مسئلہ خلق قرآن میں امام احمد بن حنبلؒ کو کوڑے مارنے کا واقعہ تاریخ اسلام کے مشہور واقعات میں سے ہے۔ امام اس آزمائش میں کامیاب ہوئے تو بعد میں کبھی کبھی فرماتے: حق تعالیٰ ابو الہیثم پر رحم فرمائیں، ان کی مغفرت فرمائیں، اس سے درگزر فرمائیں۔
ان کے بیٹے نے ان سے ایک دن پوچھا کہ ابو الہیثم کون ہیں؟ جن کے لیے آپ دعا کرتے رہتے ہیں؟ فرمایا: جس دن مجھے کوڑے مارنے کے لیے نکالا گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ پیچھے سے ایک آدمی میرے کپڑے کھینچ رہا ہے۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو اس نے اپنا تعارف کرایا کہ میں مشہور جیب تراش اور ڈاکو ابو الہیثم ہوں، سرکاری ریکارڈ میں یہ بات محفوظ ہے کہ مجھے مختلف اوقات میں بے شمار کوڑے مارے گئے، لیکن میں نے حقیر دنیا کی خاطر شیطان کی اطاعت پر پوری استقامت کا مظاہرہ کیا، آپ تو دین کے ایک بلند ترین مقصد کے لئے قید ہوئے ہیں، اس لیے کوڑے کھاتے ہوئے دین کی خاطر رحمان کی اطاعت پر صبر و استقامت سے کام لیجیے۔
اس کی اس بات سے امام احمدؒ کا حوصلہ مزید مضبوط ہوا، معلوم نہیں ابو الہیثم کو اپنا یہ جملہ بعد میں یاد رہا بھی کہ نہیں، لیکن امام احمدؒ کو یاد رہا، کہ زندگی کی ایک کٹھن منزل میں کسی کے جملے سے حوصلہ بلند ہوا تھا۔
( مناقب امام احمد صفحہ نمبر 316) رونے والے قاضی!
امام ابو یوسفؒ کے زمانے میں قضاء میں ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید اور ایک نصرانی کا مقدمہ ان کے پاس آیا، امام نے فیصلہ نصرانی کے حق میں کیا۔
وفات کے وقت یہ فرمانے لگے: ’’خدایا! تجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنے زمانہ قضا میں مقدمات کے فیصلے کرنے میں کسی بھی فریق کی جانبداری نہیں کی، حتیٰ کہ دل میں کسی ایک فریق کی طرف میلان بھی نہیں کیا، سوائے نصرانی اور خلیفہ ہارون رشید کے مقدمے کے، کہ اس میں دل کا رحجان اور تمنا یہ تھی کہ حق ہارون رشید کے ساتھ ہو اور فیصلہ حق کے مطابق اسی کے حق میں ہو، لیکن فیصلہ دلائل سننے کے بعد ہارون رشید کے خلاف کیا۔‘‘ یہ فرما کر رونے لگے اور اس قدر روئے کہ دل بھر آیا۔ (کتابوں کی درسگاہ میں)
٭٭٭٭٭