سید ارتضی علی کرمانی
اہل بیت اطہار کا سلسلہ سیدنا علیؓ بن ابی طالبکی اولاد سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخ اسلامی اس بات کی گواہ ہے کہ اس خاندان کے اسلاف نے ہمیشہ اسلام کے مخالفین کے ساتھ ٹکر لی اور اسلام کی سربلندی کے لئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ تمام اہل اسلام میں سب سے کم عمر میں اسلام قبول کرنے والے ہیں اور اپنے قریبی قرابت داروں میں سب سے پہلے قبول اسلام کرنے والے ہیں۔ آپؓ نے تمام غزوات میں آنحضرتؐ کے ساتھ حصہ لیا۔
محض ایک غزوے میں آپؓ نے شرکت نہ فرمائی، مگر اس شرکت نہ کرنے میں حضرت علیؓ کی اپنی کوئی مرضی شامل نہ تھی، بلکہ یہ بھی اصل میں اطاعت رسول کریمؐ تھی۔ سرکار دو عالمؐ کو جب یہ معلوم ہوا کہ آپؓ کو منافقین طعنے دے رہے ہیں تو آپؓ کو فرمایا کہ: ’’کیا تمہیں اس بات سے راضی ہو کہ تمہیں میرے ساتھ وہ نسبت ہو جو حضرت ہارونؑ کو حضرت موسیٰؑ کے ساتھ تھی؟‘‘
واقعہ یہ ہے کہ غزوئہ تبوک میں آنحضرتؐ نے حضرت علیؓ کو مدینہ طیبہ میں بطور اپنا نائب بنا کر رکھنے کا حکم دیا تھا۔ نبی کا نائب ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ حضرت علیؓ کی بہادری اور شجاعت مثال کی حیثیت اختیار کر چکی تھی اور ہے۔ آپؓ کی عمر مبارک جنگ بدر میں صرف 17 برس تھی اور یہ کفر و اسلام کی پہلی جنگ تھی۔ اس جنگ میں حضرت علیؓ نے 21 کفار کو جہنم واصل کیا۔ جبکہ کفار کے کل مقتولین کی تعداد 70 تھی۔
اسی طرح جنگ احد میں 7 کفار کو جہنم واصل کیا، جبکہ کفار کے کل مقتولین کی تعداد 22 تھی اور سب سے بڑھ کر آپؓ کو لافانی شہرت اس وقت حاصل ہوئی، جب آپ نے جنگ خیبر کے دوران پہلے تو بہت بڑے پہلوان مرحب کو قتل کر دیا اور پھر قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر بطور ڈھال تھام لیا۔
حضرت علیؓ کے ساتھ محبت کا اظہار سیدنا عمر فاروقؓ اکثر یوں فرمایا کرتے تھے کہ: ’’حق تعالیٰ ایسی مشکل سے پناہ دیں، جس کے حل کے لیے ابو الحسنؓ (حضرت علی) نہ ہوں۔‘‘
حضرت سیدنا محی الدین جیلانیؒ سے آپ کی نسبت 25 ویں پشت میں ملتی ہے۔ دین اسلام کی سربلندی اور بدعات کے خاتمہ کے لیے حضرت غوثؒ کے بے مثال کردار نے اہل اسلام میں گویا نئی روح پھونک دی تھی۔ آپ کا اصل نام تو عبدالقادر ہے، مگر آپ کو لوگ آپ کے القابات سے ہی یاد کرتے ہیں۔ بے شک و شبہ تمام اولیائے کرام اور علمائے دین نے آپ کو اپنا مرشد تسلیم کیا ہے۔
ان کی ولادت باسعادت کے وقت عالم اسلام میں اندرونی رنجشوں مثلاً فرقہ بند یوں نے اپنی جگہ مضبوط کر رکھی تھی۔ حالانکہ اس وقت اسلامی حکومت اندلس سے ہندوستان تک قائم تھی۔ مگر مسلمانوں میں بہت سے فرقے قائم ہو چکے تھے اور بہت سے عقائد نے دین اسلام میں جگہ بنا لی تھی۔ جن کی اصلاح کے لیے حق تعالیٰ نے آپ کو اس دنیا میں بھیجا۔
اس وقت عالم اسلام صحیح معنوں میں ایک ابتری کی کیفیت سے دو چار تھا۔ بغداد، اندلس، مصر، افغانستان اور ہندوستان میں مسلم حکومتوں کی زبردست خطرات لاحق ہو رہے تھے۔ بیت المقدس پر عیسائیوں کے قبضے کے بعد عراق و حجاز بھی حملوں کی زد پر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اہل اسلام اخلاقی انحطاط کا بھی شکار ہو چکے تھے۔
علمائے کرام کا رویہ بھی اس زمانے میں حد درجہ غیر ذمہ دارانہ قسم کا تھا۔ امام غزالیؒ اپنی تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’وہ ہر وقت شیعہ، سنی، حنبلی اور اشعری مناظرات میں مصروف عمل رہتے تھے۔ گالی گلوچ اور کشت و خون تک نوبت پہنچنا ایک معمولی بات تھی اور کچھ نہ ہو تو صدر نشینی پر بھی جھگڑا کھڑا ہو جاتا تھا۔ معاشرے کا یہی وہ سیاسی اور روحانی ادبار تھا۔ جسے آنحضرتؐ نے مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا تھا۔‘‘
آپ کی ولادت 471ھ میں ہوئی۔ تمام زندگی دین اسلام کی سر بلندی کے لیے ہمہ تن مصروف رہ کر آپ نے 562ھ میں بعمر 91 برس وفات پائی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭