بادشاہ نے دیوان خاص سے باہر قدم رکھا تو پیشی کے خواصی نے تین تسلیمیں ادا کیں اور حکم کا منتظر ہوا۔ یہ اس لئے کہ جہاں پناہ کبھی کبھی کسی شاہزداے یا کسی بڑے منصب دار سلطنت کو بھی حمام میں طلب فرما لیتے تھے۔ بادشاہ ایک لمحے کے لئے رکے، پھر انہوں نے بہت نرم سروں میں خواصی سے فرمایا: ’’احترام الدولہ باریابی کے ملتمس تھے۔ کیا وہ نشست میں موجود ہیں؟‘‘۔
خان ساماں کا دفتر، جسے عوام ’’خان سامانی‘‘ کہتے تھے، دیوان عام سے بالکل متصل تھا۔ حویلی کے لوگ اسے ’’نشست‘‘ کہتے تھے۔
خواصی نے سینے پر ہاتھ رکھا اور جھک کر عرض کی: ’’حضور کی طلبی پر گوش بر آواز ہیں‘‘۔
’’ولی عہد سوئم بہادر سے التماس کریں کہ حمام میں قدم رنجہ فرما کر ہم سے ہمکلام ہوں‘‘۔ بادشاہ نے فرمایا۔ ’’وہ مجرائی ہولیں تو احترام الدولہ بہادر کو حمام سے تشریف آوری کی زحمت دی جائے‘‘۔
مرزا فتح الملک بہادر اپنے تمام اوصاف حسنہ اور خصائل عالیہ کے باوجود بادشاہ کے منظور نظر نہ تھے۔ یوں تو سب سے چھوٹی اولاد ہونے، اور پھر اس پر طرہ یہ کہ نواب زینت محل کے بطن سے متولد ہونے کے سبب سے مرزا جواں بخت بہادر سب کے چہیتے تھے، لیکن جہاں پناہ کی نگاہ میں مرزا دارا بخت بہادر اور پھر ان کے بعد مرزا کیومرث بہادر زیادہ محبوب تھے۔ مرزا شیخ الملک کو نئے زمانے کی باتوں اور رسوم و اطوار سے دلچسپی تھی اور یہ بات بادشاہ ذی جاہ کو بہت مرغوب طبع نہ تھی۔ لیکن مرزا فتخ الملک بہادر کی اعلیٰ ذہنی لیاقت اور ان کے اکتسابات علمیہ کے معترف حضرت ظل الہیٰ ضرور تھے، اور اس بات کے بھی مرزا فتح الملک بہادر کی شکل و شباہت اور وضع قطع بادشاہ عالم پناہ سے بہت ملتی جلتی تھی۔ بلکہ حویلی کے حسود تو یہ بھی کہتے تھے کہ مرزا فخرو نے جان بوجھ کر ظل سبحانی جیسی وضع قطع اختیار کی ہے کہ لوگ انہیں ہی بادشاہ کا قائم مقام سمجھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ بننے کا ارمان سبھی شاہزادوں کے دل میں تھا۔ سبھی اپنی اپنی جگہ خیال کرتے تھے کہ کسی وقت بھی پانسہ یوں پلٹ سکتا ہے کہ ہمارے ہی پوبارہ ہوجائیں۔ ہر چند کہ انگریز بہادر نے مرزا دارا بخت بہادر کو روز اول ہی سے ولی عہد تسلیم کرلیا تھا، لیکن مغل بادشاہی میں ولی عہدی اور بادشاہی کسی کا استحقاق نہ تھیں۔ اور یہ بھی تھا کہ جسے ولی عہد مقرر کیا گیا، وہ بادشاہ بنا ہی نہیں۔ شہزادہ محمد دارا شکوہ کی مثال سب کے سامنے تھی۔ مغل بادشاہی میں بادشاہت کے لئے کوئی رسوم، کوئی قوانین نہ تھے۔ لہذا مرزا دارا بخت کی ولی عہدی کے باوجود دوسرے شاہزادے بھی دل میں ارمان تو رکھتے ہی تھے کہ ہم ہی تخت کے وارث ہوں۔ اور اس گنجلک، اس الجھن سے بھرے ہوئے ذہنی و قلبی ماحول میں نواب زینت محل کے داخلے نے ایک بالکل ہی نیا عنصر کر دیا تھا۔
نواب زینت محل کو بادشاہ نے 1840 میں اپنی ملکہ بنایا تھا۔ اس وقت بادشاہ کی عمر پینسٹھ سال اور زینت محل کی عمر انیس سال، لیکن بقول بعض سولہ سال تھی۔ گھنشیان لال عاصی نے تو (شاید اس لئے کہ وہ بادشاہ جمجاہ سے کچھ کدورت ان کے زمانہ ولی عہدی سے رکھتے تھے) بادشاہ کی عمر اور بھی زیادہ، اور بادشاہ بیگم کی عمر اور بھی کم لکھی ہے۔ شادی کے موقع پر انہوں نے تاریخ لکھی، بلکہ تاریخ کے نام پر اعلیٰ حضرت کو تضحیک و استہزا کا ہدف بنایابے فصل گل مزا دے ہرگز نہ سیر گلشنبرسائے لاکھ گوہر بے وقت ابر بہمنشاہ وگدا تلک ہے یہ بات سب پہ روشنجو کام ہے جواں کا آئے نہ پیر سے بن
پوچھا جو ہاتفی سے دل نے بوقت گفتندی یہ ندائے غیبی بارہ سواب ہیں چھین اس میں جو طرز نو سے دکھلائے سامری فناستاد تجھ کو جانے ہر شیخ اور برہمنبکر عروس نو کا لوٹے گا کون جوبنہفتاد سالہ دولہا گیارہ برس کی دلہن یہ اشعار کہہ کر عاصی نے اپنا غصہ تو شاید ٹھنڈا کرلیا ہو، لیکن شہر دہلی میں یہ نظم بالکل گرم نہ ہوئی۔ عاصی کو خیال رہا ہوگا کہ چند ہی دنوں میں یہ اشعار بچے بچے کی زبان پر ہوں گے، لیکن دہلی کے ٹھٹھولئے بات کا موقع اور محل، اور حفظ مراتب کے تقاضے خوب سمجھتے تھے۔ عاصی کے اشعار تو فوراً بھلا دیئے گئے، ادھر سال بھر کے اندر ہی اندر شاہ فریدوں فر نے نواب زینت محل کی گود ایک انتہائی خوشرو اور ماہتاب پیشانی بیٹے سے ہری کر دی۔ بدخواہ منہ دیکھتے رہ گئے۔ لیکن نئے بیٹے کی پیدائش اور نواب زینت محل کی جاہ کوشی اپنے مسائل بھی لائی۔ زینت محل نے اپنے بیٹے کی ولی عہدی کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔ مرزا دارا بخت بہادر عرف مرزا شبو کے ہوتے تو کسی تبدیلی کا امکان بظاہر نہ تھا اور حضرت قدر قدرت بادشاہ سلامت بھی کسی تبدیلی کی تائید نہ فرماتے، لیکن ملکہ دوراں نے چپکے چپکے مٹکاف صاحب کلاں بہادر کو اپنا موافق کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ تحفہ تحائف بھجوانے اور صاحب کلاں بہادر کی ضیافتیں کرنے کے علاوہ وہ ان کے یہاں کی میم صاحبان سے بھی رابط پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ہرچند کہ صاحبان ذی شان کے یہاں اپنا رسوخ پیدا کرنے کی یہ مساعی تاہنوز بار آور نہ ہوئی تھیں، لیکن زینت محل کے سامنے عمر عرصہ وسیع تھا اور وہ انتظار کا بھی ہنر جانتی تھیں۔
بادشاہ آہستہ قدم حمام کی طرف بڑھے۔ ادھر مرزا الملک بہادر کو اطلاع ہوئی کی مہابلی یاد فرماتے ہیں۔ ان کی ڈیوڑھی دیوان عام کے سامنے والے میدان کے پرلی طرف تھی۔ وہاں سے حمام تک کا سفر نصف گھڑی سے بھی کم تھا۔ شاہزاد گان و امرائے مغلیہ کے طور کے مطابق اور رؤسائے لکھنوکے طور کے برعکس شاہزادہ غلام فخرالدین بھی صبح برآمد ہونے کے وقت سے رات کو استراحت فرمانے تک پورے درباری لباس میں ملبوس رہتے تھے، خواہ وہ دن دربار میں ان کی حاضری کا نہ ہو۔ لہذا ولی عہد سوئم کو حضوری کے لئے کوئی اہتمام نہ کرنا پڑا اور وہ بہت جلد حمام کے دروازے پر پہنچ گئے۔ وہاں چوبدار شاید انہیں کا منتظر تھا اور وہ انہیں فوراً اندر لے گیا۔
باہر کی کھلی ہوا اور روشنی کے بعد حمام کے اندر کی فضا دھندلی لیکن خنک اور بے حد خوشگوار محسوس ہوئی۔ چونکہ مرزا فخرو بہادر کی طلبی اندرون حمام کئی بار ہو چکی تھی اس لئے انہیں اجنبیت، یا راہ سمجھنے میں کسی مشکل کا احساس نہ ہوا۔ ان کے دل میں اس وقت یہ کرید ضرور تھی کہ اس وقت کوئی ایسے قرائن نہ تھے کہ حضور پر نور کسی بات پر ولی عہد سوئم سے مشاور ہونا چاہتے ہیں، لہذا یہ طلبی ایک خفیف سی فکر مندی کا باعث ضرور تھی۔ لیکن انہیں یہ اطلاع بھی مل گئی تھی کہ حضور پر نور قدر قدرت نے احترام الدولہ کو بھی طلب کیا ہے۔ اس لئے کوئی تشویشناک بات نہ ہوسکتی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭