امریکہ نے ہوورڈیم بدترین اقتصادی بحران میں تعمیر کیا

عارف انجم
مغرب ہو یا مشرق بڑے ڈیموں کی تعمیر تنازعات سے خالی نہیں رہی۔ کہیں سیاسی تنازعات کے باعث پانی کے ذخائر بنانے میں تاخیر ہوتی ہے تو کہیں ڈیم ٹوٹنے کے خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں دیامیر بھاشا ڈیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مالی وسائل کی عدم موجودگی ہے۔ اور مالی وسائل دستیاب نہ ہونے کا سبب پاکستان کے معاشی حالات ہیں۔ تاہم پاکستان اتنے بڑے معاشی بحران سے نہیں گزر رہا جتنا بڑا بحران 1929ء میں امریکہ سمیت مغربی دنیا میں آیا تھا۔ اسے عظیم کساد بازاری یا گریٹ ڈپریشن کا نام دیا گیا تھا۔ اس دوران امریکہ میں بے روزگار اور بے گھر افراد کی قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔ جو دن بھر کھڑے امداد یا مفت کھانے کے منتظر رہتے۔ بیروزگاری 3 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہوگئی۔ لوگ کارڈ بورڈ اور اسکریپ سے بنے گھروں میں بسیرا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ایسے گھروں پر مشتمل بستیاں ہوور ویلز کے نام سے مشہور ہوگئیں۔ کئی مقامات پر حکومت کو شرم دلانے کیلئے پہلی جنگ عظیم سے لوٹنے والے فوجیوں کی بطور غلام علامتی نیلامی کی گئی۔ تاہم اس عظیم کساد بازاری کے دوران امریکہ نے ریاست نیواڈا میں ہوور ڈیم تعمیر کرلیا۔ جو اس وقت دنیا کا سب سے اونچا اور سب سے بڑا ڈیم تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر اور حکومت کے دیگر منصوبوں نے نہ صرف امریکہ کو کساد بازاری سے نکالا۔ بلکہ ہوور ڈیم امریکی عوام کیلئے نئی امید کے طور پر سامنے آیا اور ان کے عزم کی علامت بن گیا۔ گو کہ 1929ء کا امریکی بحران اور پاکستان کی مشکل اقتصادی صورتحال کی نوعیت ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہے۔ ہووور ڈیم کی تاریخ سے کئی اسباق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جنوبی علاقے اور ریاست ایریزونا میں 19 ویں صدی کے آخر میں ہی امریکی آباد کاروں نے قدم جمانے شروع کردیئے تھے۔ یہاں کی زمین زرخیز تھی۔ دریائے کولوراڈو سے پانی بھی مل سکتا تھا لیکن دستیابی ناقابل اعتبار تھی۔ موسم بہار کے اختتام اور گرمیوں کے آغاز پر جب پہاڑوں میں برف پگھلتی دریا میں سیلاب آجاتا۔ گرمیوں کے وسط تک کسان پانی کو ترس رہے ہوتے۔ بالآخر انہوں نے دریائے کولوراڈو سے الامو نہر نکالی۔ کسانوں نے اپنے طور پر پانی ذخیرہ کرنے کے مختلف حربے بھی اختیار کیے۔ جنوبی کیلی فورنیا میں امپیریل وادی نامی علاقہ اپنی زرخیزی کے لیے مشہور ہوگیا۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز پر 1905ء میں دریائے کولوراڈو میں ایک بڑا سیلاب آیا اور سب کچھ بہا لے گیا۔ نہر برباد ہو گئی۔ اگلے 20 برس میں امپیریل وادی کے کسانوں کی بحالی پر حکومت کو ایک کروڑ ڈالر خرچ کرنا پڑے جو اس وقت ایک خطیر رقم تھی۔ امریکہ میں آبی وسائل کی تنظیم کا ادارہ بیورو آف ری کلیمیشن (پاکستانی ادارے واپڈا کا مساوی) پہلے ہی دریائے کولوراڈو پر ڈیم بنانے کے بارے میں جائزہ لے رہا تھا۔ سیلاب نے ڈیم کی اہمیت بڑھا دی۔ لیکن ڈیم کا منصوبہ بنانے سے بھی پہلے سیاسی اتفاق رائے ناگزیر تھا۔ دریائے کولوراڈو امریکہ کی 7 ریاستوں وائی منگ، اوٹاہ، کولوراڈو، نیواڈا، کیلی فورنیا، ایریزونا اور نیو میکسیکوسے گزرتا ہے۔ یوں کولوراڈو طاس کی ان ریاستوں کا اتفاق رائے ضروری تھا۔ ڈیم ریاست نیواڈا میں بننا تھا۔ 1922ء میں تمام ساتوں ریاستوں کا اجلاس ہوا اور مذاکرات شروع ہوگئے۔ جن کی قیادت اس وقت کے وزیر تجارت (بعد میں صدر) ہربرٹ ہووور کر رہے تھے۔ بیشتر ریاستوں کو خدشہ تھا کہ ڈیم کا زیادہ پانی کولوراڈو طاس کے زیریں حصے میں (یعنی ڈیم کے بعد) واقع ریاست کیلی فورنیا کو ملے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیم کی تعمیر پر زیریں علاقے کے بجائے ڈیم سے اوپر واقع ریاستوں کو زیادہ اعتراض تھا۔ اسی دوران امریکی سپریم کورٹ میں وائی منگ اور کولوراڈو کے درمیان ایک الگ مقدمے پر فیصلہ آیا۔ اس فیصلے میں پانی پر بالائی ریاستوں کے دعوے کو مسترد کر دیا گیا اور ایک نظیر قائم ہو گئی۔ اس فیصلے سے نیواڈا کے ڈیم کے معاملے پر بالائی ریاستوں کے اعتراضات تقریباً بے معنی ہوگئے۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے نیواڈا میں بولڈر کینین (گھاٹی) کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ لیکن یہاں ایک جغرافیائی دراڑ کی وجہ سے یہ جگہ ناموزوں ثابت ہوئی۔ اس کے بعد کچھ نیچے بلیک کین ین (سیاہ گھاٹی) کی جگہ پر ڈیم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ جلد ہی کولوراڈو معاہدہ تیار ہوگیا لیکن تمام ریاستیں اس پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ مزید چھ برس گزر گئے۔ 1928ء میں امریکی کانگریس نے ڈیم کی تعمیر کیلئے بولڈر کین ین پراجیکٹ کی منظوری دیدی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اگر 7 میں سے 6 ریاستیں بھی معاہدے پر دستخط کر دیتی ہیں تو ڈیم کی تعمیر شروع کر دی جائے گی۔ مارچ 1929ء میں معاہدے پر دستخط کرنے والی اوٹاہ چھٹی ریاست بن گئی۔ ایریزونا نے آخر وقت تک منظوری نہ دی۔ ڈیم بننے کے کئی برس بعد 1944ء میں ایریزونا کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ شروع میں ڈیم کا نام بھی بولڈر ڈیم رکھا گیا، جو بعد میں ہربرٹ ہووور کے نام پر ہوور ڈیم ہوگیا۔
کولوراڈو معاہدے کے وقت تخمینہ لگایا گیا تھا کہ دریا میں ہر برس 1 کروڑ 65 لاکھ ایکڑ فٹ پانی آئے گا۔ طے یہ پایا کہ 75 لاکھ ایکڑ فٹ پانی بالائی ریاستیں اور اتنا ہی زیریں ریاستوں کو دیا جائے گا، جبکہ باقی پانی میکسیکو کو جانے دیا جائے گا۔ بالائی ریاستیں کم ازکم 75 لاکھ ایکڑ پانی نیچے جانے دیں گی۔ سیاسی تنازعات، موزوں جگہ کے انتخاب اور ڈیزائن کے معاملات طے کرتے کرتے 1931ء میں جب ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو امریکہ عظیم کساد بازاری کی لپیٹ میں تھا۔ تاہم اس کساد بازاری کی نوعیت پاکستان کے موجودہ حالات سے مختلف تھی جہاں حکومت کے پاس خزانے میں رقم نہیں اور وزیراعظم عمران خان ستمبر کے وسط میں کہہ چکے ہیں کہ ملک چلانے کیلئے پیسہ نہیں ہے۔ پاکستان کے برعکس امریکہ کی حکومت کے پاس دولت موجود تھی لیکن وہ اسے خرچ نہیں کر رہی تھی۔ 1929ء کے اسٹاک مارکیٹ کریش کے بعد ہر قسم کا کاروبار ٹھپ ہونے لگا۔ نتیجتاً لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اقتصادی شعبے میں اتنا خوف و ہراس پھیلا کہ نجی شعبے میں لوگ سرمایہ کاری کو آمادہ نہ ہوتے۔ سرمایہ کاری ہوتی تو روزگار بھی ملتا۔ سرمایہ کاری رکنے سے جڑا ایک اہم معاملہ رقم کی دستیابی (money supply) کا تھا۔ 1933ء سے پہلے دنیا کی تقریباً ہر بڑی کرنسی سونے سے منسلک تھی۔ امریکہ میں کئی عشروں تک کوئی بھی شخص کسی بھی وقت20 اعشاریہ 67 ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا خرید سکتا تھا۔ سونے کے معیار پر کھڑی کرنسی رکھنے والا کوئی بھی ملک مزید نوٹ اس وقت تک نہیں چھاپ سکتا تھا جب تک وہ اتنی مالیت کا مزید سونا اپنے خزانے میں نہ رکھ لیتا۔ اس صورتحال نے امریکی حکومت کیلئے ایک نئی مشکل پیدا کردی۔ نجی شعبے کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ شرح سود کم کی جائے۔ تاہم جب شرح سود کم کی جاتی تو لوگوں کیلئے ڈالر غیر منافع بخش ثابت ہونے لگتا اور وہ اسے بیچ کر سونا خریدنا شروع کر دیتے۔ امریکی خزانے سے سونے کا اخراج شروع ہوجاتا۔ مجبوراً حکومت کو شرح سود بڑھانا پڑی۔ شرح سود بڑھنے سے ڈالر کی فروخت تو رک گئی لیکن سرمایہ کاری بھی جمود کا شکار ہوگئی۔ کیونکہ مہنگے سود پر لیے گئے قرض سے کاروبار ناممکن تھا۔ ہربرٹ ہووور جو اس وقت تک صدر بن چکے تھے، سرکاری خزانے سے رقم خرچ کرنے کے معاملے پر تذبذب میں مبتلا رہے۔ بحران حل کرنے میں ناکامی کی قیمت انہیں صدارتی انتخابات ہارنے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ 1932ء میں فرینکلن ڈی روز ویلٹ نئے صدر منتخب ہوگئے۔
روز ویلٹ نے آتے ہی ’’نیو ڈیل‘‘ کا اعلان کیا جس کے تحت بینکنگ اور مالیاتی نظام میں اصلاحات کے علاوہ حکومت نے بیروزگاری ختم کرنے کیلئے سرکاری خرچ سے منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہربرٹ ہووور اپنے دور میں اس قسم کا بے باک اقدام تو نہ کر سکے لیکن ان کی حکومت میں شروع ہونے والے ہووور ڈیم کے منصوبے نے بیک وقت کم ازکم 7 ہزار افراد کیلئے روزگار کا انتظام کر دیا (مجموعی طور پر مختلف اوقات میں کل 21 ہزار افراد نے ڈیم پر کام کیا)۔ حکومت نے ڈیم کے قریب ہی بولڈر سٹی کے نام سے نیا شہر بھی بسایا۔ ہووور ڈیم کی بدولت ہزاروں افراد کساد بازاری سے باہر آگئے۔ ہووور ڈیم اور اس جیسے منصوبے درحقیقت لوگوں کو کساد بازاری سے نکالنے کا راستہ تھے۔ صدر ہربرٹ ہووور کو یہ راستہ سجھائی نہیں دیا۔ روز ویلٹ نے اسے اپناکر چار مرتبہ صدارتی انتخاب جیتا۔ ہووور ڈیم کا منصوبہ بھی ان کی نیو ڈیل کا حصہ بن گیا۔
تاہم ڈیم پر کام شروع ہونے کے بعد کئی برس تک کساد بازاری کے ا ثرات اور نتائج ہر جگہ محسوس کیے گئے۔ کام کے دوران مزدوروں کی ہلاکت اور خراب حالت کے باعث ایک مرتبہ جب کارکنوں نے ہڑتال کی تو ڈیم کا ٹھیکہ لینے والی 6 کمپنیوں کے کنسورشیم نے 1400 افراد کو برطرف کر دیا۔ مزدور خراب حالات میں بھی کام کرنے پر مجبور تھے۔ کیونکہ اگر وہ نہ کرتے تو امریکہ میں موجود بیروزگاروں کی فوج میں سے کوئی نہ کوئی ان کی جگہ لے لیتا۔ بیروزگاری کا یہ عالم تھا کہ ڈیم پر کام شروع ہونے سے کئی مہینے پہلے ہی مزدوروں کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی تھی۔ یہ لوگ کاروں میں جھونپڑیاں بنا کر وہاں مقیم رہے۔ بعد میں مزدوروں کو بولڈر سٹی منتقل کیا گیا۔ ایک اور پریشانی مزدوروں کو تنخواہوں کی ادائیگی کی تھی۔ ڈیم پر کام کرنے والوں کو آدھی تنخواہ ڈالر کی صورت میں ملتی اور باقی تنخواہ کی جگہ انہیں کاغذی رسیدیں دینے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ ٹھیکیدار کمپنیوں کی جاری کردہ یہ رسیدیں بولڈر سٹی میں خرید و فروخت کیلئے کرنسی نوٹوں کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے لگیں۔ بولڈر سٹی، حکومت کے مقرر کردہ ایک ناظم کے زیر انتظام تھا جس نے وہاں شراب اور جوئے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ ان دونوں چیزوں کے شوقین قریب واقع لاس اینجلس شہر کا رخ کرتے اور وہاں بھی انہی کاغذی رسیدوں کے ذریعے ادائیگی کرتے۔ انہیں امریکہ میں سکرپ (SCRIP ) کہا جاتا۔ کئی دیگر مقامات پر بھی کمپنیاں سکرپ کی صورت میں ادائیگی پر مجبور تھیں۔ 1933ء میں صدر روز ویلٹ نے سونے کے معیار پر کرنسی کے اجرا کا سلسلہ ختم کردیا۔ ڈالر اور سونے میں تعلق باقی نہ رہنے سے فیڈرل ریزور کو اضافی سونا رکھے بغیر مزید نوٹ چھاپنے کی اجازت مل گئی اور یوں سکرپ میں ادائیگی کا سلسلہ ختم ہوا۔
ہوور ڈیم کی تعمیر کے دوران کم ازکم 96 مزدور حادثات میں ہلاک ہوئے۔ مزید 42 کی نمونیا سے ہلاکتیں ہوئیں۔ ان ہلاکتوں کے بارے میں کارکنوں کا کہنا تھا کہ یہ درحقیقت ڈیم کی سرنگوں میں گاڑیوں کے دھویں سے بیمار ہو کر مرے ہیں۔ احتجاجی مزدوروں کی سننے والا کوئی نہیں تھا، نہ کام جاری رکھنے کے سوا ان کیلئے کوئی راستہ تھا۔ امریکہ میں مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت بیروزگاری نہ پھیلی ہوتی تو اتنے خراب حالات میں مزدوروں کو کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یوں عظیم کساد بازاری ایک طرح سے ڈیم بنانے والوں کی معاون بن گئی۔
ہوور ڈیم پر صرف پانی کی تقسیم کا جھگڑا ہی نہیں تھا۔ کئی لوگوں نے اتنا بڑا ڈیم بنانے پر اعتراضات اٹھائے۔ بولڈر کی جغرافیائی دراڑ (فالٹ) کا معاملہ پہلے ہی سامنے آچکا تھا۔ کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈیم بننے سے پانی کے بہت بڑے ذخیرے کا وزن زمین کی بالائی پرت (crest) پر پڑے گا اور زلزلے آئیں گے۔ جن کے نتیجے میں ڈیم کی مرکزی دیوار ٹوٹ جائے گی اور بڑا علاقہ سیلاب میں ڈوب جائے گا۔ (یہ اعتراضات بالکل بے بنیاد بھی نہ تھے۔ ہوور ڈیم بننے کے کچھ عرصے بعد علاقے میں 600 زلزلے آچکے ہیں)۔ چونکہ اس وقت اتنا بڑا ڈیم دنیا میں کہیں تعمیر نہیں ہوا تھا اور 1928ء میں لاس اینجلس کے قریب سینٹ فرانسس ڈیم ٹوٹنے سے600 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ اس لیے ہوور ڈیم سے متعلق کئی طرح کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔ ڈیم کا ٹھیکہ لینے والی چھ کمپنیوں نے اس وقت ڈیموں کی تعمیر کے ماہر سمجھنے جانے والے فرینک کرو کی خدمات حاصل کیں۔ ہوور ڈیم نامی کتاب کی مصنفہ لیسلے ڈو ٹیمپل کے مطابق ’’اس وقت چوٹی کے انجینئرز نے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ڈیم بنانا ممکن ہی نہیں۔ ڈیم کے آبی ذخیرے سے زمین پر دبائو پڑے گا۔ زلزلے آئیں گے اور ڈیم ٹوٹ جائے گا۔ راستے میں آنے والی ہر چیز بشمول ریاست کیلی فورنیا بہہ جائے گی‘‘۔ ڈیم پر اعتراضات کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کانگریس کو انجیئنرز پر مشتمل ایک بورڈ بنا کر بھیجنا پڑا۔ اس بورڈ نے ڈیم منصوبے کو قابل عمل قرار دیا۔ تاہم ساتھ ہی انتہائی محتاط رہنے کی ہدایت بھی کی۔ لیسلے کے مطابق مارچ 1931ء میں جب فرینک کرو بلیک کینین پہنچے تو وہ جانتے تھے کہ انہیں تمام معترضین کو غلط ثابت کرنا ہے۔
فرینک کرو کی شہرت کی وجہ سے چھ کمپنیوں کا کنسورشیم ان کے گرد قائم ہوگیا۔ 4 کروڑ 89 لاکھ میں ٹھیکہ اس کنسورشیم کو دے دیا گیا۔ ڈیم کیسے بننا تھا، اس کی تفصیلات سرکاری ادارے بیورو آف ری کلیمیشن نے فراہم کیں۔ ہر مرحلے کی ڈیڈ لائن مقرر تھی اور باقاعدہ معائنہ ہوتا تھا۔ تاخیر پر جرمانے مقرر کیے گئے۔ فرینک کرو کی قیادت میں ڈیڈ لائن سے تقریباً دو برس پہلے 1935ء میں تعمیر مکمل ہوگئی۔ ڈیم کے مقام پر دریائے کولوراڈو کے دونوں اطراف پہاڑیوں میں 65 فٹ چوڑی دو دو سرنگیں بنائیں گئیں۔ بفر ڈیم (عارضی دیوار) تعمیر کرکے پانی کو ان 4 سرنگوں میں منتقل کیا گیا۔ جب دریا کا پانی ان سرنگوں سے گزرنے لگا تو درمیان کا علاقہ خشک کرکے وہاں کنکریٹ سے ڈیم کی مرکزی دیوار تعمیر کی گئی۔ مرکزی دیوار تعمیر ہونے کے بعد بفر ڈیم ختم کر دیا گیا۔ چاروں سرنگوں میں بجلی پیدا کرنے کیلئے ٹربائنز اور جنرل لگے ہوئے ہیں۔ جن سے دو ہزار80 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔
ڈیم کی دیوار ٹوٹنے سے متعلق خدشات غلط ثابت ہوئے۔ اس کا سبب ڈیم کا ڈیزائن ہے۔ ہوور ڈیم ایک گھاٹی میں 726 اعشاریہ چار فٹ اونچی اور 1,244 فٹ لمبی دیوار کھڑی کرکے بنایا گیا ہے۔ بنیادوں میں اس دیوار کی موٹائی 660 فٹ ہے، جو بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور اوپر 45 فٹ رہ جاتی ہے۔ ٹھوس کنکریٹ سے بنی یہ دیوار خم دار ہے، جس کا خم پانی کی طرف بڑھا ہوا ہے۔ اس طرح پانی کا تمام تر وزن دیوار پر نہیں آتا بلکہ دونوں
جانب پہاڑیوں پر تقسیم ہو جاتا ہے۔ تکنیکی زبان میں اسے گریویٹی آرچ (کشش ثقل اور خم دار دیوار پر مبنی) ڈیم کہتے ہیں۔ ایک جانب دیوار کی چوڑی بنیاد اپنی کشش ثقل کے ذریعے پانی کا دبائو برداشت کرتی ہے تو دوسری جانب اس کا خم خاصا دبائو ملحقہ پہاڑیوں پر منتقل کرتا ہے۔
ہوور ڈیم نے صرف وہاں کام کرنے والوں کو روزگار ہی نہیں دیا، بلکہ آنے والے برسوں میں کیلی فورنیا، ایری زونا اور دیگر کئی امریکی ریاستوں میں زرعی انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر عظیم کساد بازاری کے دوران یہ ڈیم امریکی قوم کیلئے امید کی کرن ثابت ہوا۔ ڈیم پر کام کرنے والے بیورو آف ری کلیمشن کے ایک انجینئر نے اسے خدا کی طرف سے عطا کردہ تحفہ قرار دیا۔ والکر ینگ نے ’’بلڈنگ ہوور ڈیم، این اورال ہسٹری‘‘ (ہوور بندکی تعمیر، ایک زبانی تاریخ) نامی کتاب کیلئے انٹرویو میں کہا کہ ’’خدا نے ڈیم کی جگہ وہاں بنا دی تھی۔ انسان کو بس اسے تلاش کرنا تھا‘‘۔ بہت سے امریکیوں کی نظر میں ہوور ڈیم تعمیر کرکے امریکی قوم نے اپنے اتحاد اور ناقابل تسخیر کو تسخیر کرنے کا ثبوت دے دیا تھا۔ کچھ یہی بات صدر روز ویلٹ نے 30 ستمبر 1935ء کو ڈیم کے افتتاح پر کہی۔ مائیکل ہلزک نے اپنی کتاب ’’ہوور ڈیم اینڈ میکنگ آف امریکن ہسٹری‘‘ میں روز ویلٹ کے الفاظ نقل کیے۔ امریکی صدر نے کہا، یہ ڈیم صرف انسانی تسخیر کا ثبوت ہی نہیں، بلکہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ لوگ سماجی اور اقتصادی کمیونٹی کا حصہ بن کر بھی خود کو عظیم محسوس کرتے ہیں۔ صدر روزویلٹ نے کہا کہ ڈیم کے لیے (سود سمیت) 10 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی لاگت پہلی نظر میں شاید بہت بڑی دکھائی دے لیکن اس ڈیم کے نتیجے میں ملک بھر میں جس طرح لوگوں کا حوصلہ بڑھا اور مستقبل کے سرکاری منصوبوں کیلئے ایک مثال قائم ہوئی اس کے سامنے یہ بہت معمولی ہے۔
ہوور ڈیم امریکہ کے سیاستدانوں کیلئے کامیابی کی اتنی بڑی علامت بن گیا کہ ڈیمو کریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر رو زویلٹ کی انتطامیہ اس کا نام ’’بولڈر ڈیم‘‘ رکھنے پر مصر تھی۔ کیونکہ انہیں اسے اپنے ری پبلکن حریف ہربرٹ ہوور سے منسوب کرنا پسند نہیں تھا۔ دوسری جانب ہربرٹ ہوور بھی اس منصوبے کا سہرا اپنے سر سجانے کیلئے سرگرم رہے اور بالآخر 1947ء میں کانگریس نے ایک بل منظور کرکے اس کا نام ’’ہوور ڈیم‘‘ رکھ دیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ جہاں ہوور ڈیم کی تعمیر امریکی تاریخ کا اہم سنگ میل تھی۔ وہیں اس ڈیم کی بنیاد بننے والا ’’دریائے کولوراوڈ معاہدہ ‘‘ ایک آئینی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment