بھارت کے متنازعہ ترین ڈیم کے لئے مندروں نے چندہ دیا

عارف انجم
پاکستان میں کالا باغ ڈیم کا منصوبہ صوبوں کے اعتراض کے باعث مکمل طور پر بند ہوگیا۔ بھاشا ڈیم پر بھی حالیہ دنوں میں چند اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک ڈیم کے مقام کا زلزلہ زدہ علاقے میں ہونا اور دوسرا ڈیم بننے سے تاریخی آثار ڈوب جانے کا ہے۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ متنازع ڈیم نہیں بنانے چاہیئں۔ یا یہ کہ ’’چندے سے ڈیم نہیں بنتے‘‘۔ تاہم بھارت میں وہاں کی حکومت تمام تر اعتراضات، مظاہروں، دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں کے باوجود ملک کے متنازع ترین ڈیم کی تعمیر مکمل کر چکی ہے۔ اس ڈیم کیلئے گجرات کے مندروں نے چندہ بھی دیا۔ بھاشا ڈیم کی طرح ہی گجرات کے سردار سروور ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈنگ فراہم کرنے سے عالمی بینک نے انکار کر دیا تھا۔ جہاں بھاشا ڈیم کیلئے پاکستانی سپریم کورٹ نے عطیات کی مہم چلائی ہے، وہاں بھارت کی سپریم کورٹ نے سردار سروور ڈیم کی اونچائی بڑھانے کے معاملے میں اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ بھارتی عدالت عظمیٰ نے ہی متاثرین کو رقوم کی ادائیگی بھی یقینی بنوائی۔
گجرات میں سردار سروور ڈیم دریائے نَرمَدا پر قائم ہے۔ یہ دریا بھارتی ریاست مدھیہ پردیش سے نکلتا ہے اور مہاراشٹرا سے ہوتا ہوا گجرات میں داخل ہونے کے بعد بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ گجرات میں داخل ہونے کے فوراً بعد ہی اس پر سردار سروور ڈیم بنایا گیا ہے۔ ڈیم کا تصور بھارت کے نائب وزیر اعظم اور پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے دیا تھا۔ جس کے بعد اپریل 1961ء میں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ بھارتی حکومت نے دریائے نرمدا پر 30 بڑے اور تین ہزار چھوٹے ڈیم بنانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ جن میں سے سروور ڈیم سب سے بڑا ہے۔ ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی پانی کی تقسیم پر تین ریاستوں مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا اور گجرات میں تنازع پیدا ہوگیا۔ چوتھی ریاست راجستھان کو بھی پانی دیا جا نا تھا۔ بالآخر نرمدا واٹر ٹریبونل نے 1969ء میں فیصلہ دیا کہ مدھیہ پردیش کو 65 فیصد، گجرات 32 فیصد اور باقی دو ریاستوں کو تین تین فیصد پانی دیا جائے گا۔ 1987ء میں ڈیم کی تعمیر پر کام شروع ہوگیا۔
لیکن اس سے پہلے ہی ڈیم کے خلاف تحریک شروع ہو چکی تھی۔ 1985ء میں انسانی حقوق کے کچھ کارکن سردار سروور ڈیم کے مقام پر پہنچے۔ ان میں پی ایچ ڈی کی طالبہ مدھیا پاٹکر بھی تھیں۔ مدھیا اور دیگر پر انکشاف ہوا ہے کہ ڈیم سے متاثر ہونے والے افراد کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ انہیں صرف کھڑی فصلوں کے بدلے میں کچھ رقم دی گئی تھی۔ گھر بار اور زمینوں کے معاوضے کا کوئی ذکر تک نہیں تھا۔ ان افراد نے نرمدا بچائو اندولن (تحریک) کا آغاز کر دیا۔ مدھیا نے اپنی پی ایچ ڈی ترک کر کے زندگی لوگوں کو حقوق دلانے میں وقف کر دی۔ بعد میں معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے اور بھارتی فلمی اداکار عامر خان نے بھی اس تحریک کی حمایت کی۔ ڈیم کے مخالفین کو احتجاج کرنے پر برسوں تک لاٹھی چارج، گرفتاریوں اور ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ مدھیا کو معلوم ہوا کہ عالمی بینک ڈیم کے لیے فنڈنگ فراہم کر رہا ہے۔ لہٰذا ان کے احتجاج کا رخ عالمی بینک کی طرف مڑ گیا۔ 1989ء میں وہ واشنگٹن ڈی سی میں ورلڈ بینک کے صدر دفتر گئیں اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ احتجاج کیا۔ دبائو بڑھنے پر عالمی بینک نے سروور ڈیم کے حوالے سے مورس کمیشن قائم کر دیا۔ کمیشن کا مقصد ڈیم کی تعمیر سے ماحولیات اور انسانوں کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔ 357 صفحات کی رپورٹ میں کمیشن نے تصدیق کی کہ نہ تو بھارتی حکومت اور نہ ہی ورلڈ بینک نے ڈیم کی تعمیر کے لیے ماحولیاتی اثرات کا کوئی خیال رکھا ہے۔ ورلڈ بینک نے نئی شرائط رکھ دیں جنہیں تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں 1993ء میں سروور ڈیم کیلئے قرضہ منسوخ ہو گیا۔ لیکن حکومت ڈیم کے منصوبے پر قائم رہی۔ 1993ء میں مدھیا پاٹکر اور دیگر نے ڈیم کے مقام پر بھوک ہڑتال کردی۔ 1994ء میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے نرمدا بچائو اندولن کے دفتر پر حملہ کیا اور مدھیا پاٹکر سمیت کئی کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایک بار پھر کچھ احتجاجی کارکنوں نے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا۔ تاہم انہیں گرفتار کر کے زبردستی خوراک دی گئی۔
سروور ڈیم منصوبے کو ایک اور جھٹکا اس وقت لگا جب معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا اور 1995ء میں عدالت نے حکم امتناع جاری کر دیا۔ تاہم فروری 1999ء میں سپریم کورٹ نے ڈیم کی اونچائی 80 میٹر سے بڑھا کر 88 میٹر کرنے کی اجازت دے دی۔ اگلے برس اسی عدالت نے یہ اونچائی 90 میٹر کرنے کی اجازت دی۔ ہوتے ہوتے یہ اونچائی 2006ء میں 110 اعشاریہ 6 میٹر تک پہنچ گئی۔ جبکہ ڈیم کی حتمی اونچائی 136 میٹر ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی یقینی بنانے کیلئے بھی احکامات دیئے۔ اگرچہ نرمدا بچائو اندولن کا کہنا ہے کہ 40 ہزار افراد کی دوبارہ آباد کاری اب تک نہیں ہوسکی، جبکہ مجموعی طور پر 3 لاکھ 20 ہزار افراد کسی نہ کسی طرح پریشانی کا شکار ہیں۔ سروور ڈیم اور اس سے متعلقہ منصوبوں کی زد میں کل 10 لاکھ افراد آئے تھے۔ سب سے زیادہ متاثرہ آدی واسی برادری کے لوگ ہوئے، جنہیں خانہ بدوش کے زمرے میں ڈال کر کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ ڈیم کا معاملہ عدالت پہنچنے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ پر دونوں طرف سے دبائو ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔ ایک طرف تو ڈیم مخالفین احتجاج کر رہے تھے تو دوسری جانب اس وقت ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے 2006ء میں بھوک ہڑتال کی جو سپریم کورٹ کی جانب سے حکومتی موقف کے حق میں فیصلے پر ختم ہوئی۔ سروور ڈیم کے معاملے پر بھارت کی دونوں بڑی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کے موقف میں حیرت انگیز ہم آہنگی دکھائی دی۔ کانگریس کی جانب سے ڈیم کی حمایت کا سبب نہرو کے ہاتھوں اس منصوبے کا پہلا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا۔ جبکہ بی جے پی سردار ولبھ بھائی پٹیل کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہے جو نہرو کے قریبی ساتھی ہونے کے باوجود بھارت میں دائیں بازو کے طبقے کے نظریاتی گرو سمجھتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ستمبر 2017ء میں جب نریندر مودی نے سروور ڈیم کا افتتاح کیا تو انہوں نے ولبھ بھائی پٹیل کا نام لیا، لیکن نہرو کا ذکر کرنا بھول گئے۔
سروور ڈیم بھارت کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ہے۔7 اعشاریہ 7 ملین ایکڑ فٹ کی گنجائش رکھنے والا یہ ڈیم پاکستان کے منگلا ڈیم سے بھی بڑا ہے۔ یہاں 1450 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ لیکن ڈیم کی زیادہ اہم بات اس سے نکالی گئی نہریں ہیں جن سے لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہوگی۔ سروور ڈیم کا ایک فوجی مقصد بھی ہے، جس کا اشارہ ستمبر 2017ء میں ڈیم کے افتتاح پر نریندر مودی نے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے راجستھان میں بی ایس ایف کے اہلکاروں تک پانی پہنچا دیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی فوج اسٹرٹیجک مقاصد کے لیے راجستھان کو استعمال کرتی ہے۔ یہاں اس کی تعیناتی صرف اور صرف پاکستان کے خلاف ہے اور سروور ڈیم سے ملنے والے پانی کا بڑا حصہ بھارتی فوج کو جائے گا۔
نریندر مودی نے ڈیم کے افتتاح کے موقع پر یہ بھی بتایا کہ جب عالمی بینک نے فنڈنگ روک دی تھی تو گجرات کے مندروں نے ڈیم کے لیے چندہ دیا۔ ماضی میں گجرات کے وزیراعلیٰ رہنے والے نریندر مودی نے اس چندے پر اپنی اس وقت کی حکومت کو کریڈٹ دینے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ بھارت کے مندروں میں بڑی مقدار میں سونے اور دیگر قیمتی اشیا کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔ 2015ء میں نریندر مودی نے مندروں سے سونا بینکوں میں رکھوانے کی اپیل کی تھی تو گجرات کے تاریخی سومناتھ مندر نے سب سے پہلے اس اسکیم میں حصہ لیا تھا۔ مودی نے یہ نہیں بتایا کہ سروور ڈیم کی تعمیر کیلئے مندروں نے کتنا چندہ دیا۔ تاہم یہ چندہ گجرات کی ریاستی حکومت کے ذریعے فراہم کیا گیا تھا۔ مودی نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ ڈیم کی تعمیر میں زیادہ بڑا خرچ مندروں نے اٹھایا۔ تاہم حقیقت میں ایسا نہیں۔ ڈیم اور اس سے متعلقہ نہروں کی ابتدائی لاگت سوا ارب ڈالر تھی جو 2011ء میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق ساڑھے 8 ارب ڈالر ہو چکی تھی۔ ڈیم کے اخراجات مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، گجرات اور راجستھان کی حکومتوں کے علاوہ مرکزی حکومت نے بھی اٹھائے ہیں۔ 2015ء میں گجرات اسمبلی میں حکومت نے بتایا کہ نرمدا منصوبے پر اب تک 472 ارب روپے (6 ارب ڈالر سے زائد) رقم خرچ ہوچکی ہے۔ جبکہ گجرات، راجستھان اور مہاراشٹرا سے 54 ارب 26 کروڑ روپے وصول کرنا باقی ہیں۔ اگست 2018ء میں بھی مرکزی حکومت نے 7 ارب 30 کروڑ روپے گجرات کو جاری کیے۔ یہ رقم مالی معاونت کے طور پر دی گئی۔ جبکہ مزید 14 ارب 84 کروڑ کا قرضہ منظور کیا گیا۔ سروور ڈیم سے منسلک نہروں کی تعمیر 2019ء تک مکمل ہوگی اور اس وقت ہی مکمل لاگت سامنے آئے گی۔
ستمبر 2017ء میں نریندر مودی نے جب ڈیم کا افتتاح کیا تو اس وقت بھی گجرات میں اس کے خلاف مظاہرے جاری تھے۔ بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے اپنی کتاب ’’دی کاسٹ آف لیونگ‘‘ میں لکھا تھا: ’’بڑے ڈیم قوموں کی ’ترقی‘ میں وہی کردار ادا کرتے ہیں جو ایٹمی بم فوجی اسلحے میں ادا کرتے ہیں۔ دونوں ہی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار ہیں۔ دونوں کو حکومتیں اپنے عوام کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں‘‘۔ تاہم بھارت کی حکومتیں ارون دھتی رائے جیسے انسانی حقوق کارکنوں کے بجائے اپنے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے مقولے پر عمل پیرا ہیں۔ 1954ء میں ستلج پر بھاکرا ڈیم کا افتتاح کرتے ہوئے نہرو نے ایک تقریر میں کہا تھا، ڈیم جدید انڈیا کے مندر ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment