ریڈیو پاکستان کی منتقلی سے 80 فیصد پروگرام بند ہوجائیں گے

محمد زبیر خان
ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی منتقلی سے 80 فیصد نشریاتی پروگرام بند ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میڈیا وار میں بھارت سے پیچھے رہ جائے گا۔ سب سے زیادہ نقصان تحریکِ آزادیِ کشمیر کو پہنچے گا۔ پی بی سی کی موجودہ عمارت میں 20 اسٹوڈیوز ہیں۔ جو جاپان کی حکومت نے دو ارب روپے سے تعمیر کرائے تھے۔ نئی بلڈنگ انتہائی چھوٹی ہے اور اس میں ایک بھی اسٹوڈیو موجود نہیں۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیڈمی کی عمارت جہاں پر ریڈیو پاکستان کو منتقل کرنے کا کہا جا رہا ہے، اس کے کچھ حصے پہلے ہی لیز پر دیئے جا چکے ہیں اور کچھ حصوں پر ہاسٹل قائم ہیں۔ دوسری جانب ریڈیو پاکستان کی یونین نے منتقلی کے خلاف سخت احتجاج کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ ڈی جی پاکستان براڈ کاسٹنگ کا دفتر میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اصلاحات کے نام پر ریڈیو پاکستان اسلام آباد کو دوسری عمارت میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کی سات منزلہ عمارت میں اس وقت پندرہ سو کے قریب ملازمین کام کر رہے ہیں اور اس میں بیس سے زائد اسٹوڈیو قائم ہیں۔ یہ نیٹ ورک روزانہ سات سو منٹ کی خبریں انگریزی، اردو اور مختلف 29 علاقائی زبانوں میں پیش کرتا ہے۔ اس کی نشریات مقبوضہ کشمیر سے لے کر فاٹا اور ایسے علاقوں تک بھی سنی جاتی ہیں، جہاں کوئی اور میڈیا اب تک موجود نہیں ہے۔ پی بی سی کی موجودہ سات منزلہ عمارت میں شعبہ انجینیئرنگ، پروگرامنگ، ایڈمن، پی آر، فنانس اور ہیڈ کوارٹر ایڈمن کے دفاتر قائم ہیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری جب 21 اگست کو ملک کے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کو آزادی دینے کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ تین ماہ تک بڑے اور فوری فیصلے کرنے کا اشارہ دے رہے تھے۔ نیز دونوں اداروں کی اکیڈمیوں کو اکٹھا کر کے میڈیا یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی بات بھی کی گئی۔ تو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اصل میں ان کا اشارہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کی عظیم الشان عمارت کی جانب ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ 17 ستمبر کو وزارتِ اطلاعات کے ڈائریکٹر دانیال گیلانی نے پی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل شفقت جیلانی کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ’’ہوسکتا ہے ریڈیو پاکستان ہیڈکوارٹرز کو طویل مدت کے لیے لیز پر دے دیا جائے اور پی بی سی کو ایچ نائن میں واقع اکیڈمی میں شفٹ کرنے کے لئے ایک پرپوزل تیار کیا جائے‘‘۔ اس اطلاع کے فقط دو روز بعد ہی حیرت انگیز طور پر ایک اور نوٹس ادارے کے حکام کو موصول ہوا، جس کا عنوان تھا، ’’شفٹنگ آف ریڈیو ہیڈ کوارٹرز‘‘۔
ریڈیو پاکستان کے ذرائع کے مطابق سال 2014ء میں جاپان کی حکومت نے دو بلین (ارب) روپے سے دو جدید ترین اسٹوڈیو ریڈیو پاکستان کو نصب کر کے دیئے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ ان اسٹوڈیوز کی ایک تار کی منتقلی بھی عملاً ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے۔ ریڈیو کے اسٹوڈیو اور اس کے آلات میز کرسیاں نہیں، جو اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کردی جائیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت عمارت میں 20 سے زائد اسٹوڈیوز ہیں، جن میںمختلف زبانوں میں پروگرام تیار کئے جاتے ہیں اور تقریباً 24 گھنٹے مختلف شفٹوں میں کام جاری رہتا ہے۔ اب جس عمارت میں منتقلی کی بات کی جا رہی ہے، وہاں مجموعی طور پر بیس کمرے بھی موجود نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق جاپان نے جو اسٹوڈیو تیار کراکے دیئے ہیں، ان کو چھوڑ کر ہر ایک اسٹوڈیو پر کروڑوں کی لاگت آئی ہے۔ اسی طرح ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر نیا اسٹوڈیو تیار بھی کیا جائے تو اس میں کم ازکم چھ ماہ لگتے ہیں اور اس کو سائونڈ پروف بنانے کے لئے کئی آلات باہر سے منگوانے پڑتے ہیں۔ ریڈیو سے وابستہ کئی ماہرین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جو کچھ حکومت کرنے جارہی ہے، یہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ منتقلی کے لئے جو سرمایہ چاہیے، وہ کہاں سے آئے گا۔
ادھر ریڈیو پاکستان یونین کے جنرل سیکریٹری محمد اعجاز نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت قومی اثاثے کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ڈی جی پاکستان براڈ کاسٹنگ شفقت جلیل براہ راست اس سازش میں ملوث ہیں۔ اب ہمارا احتجاج ان کے خلاف ہوگا اور انہیں اس وقت تک ان کے دفتر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک حکومت اس اعلان کو واپس نہیں لیتی۔ اگر عمارت قیمتی ہے تو یہ ریاست پاکستان کی عمارت ہے اور اس میں کام ہو رہا ہے اور اتنا کام ہو رہا ہے جس کا حکمران سوچ بھی نہیں رہے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت کیا کرنے جارہی ہے، ہمیں نہیں پتا۔ لیکن ہم اس حکومت کو یہ کام نہیں کرنے دیں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment