امت رپورٹ
پاکستان میں کرکٹ پر جوئے کا نیا ٹرینڈ مقبول ہو رہا ہے۔ بکیز کی ایک قابل ذکر تعداد نے ’’میوچل بکیں‘‘ متعارف کرائی ہیں، جو بالخصوص جوئے کے ’’فن‘‘ سے نا آشنا جواریوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔ ان بکوں پر عموماً کسی بھی کرکٹ ایونٹ کے تمام میچوں پر سٹہ کھیلا جاتا ہے اور جواری اپنی حیثیت کے مطابق ’’سرمایہ کاری‘‘ کرتے ہیں۔ ٹورنامنٹ کے اختتام پر پنٹرز کو ان کی انویسٹ کردہ رقم کے حساب سے ’’منافع‘‘ ملتا ہے یا نتائج توقع کے برخلاف آنے پر ان کا پیسہ اندر ہو جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں نفع یا نقصان کی تلوار جواریوں پر لٹکتی ہے۔ بکی کی جیب سے کچھ نہیں جاتا۔
ایشیا کپ میں اتوار کے روز پاکستان اور بھارت کے دوسرے میچ پر بھی حسب توقع اربوں روپے کا سٹہ کھیلا گیا۔ اس میچ میں بھی بلیو شرٹس، بکیز کی فیورٹ ٹیم تھی۔ سٹہ کی عالمی مارکیٹ میں بھارتی ٹیم کے جیت کا بھائو 44 پیسے اور پاکستان کی فتح کا ریٹ ایک روپے 75 پیسے تھا۔ دبئی میں موجود ذرائع کے مطابق میچ پر لگائی گئی کل رقم کا 72 فیصد بھارتی ٹیم اور 28 پرسنٹ پاکستان ٹیم پر لگایا گیا۔ حیرت انگیز طور پر بدھ کو کھیلے گئے میچ کے مقابلے میں دونوں روایتی حریفوں کے تازہ معرکے پر دو سے تین ارب روپے کا کم سٹہ کھیلا گیا۔ پچھلے میچ میں دونوں ٹیموں پر صرف پاکستان میں 19 ارب اور بھارت میں 26 ارب روپے سے زائد کا سٹہ کھیلا گیا تھا۔ اتوار کی رات اس رپورٹ کے لکھے جانے تک بھارتی ٹیم بیٹنگ کر رہی تھی اور مختلف سیشنز پر کھیلا جانے والا فینسی جوا بھی جاری تھا۔ لہٰذا سٹہ بازار میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ میچ کے اختتام تک پچھلے میچ کے مقابلے میں آنے والے سٹے کی رقم کا فرق برابر ہو جائے گا یا اس سے بڑھ بھی سکتا ہے۔
سٹے کی عالمی مارکیٹ زیادہ تر برطانوی آن لائن بیٹنگ کمپنی بیٹ فیئر کو فالو کرتی ہے۔ اس کو ہی فالو کرتے ہوئے پاکستان میں سب سے پہلے کراچی میں سٹے کا بھائو کھلتا ہے۔ جس کے بعد لاہور اور راولپنڈی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں اس ریٹ کو فالو کیا جاتا ہے۔ کراچی میں موجود ایک پرانے بکی کے مطابق کرکٹ یا کسی اور کھیل پر جوا کھیلنا بھی ایک ’’فن‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہے، جنہیں کرکٹ پر سٹہ کھیلنے کا شوق تو ہے لیکن وہ اس کے بظاہر پیچیدہ سسٹم کی وجہ سے عام روایتی اکبر کا سٹہ، چرخی یا تاش پر مانگ پتہ کھیل کر اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کو کرکٹ پر سٹے کی عام اصطلاح ’’لگالو اور کھالو‘‘ سے بھی زیادہ آ گہی نہیں۔ جبکہ بیشتر کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے آن لائن بیٹنگ تو انہیں بالکل ہی سمجھ نہیں آتی۔ بکی کے مطابق اب ایسے ناتجربہ کار جواریوں کو کرکٹ سٹے کی جانب لانے کے لئے ایک نیا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے، جو پاکستان میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ عام طور پر کرکٹ میچوں پر پیسہ لگانے والے پنٹرز اپنے جان پہچان کے بکیز کی بکوں پر براہ راست جوا کھیلتے ہیں۔ ان بکیوں کا نیٹ ورک دبئی اور ممبئی سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن اب بالخصوص کراچی اور لاہور میں بعض چھوٹے بکیز نے ’’میوچل بکیں‘‘ متعارف کرائی ہیں۔ یہ سلسلہ پچھلے دو تین برس سے تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے، اور بھارت سے ADOPT کیا گیا ہے، جہاں اس وقت ہزاروں ’’میوچل بکیں‘‘ کھلی ہوئی ہیں۔ بکی نے بتایا کہ ’’میوچل بک‘‘ رکھنے والا بکی مختلف کرکٹ ایونٹس کے تقریباً تمام میچوں پر جوا کھیلنے کے لئے اپنے کلائنٹس (جواریوں) سے رقم وصول کرتا ہے۔ یہ رقم 5 ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ اور ایک کروڑ روپے بھی ہو سکتی ہے۔ جب بکی کے پاس اس کے ممبران کی مجموعی رقم جمع ہو جاتی ہے تو وہ اس رقم سے اپنے تجربے کی بنیاد پر کسی بھی ایونٹ کے تمام میچوں پر پیسہ لگاتا ہے۔ جب کرکٹ ایونٹ اختتام پذیر ہو جاتا ہے تو پھر بکی اور پنٹرز کے درمیان حساب کتاب ہوتا ہے۔ اگر بکیز نے مہارت سے سٹہ لگاتے ہوئے منافع کمایا ہوتا ہے تو اس کل منافع میں سے 25 فیصد کمیشن وہ رکھ لیتا ہے، باقی 75 فیصد کمیشن جواریوں کو ملتا ہے۔ جس نے جتنی رقم لگائی ہوتی ہے، اسے اس حساب سے رقم دی جاتی ہے۔ جب کرکٹ ایونٹ شروع ہوتا ہے تو ’’میوچل بک‘‘ پر ’’سرمایہ کاری‘‘ کرنے والے پنٹرز کی ایک لسٹ بکی بنا لیتا ہے۔ پھر وہ اپنے ان ممبران کو ہر میچ پر لگائی گئی رقم اور اس میں منافع یا گھاٹے کی تفصیلات فراہم کرتا رہتا ہے۔ یعنی ساری صورت حال پنٹرز کے علم میں ہوتی ہے، تاکہ ٹورنامنٹ کے اختتام پر جب حساب کتاب ہو تو کسی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہو۔ اپنے ممبران کی رقم سے بکی ہر میچ کے ٹاس، نتیجے اور مختلف سیشنز پر جوا کھیلتا ہے۔ مثلاً میچ میں کل کتنے چھکے یا چوکے لگیں گے؟ کتنی وائیڈ یا نو بالز ہوں گی؟ پہلے دس اوورز میں کون سی ٹیم کتنے رنز بنائے گی؟ پہلی وکٹ کتنے رنز پر گرے گی؟ یہ سٹہ ’’میوچل بک‘‘ کا مالک عام طور پر دوسرے بکیوں کی بڑی بکوں یا آن لائن کھیلتا ہے۔ اگر وہ یہ غیر قانونی شرطیں جیتتا رہے تو پھر اس کے ممبران جواریوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، جو اپنی رقم ڈیپازٹ کرانے کے بعد الگ تھلگ بیٹھ جاتے ہیں اور ساری محنت بکی کی ہوتی ہے۔ تاہم بکی کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اپنی جیب سے پیسہ لگائے بغیر وہ جیتنے کی صورت میں مجموعی رقم کا 25 فیصد حصہ وصول کرتا ہے اور ہارنے کی شکل میں بھی جواریوں کی رقم اندر ہوتی ہے، اس کے پلے سے کچھ نہیں جاتا۔
بکی نے بتایا کہ اس وقت کراچی اور لاہور میں درجنوں کی تعداد میں ’’میوچل بکیں‘‘ کھلی ہوئی ہیں۔ اور جس تیزی کے ساتھ یہ طریقہ کار فروغ پا رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان بکوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ بکی کے مطابق ایشیا کپ کے 13 میچوں پر بھی صرف کراچی اور لاہور میں ’’میوچل بکوں‘‘ پر تین ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی۔ جب ایونٹ کا آخری میچ یعنی فائنل 28 ستمبر کو اختتام پذیر ہو جائے گا تو اس کے بعد ’’میوچل بکوں‘‘ کے مالکان اور سرمایہ کاری کرنے والے جواریوں کے درمیان حساب کتاب ہوگا۔ چونکہ کروڑوں کا سٹہ کھیلنے والے بڑے پنٹرز کا رحجان فی الحال روایتی بکوں اور آن لائن سٹہ کھیلنے کی طرف ہے اور ’’میوچل بکوں‘‘ کی طرف زیادہ تر دس بیس ہزار یا لاکھوں کا سٹہ کھیلنے والے چھوٹے جواری راغب ہیں، لہٰذا ’’میوچل بکوں‘‘ پر سٹے کا حجم روایتی بکوں پر براہ راست کھیلنے جانے والے جوئے سے ابھی بہت کم ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں یہ فرق کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان میں مختلف کھیلوں بالخصوص کرکٹ پر سٹے کا رحجان تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ سے قومی کرکٹ ٹیم تک رسائی حاصل کرنے والے ایک معروف فاسٹ بالر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کرکٹ کے بڑے ایونٹس پر تو زور و شور سے جوا کھیلا جاتا ہی ہے۔ مقامی طور پر کھیلے جانے والے ایسے فرسٹ کلاس میچز، جنہیں کوئی ٹی وی چینل نہیں دکھاتا، ان میچوں پر بھی جوا کھیلا جا رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کو یاد کرتے ہوئے مذکورہ فاسٹ بالر کا کہنا تھا ’’کئی فرسٹ کلاس میچوں کے دوران میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ باونڈری لائن پر لوگ نقد رقم تھیلوں میں بھر کر بیٹھے ہوئے ہیں اور موقع پر ہی ہر بال اور ہر وکٹ گرنے پر شرطیں لگا رہے ہیں‘‘۔
دوسری جانب سٹہ بازار کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں جوئے کے بڑھتے رحجان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف کراچی کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے 90 سے زائد بکیز کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ ان میں سے 22 کے قریب بڑی بکیں چلا رہے ہیں، جن کے براہ راست رابطے دبئی اورممبئی کے نیٹ ورک کے ساتھ ہیں۔ جبکہ کراچی میں کرکٹ سمیت مختلف طریقوں سے جوا کھیلنے کے ساڑھے تین سو سے زیادہ چھوٹے بڑے اڈے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے عارضی اڈوں کی ہے، جو مختلف مکانات اور بنگلے کرائے پر لے کر قائم کئے گئے ہیں اور ان اڈوں کے مالکان مسلسل اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق رواں برس مارچ میں پی ایس ایل کے فائنل سے قبل ڈیفنس فیز 5 کراچی کے ایک بنگلے پر چھاپہ مار کر بکیوں کے جس سب سے بڑے نیٹ ورک کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا تھا، یہ دعویٰ سوائے ڈھکوسلے کے اور کچھ نہیں تھا۔ بنگلے میں اپنی بڑی بک چلانے والا فیصل بافیلا اور اس کے بیشتر ساتھی نہ صرف ضمانت پر باہر آ گئے، بلکہ اب ایشیا کپ کے میچوں پر ڈیفنس کے علاوہ بہادر آباد اور سولجر بازار میں دبا کر جوا کرا رہے ہیں۔ اسی طرح حالیہ ایشیا کرکٹ کپ سے قبل کراچی کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں چھوٹی بڑی بکیں کھل گئی تھیں۔ ان علاقوں میں ڈیفنس، کلفٹن، گھاس منڈی، بغدادی، عزیز آباد، لانڈھی، لیاقت آباد، پی آئی بی کالونی، میٹھا در، کھارادر، بولٹن مارکیٹ، گلشن اقبال، مبینہ ٹائون، نیو ٹائون، دھوراجی اور بہادر آباد قابل ذکر ہیں۔ جہاں یوسف شاہ، پٹنی بھائی، اقبال بھائی، وسیم سول، حنیف میمن، عارف جمن، عابد روبی اور یعقوب بھوت سمیت دیگر بکیوں اور ان کے درجنوں ایجنٹوں کا نیٹ ورک ایشیا کپ کے میچوں پر بڑے پیمانے پر سٹہ کرا رہا ہے۔
لاہور میں موجود ذرائع کے مطابق ایشیا کپ کے میچوں پر پنجاب کے دارالحکومت میں بھی بڑے پیمانے پر جوا کھیلا جا رہا ہے۔ شاد باغ اور وسن پورہ میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ لاہور کا عہدیدار لطیف پہلوان، رفاقت عرف جج گجر، جگنو، عظمت، حاجی نعیم، ملک نوید، قیصر گجر، خورشید لبھا اور سعید عرف سدو کی بکیں چل رہی ہیں۔ جس کا بھتہ کا پولیس کو باقاعدگی سے جا رہا ہے۔ سمن آباد کے علاقے میں خضرا مسجد کے قریب حاجی یعقوب، جبکہ این بلاک میں رضا اور شریف گجر، پکی ٹھٹھی میں کالا نامی بکی، سمن آباد گول چکر کے قریب ذوالفقار، علامہ اقبال ٹائون میں محبوب عرف بوبا، پرویز خان اور جمشید خان، انار کلی میں حاجی ناصر، کریم پارک کے علاقے میں اقبال عرف بالا، موہنی روڈ پر منور بٹ اور اچھا گجر، شاہدرہ میں سہیل بٹ، دھرم پورہ کے علاقے میں اقبال شاہین اور جمشید عرف جیدا، اچھرہ میں بوبی مسیح اور ببی مسیح، مقبول روڈ پر ملک ہوٹل والا جوا کرا رہے ہیں۔ اسی طرح فیصل آباد کے علاقے ملت ٹائون میں وقار عرف وکی، پیپلز کالونی میں ملک حسین بارا نے بڑی بکیں کھول رکھی ہیں۔ ملتان میں گھنٹہ گھر کے قریب سید کاظم علی کی بڑی بک چل رہی ہے۔