نجم الحسن عارف
لاہور کے علاقے بیگم کوٹ میں قاتل ڈور کا نشانہ بننے والے 19 سالہ بلال کی صرف پانچ ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔ بلال نو سال کا تھا جب اس کے والد کو ہڈیوں کا کینسر ہوا اور اس نے تعلیم کو خیرباد کہہ کر محنت مزدوری شروع کردی۔ وہ لیڈی ولنگڈن اسپتال کی کینٹین میں بطور سیلز مین کام کرکے یومیہ 500 روپے دیہاڑی لیتا تھا اور اسی سے گھر کا نظام چلتا تھا۔ واقعے والے روز بلال صبح نو بجے اپنے کام پر جانے سے پہلے چارپائی پر پڑے بیمار والد کے پاس گیا اور کہا کہ پاپا جی میں آپ کے ساتھ چار پائی پر لیٹنا چاہتا ہوں۔ آدھا پون گھنٹہ والد کے ساتھ لیٹا رہا۔ جانے لگا تو کہا ’’لو پاپا جی میں جاتا ہوں‘‘۔ جاتے جاتے اپنی نوبیاہتا خالہ زاد دلہن سے کہا کہ میرے دوست کی شادی آرہی ہے، ہم دونوں اس کی شادی میں چلیں گے۔ والدہ کو اللہ حافظ کہا اور چل دیا۔ رات سوا دس بجے قاتل ڈور استعمال کرنے والے شوقین مزاجوں کے شوق کا شکار ہوگیا اور ساڑھے دس بجے اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں اس کی میت پڑی تھی۔
بلال دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ والد کے کینسر اور شوگر میں مبتلا ہوجانے کے بعد وہی خاندان کا واحد کفیل بھی تھا۔ تین سال کے لئے لیڈی ولنگڈن اسپتال کی کینٹین پر ملازمت ملنے سے پہلے شاپنگ بیگ اور جوتے بنانے فیکٹریوں میں بھی کام کرتا رہا۔ ایک کمرے اور صحن پر مشتمل کرائے کے گھر میں رہنے والے غریب خاندان کی امیدوں کا چراغ ٹیکسالی چوک کے قریب اس وقت گل ہوگیا جب وہ کینٹین کی رات کی شفٹ کے سیلز مین کو گھر سے لے کر آرہا تھا، تاکہ اسے کینٹین پر چھوڑنے کے بعد واپس گھر جا سکے۔ جاں بحق بلال کے خالہ زاد اور برادر نسبتی محمد علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’کینٹین کے دوستوں کے مطابق دس محرم کا دن بلال کا اداس اداس گزرا۔ رات کو چھٹی کرنے کا وقت آیا تو اس کی جگہ شفٹ پر آنے والا سیلز مین کینٹین پر نہیں پہنچا تھا۔ اسے فون کیا گیا تو اس نے بلال سے کہا کہ اس کے گھر میں نیاز پکی ہوئی ہے۔ اس لئے میرے گھر آؤ تاکہ کینٹین پر کام کرنے والے کارکنوں کے لئے نیاز کا کھانا لاسکوں۔ وہاں مل کر نیاز کا کھانا کھائیں گے اور تم بعد میں گھر چلے جانا۔ میں ڈیوٹی پر کھڑا ہوجاؤں گا۔ اپنے ساتھی کے گھر جانے کے لئے بلال نے ضد کرکے کینٹین کے مالک سے ہنڈا 125 لی۔ عام طور پر وہ کینٹین کے کاموں کیلئے ہنڈا 70 پر جاتا تھا، لیکن اس روز اس نے اصرار کیا کہ اسے ہنڈا 125 دی جائے۔ کینٹین کا ایک اور کارکن بھی اس کے ساتھ گیا۔ واپسی پر اپنے ساتھیوں کو بائیک پر بٹھا کر لارہا تھا کہ گورا قبرستان کے گیٹ کے عین سامنے اچانک قاتل ڈور اس کی گردن کے بائیں جانب پھر گئی۔ بلال نے گورا قبرستان کی دیوار ختم ہوتے ہی بائیک روک دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ بائیک سے گر گیا اور ہنڈا 125 اس کے خون سے لت پت ہوگئی۔ سوا دس بجے کے قریب حادثہ ہوا۔ میں یہ خبر سن کر ساڑھے دس بجے میو اسپتال کی ایمرجنسی پہنچا تو وہاں بلال نہیں اس کی ڈیڈ باڈی سے ملاقات ہوئی۔ داکٹر نے کہا وہ یہاں پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے پاس جا چکا تھا‘‘۔ محمد علی نے بتایا کہ بلال کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھے دونوں ساتھی محفوظ رہے۔ بلال کے گلے پر دوڑ پھری تو اسی لمحے میرے پھوپھا بلال کے پیچھے اپنی بائیک پر گھر آرہے تھے۔ وہ سمجھے کوئی حادثہ ہوا ہے۔ میرے پھوپھا حادثہ دیکھ کر رکے نہیں، بلکہ سیدھا گھر آگئے۔ تھوڑی دیر بعد میڈیا پر خبر آئی تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے سامنے تو ان کا اپنا عزیز نوجوان قاتل ڈور کا شکار ہوا تھا‘‘۔ ایک سوال پر محمد علی نے بتایا کہ ’’بلال میرا خالہ زاد بھائی تھا۔ خالو کو کینسر ہوگیا تو خالہ اور ان کے خاندان کی پرورش زیادہ تر امی کے ذمے آن پڑی۔ اس لئے بلال میرے ساتھ ہی جوان ہوا۔ اسی اپریل میں بلال کے ساتھ میری چھوٹی بہن کی شادی کردی گئی۔ ابھی اس شادی کو پانچ ماہ ہوئے تھے کہ ٹھیک اسی روز قاتل ڈور نے بلال کی شہ رگ کاٹ دی اور میری بہن کا سہاگ اجڑ گیا۔ بلال نے کچھ عرصہ قبل اسی کینٹین پر پانچ سو روپے روزانہ کی اجرت کی بنیاد پر ملازمت اختیار کی، جہاں اس کے والد بیمار ہونے سے پہلے کھانا تیار کرنے کا کام کرتے تھے۔ اسی دوران والد کو کینسر ہوگیا اور وہ بستر پر آگئے۔ اس کے بعد بلال نے چھوٹی عمر میں ہی مزوری شروع کردی۔ تین سال پہلے کینٹین کے مالک نے اسے بطور سیلز مین نوکری دی، لیکن یہ یومیہ اجرت والی نوکری تھی۔ وہ بڑا محنتی تھا، اس لئے کینٹین کا مالک اس سے بڑا خوش تھا۔ اب پانچ سو روپے دیہاڑی سے بلال اپنے گھر کا نظام کسی نہ کسی طرح چلا رہا تھا کہ یہ سانحہ ہوگیا اور ہمارے خاندان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ بلال کی بیوہ ہونے والی میری بہن کی صحت اچھی نہیں ہے، اوپر سے یہ صدمہ۔ والد کینسر کے مریض ہیں اور وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ لاٹھی پکڑ کر چلتے ہیں۔ آپ خود اندازہ کرلیں کہ ہم کس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ کل ہفتے کے روز تین بجے بلال کا جنازہ ہوا تو اس میں بھی حکومت کا کوئی ذمہ دار آیا نہ سیاسی لیڈر کیلئے عام آدمی کی ہلاکت کوئی معنی رکھتی ہے۔
’’امت‘‘ نے بلال کے والد محمد خلیل سے بھی بات کی۔ کینسر ان کی ہڈیوں کو اندر ہی اندر کھا رہا ہے۔ منہ سے خون کی الٹیاں بھی آتی رہتی ہیں۔ شوگر ایک اور ضافی عارضہ ہے۔ زیادہ دیر بات کرنے سے سانس اکھڑنے لگتی ہے اور کھانسی شروع ہوجاتی ہے۔ اکلوتا سہارا چھننے کو انہوں نے اپنی کمر ٹوٹ جانے سے تعبیر کیا اور کہا ’’میں کیا بتاؤں، میری تو کمر ہی ٹوٹ گئی ہے۔ میں زیادہ دیر بات نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی اس طرح میرے زخم تازہ ہوتے ہیں۔ بس یہ کرو کہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار، وزیر اعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تک میری بات پہنچا دو، کہ میرا اب دنیاوی آسرا ختم ہوگیا ہے۔ میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں۔ خود بیمار ہوں۔ بہو، بیٹی اور اپنی بیوی کے لئے میں کہاں سے کماؤں گا۔ کہاں سے لاؤں گا۔ ان بڑوں سے کہہ دو کہ میری بے بسی کو مزید نہ بڑھنے دیں‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں بلال کے والد نے کہا ’’میرا ایک ہی بیٹا تھا۔ دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی شادی شدہ ہے۔ جب میں کینسر کا مریض ہوکر بستر پر پڑ گیا تو میرے بیٹے نے چھوٹی عمر میں تعلیم چھوڑ کر مزدوری شروع کر دی۔ اب آکر کچھ سرکل سیدھا ہونے لگا تھا کہ میرا واحد سہارا قاتل ڈور والوں کی نذر ہوگیا۔ ڈور والوں کو نہ کوئی پکڑتا ہے نہ پوچھتا ہے۔ نہ پولیس اس سلسلے میں کچھ کرتی ہے۔ مجھ جیسے غریبوں کے بچوں کی گردنیں کٹتی رہتی ہیں۔ آج میرے بلال کی شہ رگ کٹی ہے۔ کل کسی اور کے لال کو حادثہ پیش آسکتا ہے۔ لیکن حکومت اور اس کے بڑوں کا کچھ جاتا ہے نہ پولیس کو ٹھیک کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے قاتلوں کو پتنگیں اڑانے سے روکے۔ اب میرا کوئی آسرا نہیں رہا‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا ’’دسویں محرم کو صبح گھر سے جانے سے پہلے مجھے کہتا ہے پاپا جی میں نے تمہارے ساتھ چارپائی پر لیٹنا ہے۔ میں نے کہا بیٹے لیٹ جاؤ۔ آدھا پون گھنٹہ لیٹا رہا۔ پتہ نہیں اسے کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ سکون مل رہا تھا۔ جانے لگا تو کہا پاپا جی میں جاتا ہوں۔ میں نے اللہ کے سپرد کر دیا۔ رات کو میں تو گھر پر ہی تھا جب میرا بیٹا ہمیشہ کے لئے چلا گیا۔ گھر سے تو وہ خوش خوش گیا تھا۔ لیکن واپس آتے ہوئے سب کو رلا گیا۔ اب ہم ہمیشہ روتے رہیں گے۔ بلال ہمیں اکیلے چھوڑ گیا۔ ہمارا تو وہی سب کچھ تھا۔ وہ گھر جاتا تو فون پر پوچھتا پاپا جی کچھ لانا تو نہیں۔ میں اکثر کہہ دیتا، نہیں بیٹے کچھ نہیں چاہئے۔ کبھی کبھی کوئی ایسی چیز کہہ دیتا کہ دس بیس سے زیادہ کی نہ ہو کہ مجھے اس کے ہر روز آنے والے 500 روپے سے اسی مکان کا کرایہ دینا ہوتا تھا۔ اسی سے گھر چلانا ہوتا تھا اور اسی میں سے دوائی لینا ہوتی تھی۔ اس لئے کہتا تھا بیٹے کچھ نہیں چاہئے۔ وہ تو صرف جاتے جاتے مجھ سے 20 روپے کرایہ لے جاتا تھا۔ اس کے بھی کوئی اخراجات نہیں تھے۔ میرا بیٹا چھوٹی عمر میں ہی بڑا سمجھدار ہوگیا تھا‘‘۔ بلال مرحوم کے والد نے ’’امت‘‘ کے ایک سوال پر کہا ’’ایم پی اے سمیع اللہ خان اور علاقے کا نمبردار تعزیت کیلئے آئے تھے۔ اس وقت میڈیا والے بھی کافی آئے ہوئے تھے۔ لیکن جنازے میں کوئی حکومتی یا سیاسی بندہ نہیں آیا۔ نہ کسی نے کسی طرح کی مدد کی بات کی۔ اس لئے میں اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر چیف جسٹس، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ بھی میری ان تک آواز پہنچا دیں کہ کیمیکل والی ڈور سے انسانوں کی جان سے کھیلنے والوں کو کون پکڑے گا، کون پوچھے گا، میرا سہارا اب کون بنے گا؟‘‘۔
ادھر بھاٹی پولیس تھانے میں معمول کے مطابق قاتل ڈور سے جاں بحق ہونے والے نوجوان بلال کے حوالے سے ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف کاٹ دی گئی ہے۔ مقدمہ نمبر 621/18 میں دفعہ 322 لگائی گئی ہے، جو اتفاقیہ اور حادثاتی موت کے حوالے سے ہے۔ گویا نامعلوم اگر کبھی پکڑے بھی گئے تو حادثے کا مقدمہ ہے قتل کا نہیں۔ تفتیش ابھی وہیں کی وہی ہے۔ اندھی گولی کی طرح قاتل ڈور استعمال کرنے والے قاتل ہاتھوں تک پہنچنے کا امکان نہیں۔