کراچی پولیس سوشل میڈیا پر شیر بننے لگی

اقبال اعوان
کراچی پولیس کے افسران اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے لگے۔ معمولی ملزمان کو گرفتار کر کے واٹس ایپ گروپوں میں انہیں بڑا جرائم پیشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں کیس کو خاموشی سے نمٹاکر ملزمان کو جیل بھجوا دیتے ہیں۔ زمان ٹائون پولیس نے معمولی اسٹریٹ کرمنلز کو سرکاری افسران کے بچوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ گروہ ظاہر کیا تھا۔ جبکہ کاغذ چننے والے لڑکے کو بچے اغوا کرنے والے گروہ کا غیر ملکی کارندہ ظاہر کر کے کریڈٹ لیا تھا۔ تاہم معاملہ کچھ اور نکلا۔ ادھر نیپیئر پولیس 8 ماہ کی بچی کے اغوا کے معاملے کا تاحال سراغ نہیں لگا سکی۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں جرائم بڑھنے کی وجہ پولیس کے اپنے کرپٹ اہلکار ہیں جو جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی، ان کرپٹ اور مجرموں کی سرپرستی کرنے والے افسران و اہلکاروں کی فہرستیں بنوا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں جرائم کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ ڈکیت، چور اچکے، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والے، بچے اغوا کرنے والے، جیب کترے، لینڈ مافیا، جواری اور منشیات فروش سرگرم ہو چکے ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران جانتے ہیں کہ پولیس کے اہم شعبوں اور 108 تھانوں کے اندر موجود بعض افسران و اہلکار خود جرائم پیشہ کے ساتھ ملوث ہیں اور ان کو سرپرستی فراہم کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ایک جانب سابق آئی جی سندھ حیدر جمالی سمیت دیگر اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کے خلاف کیسز اور انکوائریاں چل رہی ہیں۔ دوسری جانب ایڈیشنل آئی جی کراچی نے 175 افسران و اہلکاروں کی فہرست تیار کرا لی ہے۔ کراچی کے 108 تھانوں میں ماہانہ بھتہ لے کر غیرقانونی کاموں کی اجازت اور سرپرستی کرنے والے، منشیات فروش، لینڈ گریبر اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے والے دو ڈی ایس پیز، گیارہ انسپکٹرز اور دیگر اہلکار شامل ہیں جن کے خلاف احتساب کا عمل جاری ہے۔ شہر میں جرائم میں اضافے کی وجوہات میں پولیس کی کالی بھیڑوں کا ملوث ہونا بھی شامل ہے۔ ضلع ملیر کے سابق ایس ایس پی رائو انوار کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ کوئی پولیس مقابلہ یا کارروائی کرتا تھا تو اس کے ساتھی افسران سوشل میڈیا پر خبریں چلاتے تھے اور پولیس کے اعلیٰ افسران لاعلمی کا اظہار کرتے تھے کہ ابھی انہیں علم نہیں ہوا ہے، جس کے بعد پولیس افسران و اہلکاروں کو سوشل میڈیا سے دور کر دیا گیا تھا کہ پہلے اعلیٰ افسران کو کارروائی کا بتائیں، وہ پریس کانفرنس کریں گے۔ تاہم کراچی کے پولیس افسران ایک بار پھر اپنی معمولی کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لینے لگے اور میڈیا کو گمراہ کرنے لگے ہیں۔ زمان ٹائون پولیس نے چند روز قبل خوب ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ پولیس نے تین ڈاکو گرفتار کئے ہیں جن پر شہر کے 12 تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔ یہ ڈاکو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور سرکاری افسران کے بچے ہیں۔ یہ 200 سے زائد لوٹ مار کے مقدمات میں ملوث ہیں۔ پولیس نے ان کے خلاف ایک گھر میں ڈکیتی اور اسلحہ برآمدگی کا مقدمہ درج کیا، بعد ازاں کورٹ میں ایک روز کا جسمانی ریمانڈ مانگا گیا۔ ’’امت‘‘ نے جب شعبہ تفتیش کے انسپکٹر اسلم مغل سے بات چیت کی تو انہوں نے کچھ بتانے سے انکار کر دیا کہ ابھی تفتیش جاری ہے۔ اگلے روز کہا کہ ان کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جن ملزمان کو سرکاری افسران کے بچے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ قرار دیا گیا تھا ان کی حقیقت یہ تھی کہ ملزم عدنان کراچی پولیس میں حاضر سروس سپاہی رمضان کا بیٹا ہے جبکہ اس نے اپنے ساتھ بحری سیکورٹی پر مامور ایک ادارے کے سابق اہلکاروں کے دو بچوں کو ملایا ہوا تھا، جن میں عبدالواصف ولد ایوب اور عتیق ولد شفیق شامل تھے۔ تینوں ملزم گھروں پر یا لوگوں کو سڑکوں پر لوٹتے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں بلکہ عتیق اور عبدالواصف کینٹ اسٹیشن کے قریب ایک لینگویج سینٹر میں کچھ دن پڑھے تھے۔ ’’امت‘‘ نے زمان ٹائون تھانے کے انچارج سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں خفیہ اطلاع ملی تھی کہ گھروں میں ڈکیتی والے ملزمان کا گروہ علاقے میں موجود ہے۔ وہ نفری کے ساتھ سیکٹر 51/C میں گئے تو ایک ملزم ہوٹل سے نکل کر بھاگا۔ اس کو پکڑا گیا تو اس نے مزید نشاندہی کی، اس طرح گروہ پکڑا گیا۔ دوسری جانب زمان ٹائون پولیس نے 16 سالہ کچرے چننے والے افغانی لڑکے عبدالخالق کو پکڑا تھا کہ وہ 4 سالہ بچے ارسلان کو بوری میں ڈال کر اغوا کر کے لے جارہا تھا کہ علاقے والوں نے پکڑ لیا۔ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ ملزم افغانستان سے 15 روز قبل کراچی آیا ہے اور بڑے گروہ کا کارندہ ہے۔ ’’امت‘‘ نے تھانے میں جاکر صورت حال دیکھی تو معلوم ہوا کہ 5 روز تک ملزم بچے سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی کہ افغانی زبان سمجھنے والا کوئی اہلکار نہیں تھا اور بچہ دوسری زبان نہیں جانتا ہے۔ یہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ قریبی علاقے کے پلاٹ میں رہتا تھا۔ اب اس کو فارن ایکٹ کے تحت جیل بھیجا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس افسران کیسز پکڑ کر اچھی طرح تفتیش کر کے اعلیٰ افسران کے ذریعے میڈیا کو بریف کریں تو شہر سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔
دوسری جانب شہر میں اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے اور ملزمان کی گرفتاری کیلئے خفیہ کیمروں کا جال بچھانے کا منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔ اس منصوبے کا مقصد جرائم پیشہ عناصر پر نگاہ رکھنا، مجرموں کو کیمروں کے ذریعے پکڑنا، گاڑیوں کی رجسٹریشن نمبرز کے ذریعے کھوج کرنا ہے۔ اسی طرح جو 10 ہزار نئے خفیہ کیمرے شہر میں لگائے تھے ان میں سے بیشتر خراب پڑے ہیں۔ ادھر شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر تھانے کی سطح پر شکایت بکس ہونا چاہئے اور اعلیٰ افسران کھلی کچہری لگا کر پولیس کے خلاف شکایتیں سنیں اور کرپٹ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment