مظلوم کربلا کی بددعا کا اثر

آخری حصہ
قاتلان حسینؓ طرح طرح کی آفات ارضی و سماوی کا ایک سلسلہ تو تھا ہی۔ واقعہ شہادت سے پانچ ہی سال بعد (سن 66ھ) میں مختار ثقفی نے قاتلان حسینؓ سے قصاص لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو عام مسلمان اس کے ساتھ ہو گئے اور تھوڑے عرصہ میں اس کو یہ قوت حاصل ہو گئی کہ کوفہ اور عراق پر اس کا تسلط ہو گیا، اس نے اعلان عام کر دیا کہ قاتلان حسینؓ کے سوا سب کو امن دیا جاتا ہے اور قاتلان حسینؓ کی تفتیش و تلاش پر پوری قوت خرچ کی اور ایک ایک کو گرفتار کر کے قتل کیا، ایک روز میں دو سو اڑتالیس آدمی اس جرم میں قتل کئے گئے کہ وہ قتل حسینؓ میں شریک تھے۔ اس کے بعد خاص لوگوں کی تلاش اور گرفتاری شروع ہوئی۔
عمرو بن حجاج زبیدی پیاس اور گرمی میں بھاگا، پیاس کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر پڑا، ذبح کر دیا گیا۔
شمر ذی الجوشن جو حضرت حسینؓ کے بارے میں سب سے زیادہ شقی اور سخت تھا، اس کو قتل کر کے لاش کتوں کے سامنے ڈال دی گئی۔
ابن اسید جہنی، مالک بن بشیر بدی، حمل بن مالک کا محاصرہ کر لیا گیا، انہوں نے رحم کی درخواست کی۔ مختار نے کہا، ظالمو! تم نے نواسہ رسولؐ پر رحم نہ کھایا، تم پر کیسے رحم کیا جائے، سب کو قتل کیا گیا اور مالک بن بشیر نے حضرت حسینؓ کی ٹوپی اٹھائی تھی، اس کے دونوں ہاتھ پیر قطع کر کے میدان میں ڈال دیا، تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
عثمان بن خالد اور بشر بن شمیط نے مسلم بن عقیلؓ کے قتل میں اعانت کی تھی، ان کو قتل کر کے جلا دیا گیا۔
عمرو بن سعد جو حضرت حسینؓ کے مقابلے میں لشکر کی کمان کررہا تھا، اس کو قتل کر کے اس کا سر مختار کے سامنے لایا گیا اور مختار نے اس کے لڑکے حفص کو پہلے سے اپنے دربار میں بٹھا رکھا تھا، جب یہ سر مجلس میں آیا تو مختار نے حفص سے کہا تو جانتا ہے، یہ سر کس کا ہے؟ اس نے کہا ہاں اور اس کے بعد مجھے بھی اپنی زندگی پسند نہیں۔ اس کو بھی قتل کر دیا گیا اور مختار نے کہا کہ عمرو بن سعد کا قتل تو حسینؓ کے بدلہ میں ہے اور حفص کا قتل علی بن حسینؓ کے بدلہ میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پھر بھی برابری نہیں ہوئی اگر میں تین چوتھائی قریش کو بدلہ میں قتل کر دوں تو حضرت حسینؓ کی ایک انگلی کا بھی بدلہ نہیں ہو سکتا۔
حکیم بن طفیل جس نے حضرت حسینؓ کے تیر مارا تھا، اس کا بدن تیروں سے چھلنی کر دیا گیا، اسی میں ہلاک ہوا۔
زید بن رفاد نے حضرت حسینؓ کے بھتیجے مسلم بن عقیلؓ کے صاحب زادے عبداللہؓ کے تیر مارا، اس نے ہاتھ سے اپنی پیشانی چھپائی، تیر پیشانی پر لگا اور ہاتھ پیشانی کے ساتھ بندھ گیا اس کو گرفتار کر کے اول اس پر تیر اور پتھر برسائے گئے پھر زندہ جلا دیا گیا۔
سنان بن انس جس نے سر مبارک کاٹنے کا اقدام کیا تھا کوفہ سے بھاگ گیا، اس کا گھر منہدم کر دیا گیا۔
قاتلان حسینؓ کا یہ عبرتناک انجام معلوم کر کے بے ساختہ یہ آیت زبان پر آتی ہے:
ترجمہ: ’’عذاب ایسا ہی ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب اس سے بڑا ہے، کاش وہ سمجھ لیتے۔‘‘
عبدربہؒ کا بیان ہے کہ جب حضرت حسینؓ کو اسلحہ سے ظلم کا نشانہ بنایا گیا، اس وقت آپ نے فرمایا کہ کیا تم میری ایسی پیشکش بھی قبول نہیں کرتے، جو رسول اکرمؐ مشرکین کی بھی قبول فرماتے تھے؟ لشکر دشمن نے کہا کہ آپؐ مشرکین کی کونسی پیشکش قبول کرتے تھے؟
آپؓ نے فرمایا: جب ان (مقابل میں موجود مشرکین) میں سے کوئی صلح کی پیشکش کرتا قبول کی جاتی۔ دشمن نے کہا: یہ بھی ہمیں قبول نہیں۔ آپؓ نے فرمایا: پھر مجھے صرف واپس جانے دو۔ دشمن نے کہا یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ آپؓ نے کہا پھر مجھے چھوڑ دو، تاکہ میں یزید کے پاس حاضر ہو جائوں۔ اتنے میں لشکر کے ایک آدمی نے آپؓ پر حملہ کر دیا اور کہا: (العیاذ باللہ) جہنم کی بشارت لے لو۔ آپؓ نے فرمایا: کبھی نہیں، بلکہ انشاء اللہ میرے رب کی رحمت اور نانا جانؐ کی شفاعت کی بشارت ہے۔ اس طرح آپؓ کو شہید کر دیا گیا اور آپؓ کے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھ کر ابن زیاد کے سامنے رکھا گیا تو اس نے چھڑی سے اس کو کریدا اور کہا کہ بڑا خوب صورت لڑکا تھا پھر پوچھا کہ تم میں سے کس نے اس کو قتل کیا؟ وہ آدمی کھڑا ہوا اور کہا کہ میں نے قتل کیا۔ ابن زیاد نے کہا اس وقت اس نے کیا کہا؟ اس نے اپنا اور حضرت حسینؓ دونوں کا کلام دہرایا اسی وقت اس کا چہرہ کالا ہو گیا۔ (تاریخ ابن عساکر 220/14 سیراعلام النبلا۷311-301/3 بغیۃ الطلب لابن العدیم 2616/6)

Comments (0)
Add Comment