑھ کر حضرت صاحب کی سیادت کا اور بھلا کیا ہوسکتا ہے۔(جاری ہے)