انڈین ہاکی اسٹار کا قبول اسلام

حصہ سوم
سعدیہ نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ تمہاری صلاحیتیں فطرت سے میل کھانے والے کاموں میں لگیں، میں تم سے ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں۔
میں نے کہا آپ میرے کھیل کے انداز سے متاثر ہیں اور مجھ سے کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں، میں آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سے ملنے آئی ہوں کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہوکر آپ نے کیوں ہاکی چھوڑ دی؟ میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں۔
سعدیہ نے کہا کہ اچھا آج رات کو ڈنر میرے ساتھ کرلو، میں نے کہا آج تو نہیں، کل ہو سکتا ہے، ڈنر طے ہوگیا، میں اس کے گھر پہنچی، تو سعدیہ نے اپنے قبول اسلام کی روداد مجھے سنائی اور بتایا کہ میں نے شادی کیلئے اسلام قبول نہیں کیا، بلکہ اپنی شرم، عصمت اور عزت کی حفاظت کیلئے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کیلئے شادی کی ہے۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی، بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی، اس نے فون کرکے دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کو بلایا، جو ان کے محلہ میں رہتی تھیں اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئی تھیں۔
وہ مجھے سب سے زیادہ اسلام کے پردہ کے حکم کی خیر بتاتی رہیں اور بہت اصرار کرکے مجھے برقع پہن کر باہر جا کر آنے کو کہا۔ میں نے برقع پہنا، ڈنمارک کے بالکل مخالف ماحول میں، میں نے برقع پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر وہ برقع میرے دل میں اتر گیا، بیان نہیں کر سکتی کہ میں نے مذاق اڑانے یا زیادہ سے زیادہ اس کی خواہش کیلئے برقع پہنا تھا، مگر مجھے اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا۔
اب مجھے اپنے کوچ کی بے شرمانہ شہوانی چٹکیوں سے گھن بھی آرہی تھی، میں نے برقع اتارا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھے واقعی برقع پہن کر بہت اچھا لگا، مگر آج کے ماحول میں جب برقع پر مغربی ممالک میں پابندی لگائی جا رہی ہے، برقع پہننا کیسے ممکن ہے؟ اور غیر مسلم کا برقع پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں۔ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتی رہیں اور بہت اصرار کرتی رہیں، میں نے معذرت کی کہ میں اس حال میں نہیں ہوں، ابھی مجھے دنیا کی نمبر ون کھلاڑی بننا ہے، میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا۔
سعدیہ نے کہا مجھے آپ کو ہاکی کی فیلڈ سے برقع میں لانا ہے، میں نے اپنے رب سے دعا بھی کی ہے اور بہت ضد کرکے دعا کی ہے، اس کے بعد ہم دس روز تک ڈنمارک میں رہے، وہ مجھے فون کرتی رہی، دو بار ہوٹل میں ملنے آئی اور مجھے اسلام پر کتابیں دے کر گئی۔
میں انڈیا واپس آئی، ہمارے یہاں نریلا کے پاس ایک گاؤں کی ایک لڑکی (جس کے والد سن 77ء میں ہندو ہوگئے تھے اور بعد میں مولانا کلیم صاحب کے ہاتھوں پھر مسلمان ہوگئے تھے) ہاکی کھیلتی تھی، وہ ریاست دہلی کی ہاکی ٹیم میں تھی اور انڈیا کی طرف سے سلیکشن کے بعد روس میں کھیلنے جانے والی تھی، مجھ سے مشورہ اور کھیل کے انداز میں رہنمائی کیلئے میرے پاس آئی۔
میں نے اس سے ڈنمارک کی مشہور کھلاڑی بریٹنی کا ذکر کیا، اس نے اپنے والد صاحب کو ساری بات بتائی، وہ اپنی لڑکے کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے اور مجھے مولانا کلیم صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت‘‘ اور ’’اسلام ایک پریچے‘‘ دی۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment