کرتار پور گردوارے کی چند روایات پر سکھ زائرین معترض

محمد زبیر خان
سکھوں کی ایک بڑی تعداد کو گردوارہ دربار صاحب کرتار پور میں بابا گرو نانک کی مختلف روایات اور نشانیوں پر اعتراضات ہیں اور وہ ان کو خلاف واقعہ سمجھتے ہیں۔ اکثر سکھ رہنمائوں کی رائے ہے کہ ’’سری کھو صاحب‘‘ نامی کنواں جو دربار صاحب کے احاطے میں ہے، اس کا بابا نانک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بابا نانک کھیتی باڑی کیلئے علاقے میں موجود ایک نہر جو اب بھی موجود ہے، اس کا پانی استعمال کرتے تھے۔
سکھ مذہب کے بانی گرو بابا نانک کی پیدائش نناکانہ صاحب میں ہوئی اور وفات کے بارے میں سکھ کہتے ہیں کہ وہ دنیا سے پردہ کرگئے ہیں اور اس کیلئے ’’جوتی جوت‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جائے وفات کرتار پور ناروال کا سرحدی علاقہ ہے۔ کرتار پور ناروال کے بارے میں تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ گرو نانک اس مقام پر وفات پا گئے تھے (یا سکھوں کے عقیدہ کے مطابق جوتی جوت کرگئے تھے)۔ اس مقام پر موجود گردوارہ دربار صاحب میں موجود مختلف روایات کے حوالے سے سکھوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ دربار کے داخلی مقام پر واقع کنواں ’’سری کھو صاحب‘‘ کے حوالے سے دربار صاحب میں نشانیاں لگائی گئیں ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ کنواں بابا نانک کا ہے اور اس سے وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے تین روزہ تقریبات کے دوران موجود لاہور کے سکھ رہنما کرن سنگھ آزاد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ بات خلاف حقیقت ہے کہ اس کنویں کا بابا نانک سے کوئی تعلق ہے۔ بلکہ یہ کنواں بعد میں کھودا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا نانک کا دور اتنا آسان نہیں تھا، بلکہ اس وقت یہ سب سہولتیں نہیں تھیں اور زندگی آج کے دور سے مشکل تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا نانک کے دور میں یہ کنواں موجود نہیں تھا، بلکہ بعد میں کسی نے یہ کنواں کھدوایا اور غلط فہمی کی بنا پر اس کو بابا نانک سے منسوب کیا جاتا ہے۔ بابا نانک اس زمانے میں اپنے کھیتیوں کو سیراب کرنے کے لئے قریب میں موجود ایک نہر کا پانی اور بارشوںکا پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں کرن سنگھ کا کہنا تھا کہ اب اس بارے میں یہ بتانا تھوڑا مشکل ہے کہ کنواں کس دور میں کھودا گیا اور کس نے کھدوایا تھا؟ مگر اس کی بھی اہمیت موجود ہے۔ کیونکہ یقینی طور پر یہ کنواں بھی کسی بزرگ ہی نے کھدوایا تھا۔ یہ کنواں عوام کو سیراب کر رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا پانی کبھی خشک ہونے کی کوئی اطلاع موجود نہیں رہی ہے۔ کرن سنگھ آزاد کا کہنا تھا کہ جب بابا گرو نانک نے اس دنیا سے پردہ کرلیا تھا اور ان کا جوتی جوت ہوگیا تھا تو اس وقت ان کا جسم غائب ہوچکا تھا اور چادر کے نیچے صرف پھول بچے تھے۔ اس وقت کیونکہ ہندو اور مسلمان ان کو بزرگ مانتے تھے، تو آدھی چادر اور آدھے پھول مسلمانوں نے رکھ لئے تھے۔ اس وقت مسلمانوں نے اپنے طریقے سے رسومات ادا کیں اور گرو نانک کی قبر بنائی گئی۔ جبکہ ہندوئوں نے اپنے طریقے سے رسومات ادا کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا گرو نانک ان طریقوں سے خوش نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کی جوتی جوت کے کچھ دنوں بعد ایک بڑا سیلاب آیا اور یہ سیلاب اپنے ساتھ قبر اور ساتھ میں ہندوئوں کی نشانی بھی لے گیا۔ کرن سنگھ آزاد کا کہنا تھا کہ بابا نانک مذہب کے تنازعے پر لوگوں سے خفا ہوگئے تھے۔ ان کا جو مقصد تھا وہ انسانیت تھی، مذہب اور تنازعات نہیں تھے۔
گردوارے میں موجود بعض سکھوں کی رائے تھی کہ کنواں اور دیگر موجود نشانیات بابا نانک ہی کی ہیں۔ تاریخ کے پروفیسر محمد شہزاد گل کی رائے تھی کہ گردوارہ دربار صاحب کرتار پور کے حوالے سے اکثر چیزیں تاریخ کے حوالے سے ثابت ہیں کہ یہاں پر سکھ مذہب کے بانی بابا نانک نے رہائش رکھی تھی اور آخری وقت ادھر ہی رہے تھے۔ اب سوال دیگر چیزوں کے بارے میں ہے تو اس طرح ہر مذہب کے ماننے والوں میں ہوتا ہے۔ جو چیزیں ان میں سینہ بہ سینہ چلتی ہیں، ان کو حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ آپس میں اختلاف موجود ہوتا ہے، مگر تاریخ میں اس کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی اور تاریخ ان چیزوں پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بابا نانک نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال کرتاپور میں گزارے اور یقینی طور پر انہوں نے زندگی گزارنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کیا ہوگا اور یہ نشانیاں بھی موجود ہوں گی۔

Comments (0)
Add Comment