حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
تحریک خلافت ایک ایسی تحریک تھی کہ جس نے ملک ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات کو خوب بھڑکایا۔ اس تحریک سے قبل انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کی انگریزوں سے آزادی کی تحریک چلا رکھی تھی، جبکہ اسی کے بعد بنگال میں بھی ایک انقلابی تحریک بڑے زور و شور سے شروع ہوئی۔ مگر پورے ہندوستان میں ان تحاریک کو اس قدر پذیرائی حاصل نہ ہو سکی، جس کی مسٹر گاندھی کو توقع تھی۔ مگر مسٹر گاندھی نے تحریک خلافت کی وجہ سے مسلمانوں کو کانگریس میں جمع کرنا شروع کر دیا۔
حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ مسٹر گاندھی نے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرانے کی بے تحاشا کوششیں کیں۔ اب سیاسی بازی گری ملاحظہ ہو کہ مسلمانوں کے بھڑکے ہوئے جذبات کو کس طرح اس نے استعمال کیا۔ خود ہی انگریز فوجوں کو ہندوستانی سپاہی فراہم کئے اور خود ہی تحریک خلافت کی حمایت کی۔ ایک مکاری اور بھی کی کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے باہر نکالنے کا منصوبہ بڑی کامیابی سے بنایا اور ہزاروں مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور اس کی معاونت کانگریس کے نام نہاد ملائوں نے خوب کیا۔
اس ہجرت کے بارے میں جب حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
’’اس ہجرت کے جواز کی کوئی وجہ کتاب و سنت میں اور دیگر دلائل شرعیہ میں نہیں ملتی۔ نہ اس قسم کی ہجرت صحابہ کرامؓ نے کی ہے۔ وہ ہجرت تو اس واسطے تھی کہ مسلمانوں کو اقامت دین سے مشرک منع کرتے تھے۔ تاآنکہ آنحضرتؐ کو بمعہ جمیع بنو ہاشم و بنی عبدالمطلب شعب بنی طالب میں محصور ہونا پڑا۔ مگر یہاں ایسے اسباب موجود نہیں۔
نیز ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں۔ اگر بالفرض سب پر ہجرت فرض ہے تو کوئی ملک اتنی بڑی جماعت کو بسا نہیں سکتا۔ پس وجہ فقدان استطاعت یہ فرض ساقط ہے اور اگر سب پر فرض نہیں، بعض پر فرض ہے تو اس ترجیح بلا مرجح کی توجیہ نہیں ہو سکتی۔ سب سے پہلے مسلمانوں کو اپنی اصلاح کرنا چاہئے۔ ہجرت کرنے والوں میں بہت تھوڑے نمازی ہیں۔ جب نماز جیسے ضروری امر کا التزام نہیں تو الاھم فالاھم کے اصل کے ماتحت پہلے اس فرض کو قائم کرنا چاہئے۔‘‘
اس ہجرت کا نتیجہ بہت ہی خراب نکلا۔ افغانستان کا حکمران امان اللہ اس قدر بڑی تعداد سے گھبرا گیا۔ اب مسلمانوں کے انہی رہنمائوں نے جو ہجرت کے لیے لوگوں کو لے کر گئے تھے، واپسی پر آمادہ کرنا شروع کیا۔ جن لوگوں نے ہجرت کی خاطر اپنے مکان اور زمینوں کو اونے پونے بیچ ڈالا تھا، واپسی میں بالکل تہی داماں ہو کر رہ گئے تھے۔ جب یہی لوگ واپس آئے تو نہ رہنے کو ٹھکانا، نہ کوئی معاش کی صورت۔ کانگریس کے رہنمائوں نے یہ مکانات اور زمینیں جوش دلا دلا کر سستے داموں خرید لی تھیں۔ اب وہی مسلمانوں کو تنگ بھی کررہے تھے۔
ایک اور سنگین نتیجہ اس ہجرت کا یہ نکلا کہ ہزاروں مسلمانوں کو افغانوں سے اور اسی طرح افغانوں کو ہندوستانی مسلمانوں سے شکوے شکایتیں ہو گئیں۔ یہی چال تو مسٹر گاندھی نے چلی تھی، جو کامیاب رہی۔ یعنی مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف کرنا۔
حضرت صاحبؒ کا منصب مسلمانوں کی اخلاقی، مذہبی اور روحانی بہبود کی نگہبانی تھا۔ اس لیے اکثر آپ اپنے احکامات اور مشورے انہی خطوط کی روشنی میں فرمایا کرتے تھے۔ جنگ عظیم کے دوران ایک بڑے سرگرم ریکروٹنگ کی جنگجو اقوام میں اکثریت آپ کی ارادت مند ہے۔ آپ اگر انہیں ملک اور بادشاہ کی خدمت کے لیے فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دیں۔ تو صرف میرے محکمہ کی مشکلات بہت حد تک کم ہو جائیں گی بلکہ سرکار بھی بے حد مشکور ہو گی۔
آپ نے فرمایا کہ علمائے اسلام موجودہ حالات میں انگریزوں کی فوجی ملازمت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص مجھ سے فوجی ملازمت کے متعلق دریافت کرتا ہے تو میں اسے شرعی حیثیت سے آگاہ کرتا ہوں۔ آپ لوگ کسی مسلمان اہل علم سے یہ توقع نہ رکھیں، کہ وہ لوگوں کو خلاف شرع کام کا مشورہ دے گا۔(جاری ہے)

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment